• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

سیمنٹ ہوگئی نئی، دوڑے گی ویکیوم ٹرین، سنیں گے نت نئی آوازیں

ٹیکنالوجی کا اُفق مزید وسیع کرنے کے لیے رواں سال سائنس دانوں نے حیران کن دریافتوں اور یجادات کے بے شمار جھنڈے گاڑے اور علم و حکمت، دریافتوں اور ایجادات کے درخت میں متعدد شگوفے پھوٹے۔ اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ تحقیق اور ایجادات کسی بھی ملک کی ترقی کے دواہم پہلو ہیں۔ ان کے بغیر ترقی کرنا ممکن نہیں۔ 

ماہرین نے رواں سال خلائی سفر کو بدلنے والی لیزر ٹیکنالوجی، ہاتھوں کے برابر پرنٹر، برقی اینٹیں، متعدد بیماریوں کا پتا لگانے والی مائیکرو چپس، پاکستان نے اپنا سیٹلائٹ چاند پر بھیجا اور حیران کرنے والی بہت سی چیزیں منظر ِعام پر آئیں ۔2024ء میں ٹیکنالوجی کی دنیامیں مزید کیا کیا ہوا ،اس کا اندازہ آپ کو ایجادات کی جائزہ رپورٹ پڑھ کر ہو جائے گا۔

برق رفتار ٹرین

2024 ء میں کینیڈا کی اسٹارٹ اپ کمپنی نے ایک ایسی برق رفتار ٹرین کا منصوبہ پیش کیا ہے جو ٹورونٹو سے مونٹریال کے درمیان 804 کلومیٹر کا سفر انتہائی آسان کر دیا۔ٹورونٹو کے مقامی اسٹارٹ اپ ٹرانس پوڈ کے مطابق کمپنی کے ہائپر لوپ اسٹائل کی ویکیوم ٹرین میں مسافر 1000 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر کر تی ہے۔ 

یہ فلکس جیٹ ٹرین ویکیوم ٹیوب کے ذریعے ہوا میں معلق ہوتی ہے اور پلازما سے چلائی جاتی ہے ۔ اس طرح کمرشل طیارے کی رفتار سے ٹرین کو چلایا جا تا ہے۔ ٹرانس پوڈ سسٹم کے موجد راین جینزین کے مطابق اس منصوبے کی خاص بات یہ ہے کہ اس کو بنا یا تو طیارے کی طر ح گیا ہے لیکن یہ کام ٹرین کی طر ح کرتی ہے۔ بغیر پروں کے طیارے کے طور پر بنائے گئے اس فلکس جیٹ وہیکل کو بلند رفتار پر ’’اڑنے‘‘ کے لیے بنایا گیا ہے۔

یہ روایتی ریل گاڑی سے کافی چھوٹی ہے، اس کے ڈبے ٹرین کے ڈبوں کی نسبت قدرے تنگ ہیں اور یہ 54 مسافروں یا 10 ٹن کارگو کو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔

اگرچہ مسافروں کی تعداد کم ہے لیکن ٹرانس پوڈ کا کہنا ہے کہ کمپنی اس مسئلے کو ایک وقت میں متعدد گاڑیاں لانچ کر کے حل کرے گی۔ کمپنی کے مطابق ہائپر لُوپ کا استعمال طیاروں کے سفر کی نسبت 44 فی صد کم مہنگا ہوگا جب کہ کاربن ڈائی آکسائیڈ کے فی سال اخراج میں 6 لاکھ 36 ہزار ٹن تک کمی واقع ہوگی۔

اینٹوں اور سیمنٹ کا ماحول دوست متبادل

گزشتہ سال سائنس دانوں نےپیری ڈوٹ نامی پتھر پر تحقیق کی کہ، اس میں پایا جانے والا معدن تعمیراتی شعبے کے سبب ہونے والے کاربن کے اخراج کو کافی حدتک کم کر سکتا ہے۔

ماہرین کے مطابق پیری ڈوٹ کے چمکیلے سبز رنگ کا سبب بننے والے معدن اولیوین کا استعمال مضبوط، پائیدار اور کم کاربن خارج کرنے والے سیمنٹ کو بنانے کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے۔

اس کے علاوہ اس معدن سے بنائے جانے والی اشیاء بھٹے میں بنی اینٹوں اور جپسم بورڈ (عام طور پر استعمال ہونے والی دو اشیاء جو کاربن سے بھرپور ہوتی ہیں ) کی جگہ لے سکتی ہیں۔ سیمنٹ اور اینٹیں بالترتیب آٹھ اور 2.7 فیصد کاربن اخراج کا سبب بنتی ہیں اور ان اشیاء کو اولیوین سے بنے متبادل سے بدل کر کاربن کے عالمی اخراج میں ممکنہ طور پر تقریباً 11 فی صد تک کمی لائی جا سکتی ہے۔

خوش آئند بات یہ ہے کہ ہماری زمین اولیوین سے بھری پڑی ہے۔ یہ اگنیئس چٹانیں زمین کی اوپری مینٹل (زمین کے مرکز اور خول کے درمیان کی تہہ) بناتی ہیں اور سمندروں کی تہیں اس سے بنی ہوئی ہے۔

نِت نئی آوازیں بنانے والا اے آئی ماڈل

محققین نے2024 ء میں ایک ایسا اے آئی آڈیو جنریٹر بنایا ہے جو ایسی آوازیں بنا سکتا ہے جنہیں پہلے کبھی نہ سنا گیا ہو۔فُگاٹو نامی نیا جنریٹیو آرٹیفیشل انٹیلی جنس ماڈل کمپیوٹر چپ ساز کمپنی اِنویڈیا کی ایک ٹیم نے تیار کیا ہے۔

یہ ٹول صارفین کو سادہ سے ٹیکسٹ پرامپٹ استعمال کرتے ہوئے آڈیو کو ایڈٹ یا بنانے کی سہولت دیتا ہے، جیسا کہ کسی گانے سے کوئی مخصوص آلے کو ہٹانا یا کسی کی آواز میں تبدیلی لانا۔

ماہرین کے مطابق یہ آلہ دیگر کسی بھی اے آئی ماڈل سے زیادہ سہولت فراہم کرتا ہے اور نِت نئی آوازوں سے موسیقی کی دنیا کو بدلنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ فُوگاٹو سے ٹرمپٹ سے بھونکنے یا کسی سیکسو فون سے میاؤں کی آواز نکالی جا سکتی ہے۔ صارفین جوبھی لکھیں گے، ماڈل وہ بنا سکتا ہے۔

صنعتوں میں کلین انرجی سے حرارت فراہم کرنے والی ’’برقی اینٹ‘‘

میساچوسیٹس انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی (ایم آئی ٹی) کے سائنس دانوں کی ایک ٹیم نےگزشتہ سال ایک نئی قسم کی بیٹری بنائی ہے جو صنعتوں میں استعمال ہونے والی حرارت کو قابلِ تجدید بجلی کی مدد سے بنانے میں مدد دے گی۔ یہ جول ہایو تھرمل بیٹری یا ’’ای-برِک‘ ‘(برقی اینٹ)، دنیا کی ایک ایسی صنعت میں قابلِ تجدید توانائی متعارف کرانے کی کوشش ہے، جس کو کاربن سے پاک کرنا سب سے مشکل ہے۔

یہ تھرمل بیٹری صاف بجلی کو استعمال کرتے ہوئے 1800 ڈگری سیلسیئس تک کا درجہ ٔحرارت پیدا کر سکتی ہے (یہ مقدار صنعتوں میں مینوفیکچرنگ کے لیے ضروری ہوتی ہے) جو کہ پہلے صرف فاسل ایندھن سے ہی ممکن ہوتی تھی۔

ایم آئی ٹی میں ہاٹ برک بیٹری کی تشکیل شروع کرنے والے ڈاکٹر ڈینیئل اسٹیک کا کہنا ہے کہ بجلی سے حرارت پیدا کرنے کے دیگر ذرائع کے مقابلے میں اس بیٹری کو زیادہ تپش اور طویل مدت تک فعال رکھا جا سکتا ہے،جس کا مطلب صنعتوں میں فاسل ایندھن کا متبادل ہے ،جس کو کسی اور طریقے سے ڈی کاربنائز نہیں کیا جا سکتا۔

فائر برکس میں گھنٹوں تک مؤثر انداز میں حرارت کو ذخیرہ کر کے بطور بیٹری استعمال کیا جا سکتا ہے۔ ڈاکٹر ڈینیئل کے مطابق الیکٹریفائڈ تھرمل اینٹیں کم لاگت میں بنائی جاسکتی ہیں۔ یہ موجودہ پکی اینٹوں سے 98 فی صد تک مشابہت رکھتی ہیں اور اس ہی عمل کے تحت ان کو بھی بنایا جا سکتا ہے۔

خلائی سفر کو بدلنے والی نئی لیزر ٹیکنالوجی

2024 ءمیں ایڈنبرا کی ہیریٹ واٹ یونیورسٹی میں تشکیل کے مراحل میں موجود یہ ٹیکنالوجی ضیائی تالیف کے عمل کے ذریعے پودوں اور بیکٹیریا کے روشنی کو کیمیکل توانائی میں بدلنے پر مبنی ہے۔

اس ٹیکنالوجی کا مقصد مخصوص قسم کے ضیائی تالیفی بیکٹیریا کے روشنی استعمال کرنے والے اینٹینا کو کام میں لا کر سورج کی روشنی سے حاصل ہونے والی توانائی کو بڑھانا اور ان کو لیزر شعاعوں میں بدلنا ہے ،جس سے توانائی کو خلاء میں ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا جا سکے۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ سورج کی روشنی کو توانائی میں بدلنے والی بیکٹیریا کی قدرتی صلاحیت پر مبنی لیزر مریخ پر جانے والے مشنز کے ساتھ زمین پر شفاف توانائی کا ذریعہ فراہم کر سکتی ہیں۔ 

ماہرین اس متعلق بھی پُرامید ہیں کہ مصنوعی پرزوں کے بجائے قدرتی مٹیریل کا استعمال کا مطلب ہے کہ خلاء میں لیزر کو مؤثر انداز میں دوبارہ بنایا جا سکے، یعنی زمین سے متبادل پرزے بھیجے بغیر یہ لیزر اپنا کام جاری رکھ سکیں۔ 

روایتی سیمی کنڈکٹر سولر پینلز کے برعکس یہ ٹیکنالوجی کسی الیکٹرونک پرزوں پر انحصار نہیں کرتی۔ اس کو APACE منصوبے کا نام دیا گیا ہے۔محققین کا کہنا ہے کہ اگر یہ منصوبہ کامیاب ہو جاتا ہے تو اس کو عالمی خلائی ایجنسیز خلائی تحقیقات کے ساتھ زمین پر شفاف اور بغیر تار کی منتقلی کے نئے طریقہ کے طور پر استعمال کیا جا سکے گا۔

متعدد بیماریوں کا پتہ لگانے والی مائیکروچپس

تیزی سے پھیلنے والے وائرس سے لے کر دائمی بیماریوں اور منشیات کے خلاف مزاحمت کرنے والے بیکٹیریا جیسے خطرات سے دو چار دنیا میں، فوری، قابل اعتماد اور آسان گھریلو تشخیصی ٹیسٹوں کی ضرورت بھی بڑھ گئی ہے۔ سائنس دانوںنے اس مسئلے کے حل کے لیے گزشتہ سال متعدد بیماریوں کا بآسانی پتہ لگانے والی مائیکرو چپس تیار کی ہے۔

یہ بالکل اسمارٹ واچ کی طر ح چھوٹی اور پورٹیبل ہے جو کہیں بھی فعال ہو سکتی ہے۔ یہ جدید ٹیکنالوجی فیلڈ ایفیکٹ ٹرانزسٹرز (ایف ای ٹیز) کا استعمال کرتی ہے جو چھوٹے الیکٹرانک سینسرز ہیں جو براہ راست حیاتیاتی مارکروں کا پتہ لگاتے ہیں اور انہیں ڈیجیٹل سگنلز میں تبدیل کرتے ہیں۔

محققین کا کہنا ہے کہ یہ جدید نقطۂ نظر تیز تر نتائج، ایک ساتھ متعدد بیماریوں کی جانچ اور صحت کی دیکھ بھال فراہم کرنے والوں کو فوری ڈیٹا کی ترسیل کے قابل بناتا ہے۔

نشئی ڈرائیورز کو پکڑنے والا پہلا اے آئی کیمرہ

شراب یا منشیات کے زیر اثر گاڑی چلانے والوں کو اب اے آئی کیمرے سے پکڑا جا سکے گا 2024ء میں پہلی بار انگلینڈ میں ڈیون اور کارن وال کاؤنٹی میں تجربہ کیا گیا ہے۔اے آئی کیمرہ ایسے ڈرائیوروں کے رویے کا پتہ لگا سکتا ہے جو شراب یا منشیات کی وجہ سے غیرمتوازن ہو جاتے ہیں۔ 

نشاندہی پر فوری پولیس کو الرٹ جاتا ہے، جس کے بعد پولیس سڑک کے کنارے گاڑی کو روک کر، ڈرائیور سے بات کرکے الکوحل یا منشیات کے اثرات کو چیک کرنے والا ٹیسٹ انجام دے سکتی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہےکہ اگر ہم زندگیوں کو تباہ کرنے والے کسی واقعے کا پہلے سے پتہ لگا لیں تو ہم سب محفوظ رہیں گے۔کیمرہ کسی بھی سڑک پر تیزی سے گھوم سکتا ہے اور بغیر کسی انتباہ کے ڈرائیوروں کو اس بات کا علم ہی نہیں ہونے دیتا کہ وہ کیمرے میں آگئے ہیں جب تک کہ پولیس انہیں روک نہ لے۔

پانی میں گھل جانے والا پلاسٹک

جاپان میں سائنس دانوں نے گزشتہ سال روایتی پلاسٹک کا ماحول دوست متبادل بنایا ہے جو سمندر میں مائیکرو پلاسٹک چھوڑے بغیر چند گھنٹوں کے اندر تحلیل ہو سکتا ہے۔ موجودہ دستیاب ری سائیکل ہونے کے قابل پلاسٹک پانی میں تحلیل نہیں ہوتے جب کہ کچھ پلاسٹک فضلے کو تحلیل ہونے کے لیے 500 برس سے زیادہ عرصہ لگ سکتا ہے۔

اس کے مقابلے میں رائکن یونیورسٹی کے سائنس دانوں کی جانب سے بنایا گیا نیا متبادل جب نمکین پانی میں جاتا ہےتو چند گھنٹوں میں اور مٹی میں جا کر 10 دن میں تحلیل ہو جاتا ہے۔ مٹی میں تحلیل ہونے ساتھ یہ کھاد جیسا کیمیکل بھی بناتا ہے۔

تحقیق کے سربراہ ٹاکوزو آئڈا کا کہنا ہے کہ اس نئے مٹیریل کے ساتھ ہم نے پلاسٹک کا ایک نیا خاندان بنایا ہے جو مضبوط اور مستحکم ہے، اس کو دوبارہ کئی طرح سے استعمال کیا جا سکتا ہے اور سب سے اہم یہ کہ اس سے مائیکرو پلاسٹک نہیں بنتے۔

فالج کے مریضوں کے معائنے کے لیے نئی ڈیوائس 

2024 ء میں سائنس دانوں نے ایک نئی قسم کا میڈیکل اسکینرہلکی مقناطیسی فیلڈ میں فالج کے مریضوں کے دماغوں کو پہنچے نقصان کی نشان دہی کے لیے تیار کیا ہے۔ فیلڈ سائیکلنگ امیجر (ایف سی آئی، جس کو اپنی نوعیت کا دنیا کا پہلا اسکینرکہا جا رہا ہے) ایم آر آئی سے بنا ہے لیکن یہ انتہائی ہلکی مقناطیسی فیلڈ یہاں تک کے فریج میگنیٹ سے کم پر بھی کام کرتے ہوئے اچھے نتائج دے سکتا ہے۔

یونیورسٹی آف ایبرڈین سے تعلق رکھنے والے سائنس دان کا کہنا ہے کہ ڈیوائس ہمیں یہ دیکھنے کی صلاحیت دے گی کہ بیماریوں سے اعضاء کتنے متاثر ہیں جو کہ ماضی میں ممکن نہیں تھا۔ میگنیٹک ریزوننس امیجنگ (ایم آر آئی) طاقتور مقناطیسی فیلڈ اور ریڈیو لہروں کا استعمال کرتے ہوئے جسم کو چھوئے بغیر اس کے اندر کی تفصیلی تصاویر بناتی ہے۔

ایف سی آئی اسکینر بھی اس ہی کلیے پر کام کرتا ہےلیکن اس کےڈیزائن کو اس کو مریض کے اسکین کے دوران مقناطیسی فیلڈ کی طاقت کم یا زیادہ کرنے کی صلاحیت دیتا ہے۔

محققین کا کہنا ہے کہ ایک ڈیوائس میں مقناطیسی فیلڈ کو کم زیادہ کرنے کی صلاحیت کا ہونا بیک وقت متعدد اسکینرز ہونے جیسا ہے اور اس لیے یہ روایتی ایم آر آئی کے مقابلے میں زیادہ اور مختلف معلومات اکٹھی کر سکتی ہے۔

ہاتھ کے سائز جتنا تھری ڈی پرنٹر

2024 ء میں ماہرین نےہاتھوں کے سائز کے برابر تھری ڈی پرنٹر متعارف کروایا ہے۔ اس نئے تھری ڈی پرنٹر کا سائز صرف چند ملی میٹر ہے ۔ یہ انتہائی چھوٹا پرنٹر ایک بھاری ٹیبل ٹاپ تھری ڈی پرنٹر جس میں بڑے حصے حرکت پذیر ہوتے ہیں ،کے بجائے ایک چھوٹی چپ پر اینٹینا کا استعمال کرتا ہے، تاکہ لیزر کی شعاعوں کی مدد سے ریزن 3 جہتی پرنٹ تیار کرسکے۔

نظر آنے والی روشنی کے سامنے آنے پر ریزن صرف سیکنڈوں میں سخت اور حسب ضرورت شکلوں میں بدل جاتا ہے اور تھری ڈی پرنٹ تیار ہوجاتا ہے۔ایم آئی ٹی میں الیکٹریکل انجینئر جیلینا نوٹاروس کے مطابق یہ سسٹم مکمل طور پر اس بات کی وضاحت کر تا ہے کہ تھری ڈی پرنٹر اصل میں کیا ہے؟ اب یہ ایک بڑا باکس نہیں ہے جو لیب میں بینچ پر بیٹھ کر اشیا بناتا ہے بلکہ ایسی چیز ہے جو ہاتھ میں پکڑی جاتی ہے اور پورٹیبل ہوتی ہے۔

نظروں سے اوجھل کر دینے والا نیا میٹریل

چینی سائنس دانوں نے2024 ء میں ایک نیا کیموفلاج میٹریل بنایا ہے جو اپنے اطراف کے حساب سے رنگ بدل لیتا ہے۔ یہ میٹریل مستقبل میں نظروں سے اوجھل کر دینے والی اشیاء بنانے میں مدد دے سکتا ہے۔ کئی جانور خود کو اطراف میں ملانے کے لیے کیموفلاج کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

اس عمل کی نقل کرنے والے انسان کے بنائے سسٹم کافی پیچیدہ اور کئی جہتوں پر مشتمل ہوتے ہیں، جس میں وہ اطراف کی شناخت کرتے ہیں، ان کی خصوصیات سمجھتے ہیں اور پھر اس کے مطابق تبدیلی لاتے ہیں۔

اس بارے میں سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ یہ کیموفلاج سسٹم برقی آلات پر بہت انحصار کرتے ہیں جن کو پیچیدہ ساخت، مشکل استعمال اور زیادہ قیمت جیسے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔ 

تحقیق میں سائنس دانوں نے نئے قسم کے مٹیریل کے متعلق بتایا ہے کہ یہ ایک خاص عمل سے گزرتے ہیں، جس کو ’’سیلف-اڈیپٹیو فوٹوکرومزم‘‘ (ایس اے پی) کہا جاتا ہے، تاکہ آکٹوپس یا گرگٹ کی طرح اطراف کے ساتھ مل جانے کی صلاحیت حاصل کی جاسکے۔

جب ایس اے پی میٹریل روشنی کی مخصوص ویو لینتھ کے سامنے آتے ہیں تو ان کے مالیکیول نئی ترتیب میں آتے ہیں اور میٹریل کے رنگ تبدیل ہونے کا سبب بنتے ہیں۔ یہ نئے کیمو فلا جنگ پرانے کیمو فلا جنگ کے مقابلے میں سادہ ،سستے اور استعمال میں آسان ہیں۔

آن لائن جعلسازی سے بچانے کے لیے ٹول

برطانیہ کے ماہرین نے 2024ء میں صارفین کو انٹرنیٹ جعلسازیوں سے بچانے کے لیے جعلسازی کی شناخت کرنے والا نیا ٹول متعارف کرا یا ہے، جس کو ’’آسک ِسلور‘‘ کانام دیا گیا ہے۔ اس ٹول کو واٹس ایپ میں استعمال کیا جاسکتا ہے۔ 

صارفین کسی بھی مشکوک ٹیکسٹ، ای میل یا ویب سائٹ کا اسکرین شاٹ اپ لوڈ کریں گے اور دیکھیں گے کہ آیا یہ محفوظ ہیں یا نہیں۔ صارف کے اس ٹول میں سائن اپ ہونے کے بعد یہ دیگر کونٹیکٹ کی طرح ظاہر ہوگا اور اے آئی کا استعمال کرتے فوری جائزہ لے کر بتائے گا کہ آیا مقصود چیٹ اسکیم ہے یا نہیں۔

سیٹ اپ کرنے کے بعد صارف کو بتایا جائے کہ آیا ای میل، ٹیکسٹ یا ویب سائٹ محفوظ ہے اور اسکیم کو رپورٹ کرنے جیسے اقدام سمیت دیگر اقدام بتائے گا۔ اسکیم پروٹیکشن گروپ گیٹ سیف آن لائن نے یہ آلہ بنانے والی کمپنی کے ساتھ اشتراک کر کے پبلک کے لیے یہ ٹول لانچ کیا ہے ۔یہ آلہ آن لائن اسکیم سے محفوظ رہنے کے لیے آگہی میں مدد دے گا۔

چاند پر بھیجنے والا پاکستان کا پہلا سیٹلائٹ’’ آئی کیوب قمر‘‘

2024ء میں پاکستان بھی دنیا کے اُن ممالک کی فہرست میں شامل ہوگیا ہے جو چاند تک پہنچ چکے ہیں۔ پاکستان نے پہلی بار چاند پر بھیجنے کے لیے سیٹلائٹ بنایا ہے ،جس کانام ’’آئی کیوب قمر‘‘ ہے۔ اس کو انسٹی ٹیوٹ آف اسپیس ٹیکنالوجی نے چین کی شنگھائی یونیورسٹی اور پاکستان نیشنل اسپیس ایجنسی سپارکو کے تعاون سے ڈیزائن اور تیار کیا ہے۔

یہ دنیا کا پہلا مشن ہے جو چاند کی دوسری طرف سے نمونے حاصل کرے گا، پاکستانی سیٹلائٹ آئی کیوب قمر دو آپٹیکل کیمروں سے لیس ہے جو چاند کی سطح کی تصاویر لینے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔

ٹیسٹنگ اور قابلیت کے مرحلے سے کامیابی سے گزرنے کے بعد آئی کیوب قمر کو چین کےچینگ 6مشن کے ساتھ منسلک کیا گیا تھا۔ آئی کیوب کیو کو بھی اسی آربٹر سے الگ کرکے چاند کے مدار میں چھوڑا گیا جہاں یہ نوے دنوں تک ایکٹو رہا، اس سیٹلائٹ کو اسلام آباد میں موجودا سپیس انسٹیٹیوٹ کے کنٹرول سینٹر سے کنٹرول کیا گیا۔ 

اس سیٹلایٹ نےچاند کی سطح کی تصاویر کے ساتھ ساتھ چاند کے انتہائی لطیف مقناطیسی میدان کو ماپنے کی بھی کوشش کی۔آئی کیوب دراصل ایک خلائی سائنس کی اصطلاح ہے، جس کا مقصد چھوٹا سیٹلائٹ ہوتا ہے۔ یہ خلائی مشن پاکستان کی بہت بڑی کامیابی ہے۔

اس سیٹلائٹ نے چوبیس گھنٹے میں چاند کے گرد بارہ بارہ گھنٹوں پر مشتمل دو چکر کاٹے۔ چاند کی جنوبی قطب وہ حصہ ہے جو زمین سے نظر نہیں آتا۔ نیز اس حصے پر بہت کم تحقیق ہوئی ہے۔ اس میں چاند کی جنوبی قطب کے مشاہدے اور تحقیق کے لئے دو کیمرے اور سینسرز اور سولر بیٹریاں لگائی گئی ہیں۔

پاکستان کے سیٹلائٹ مشن نے 3 سے 6 ماہ تک چاند کے اطراف چکر لگائے ، سیٹلائٹ کی مدد سے چاند کی سطح کی مختلف تصاویر لی گئی۔ آٹھ ممالک میں سے صرف پاکستان کے منصوبے کو قبول کیا جانا، ہمارے سائنسدانوں اور ماہرین کی قابلیت کا اعتراف ہے اور یہ تیکنیکی ترقی کے سفر کا بہت تاریخی لمحہ ہے، اس اہم کامیابی سے پاکستان خلا کے بامقصد استعمال کے نئے دور میں داخل ہوگیا ہے۔ 

یہ کامیابی سیٹلائٹ کمیونیکیشن کے شعبے میں پاکستان کی صلاحیتوں کو بڑھائے گی، سائنسی تحقیق، اقتصادی ترقی اور قومی سلامتی کے لیے نئے مواقع بھی پیدا کرے گی۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
سائنس و ٹیکنالوجی سے مزید