• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

"داس کپیٹل"کے خالق کارل مارکس نے کہا تھا: "تاریخ خود کو دہراتی ہے، پہلی بار ایک المیہ کے طور پر، اور دوسری بار تمسخر کے طور پر۔" سال 2024 میں رونما ہونے والے واقعات، حادات یا سانحات پر نظر ڈالیں تو یہ بات درست معلوم ہوتی ہے۔گزرا سال اہم سیاسی اور عسکری تبدیلیوں کا سال تھا۔

بنگلادیش میں شیخ حسینہ واجد کی حکومت کا خاتمہ، فلسطین پر اسرائیل کے وحشیانہ حملے اور شام میں بشار الاسد کی حکومت کا زوال، ان تینوں واقعات میں ماضی کا جبر، تلخیاں اور غلطیاں کارفرما نظر آتی ہیں۔ ان واقعات نے نہ صرف ان ممالک، بلکہ عالمی سیاست پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے۔ زیر نذر مضمون میں ان واقعات کا مختصراً جائزہ نذر قارئین ہے۔

شیخ حسینہ کی آمرانہ طرز حکومت کا خاتمہ:

عالمی سطح پر رونما ہونے والے کسی اور واقعے کے برعکس شیخ حسینہ کی برطرفی تھی، جس نے برصغیر میں پاور اسٹرکچر پر گہرے اثرات مرتب کیے۔ بنگلادیش میں بھارتی مفادات کو نقصان پہنچا، اور پاکستان کے لیے، جس کی مخالفت شیخ حسینہ کی پالیسیوں کا بنیادی جزو تھی، تعلقات میں بہتری کی گنجائش پیدا ہوئی۔

تاریخی پس منظر:

بنگلادیش سیاسی و جغرافیائی طور پر پاکستان اور ہندوستان دونوں ہی کا پڑوسی ہے۔ سقوط ڈھاکا کے نتیجے میں پاکستان نے اپنا ایک بازو کھو دیا، جس کا ہندوستان میں جشن منایااور دو قومی نظریے کو خلیج بنگال میں غرق کرنے کا دعویٰ کیا گیا۔

حسینہ واجد، کے والد شیخ مجیب الرحمان نے 71 میں علیحدگی کی تحریک کی قیادت کی تھی۔ شیخ حسینہ نے اقتدار میں آنے کے بعد بھارت نواز اور پاکستان مخالف پالیسی اپنائی۔ 

اپنے دور اقتدار میں وہ ایک عرصے سے تنقید کی زد میں تھیں۔ ان کے دور میں حزب اختلاف کو قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنی پڑیں، مخالفین کو پھانسیاں دی گئیں، جس کی وجہ سے عوام میں شدید بے چینی پائی جاتی تھی۔

احتجاجی تحریک کا آغاز:

شیخ حسینہ کی عوامی لیگ 2008 کے انتخابات میں کام یابی کے بعد برسراقتدار آئی،گو اس دوران ملک میں معاشی ترقی ہوئی، مگر اقتدار کو طول دینے کے لیے اختیار کردہ پالیسیوں، غیر شفاف انتخابات، اپوزیشن پر مظالم اور بدعنوانی نے حکومت کی جڑوں کو کھوکھلا کرنا شروع کر دیا۔

سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق عوامی لیگ نے عوام کے حق رائے دہی کو پامال کیا، اور اپنے خلاف آواز اٹھانے والوں کو جیل میں ڈالا۔ ڈیڑھ عشروں میں منصفانہ انتخابات کا انعقاد نہ ہوسکا۔ 

میڈیا، سوشل میڈیا اور مخالف جماعتوں پر سخت پابندیاں عائد کی گئیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق شیخ حسینہ نے اپنے اقتدار کو برقرار رکھنے کے لئے بیوروکریسی اور پولیس کے ذریعے عوام پر دباؤ ڈالا۔

گزرے سال 5 جون کو بنگلا دیش ہائی کورٹ نے کوٹہ سسٹم سے متعلق فیصلہ دیتے ہوئے 2018 میں جاری ہونے والے نوٹیفکیشن کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ اس فیصلے کے بعد چند ہفتوں میں طلبا تحریک نے زور پکڑا، جو ابتدا میں کوٹہ اصلاحات تک محدود تھی، لیکن بعد میں ملک بھر کے طبقے اس کا حصہ بن گئے، اور ایک سیاسی تحریک کی شکل اختیار کر لی ،جو شیخ حسینہ کی 15 سالہ حکمرانی کے خاتمے کا باعث بنی۔

اگست کے آغاز میں یہ احتجاج اتنی شدت اختیار کر گیا کہ معاملات شیخ حسینہ کے ہاتھ سے نکل گئے۔ بنگلادیشی فوج نے ان کے احکامات نظر انداز کرتے ہوئے مظاہرین کے خلاف سخت کارروائی سے اجتناب کیا ۔ چیف آف آرمی اسٹاف، جنرل وقار الزماں نے کہا کہ ،فوج ہمیشہ عوام کے ساتھ کھڑی رہی ہے، اور اب بھی رہے گی۔

بالآخر پانچ اگست کو، ایک ماہ سے جاری پرتشدد مظاہروں کے بعد شیخ حسینہ استعفی دے کر بھارت چلی گئیں۔ آرمی چیف نے سیاسی جماعتوں اور مظاہرین کی قیادت سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کیا، جس کے بعد ملک میں ایک عبوری حکومت تشکیل دی گئی۔ 

بنگلا دیشی صدر، محمد شہاب الدین نے سابق وزیراعظم اور اپوزیشن رہنما، خالدہ ضیا کو رہا کرنے کا حکم دیا۔ اب ممتاز بینکار، ڈاکٹر محمد یونس عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر کے طور پر ذمے داریاں نبھا رہے ہیں، ا نہوں نے آیندہ برس کے اختتام یا 2026 کے آغاز میں عام انتخابات کا عندیہ دیا ہے۔

شام میں نئی سہ پہر: بشارالاسد کی سرکار کا خاتمہ

شام ایک طویل عرصے سے خانہ جنگی کی لپیٹ میں ہے، جس نے مشرق وسطیٰ کی اس ریاست کو تہہ و بالا کر ڈالا، اور لاکھوں بے گناہ افراد لقمہ اجل بن گئے۔ 

اس خانہ جنگی کے باوجود اسد خاندان کے اقتدار کا سورج گزشتہ پچاس برس سے شام کے آسمان پر چمک رہا تھا، دسمبر2024 کے آغاز تک کوئی یہ پیش گوئی نہیں کرسکتا تھا کہ شام میں ایک بڑی تبدیلی رونما ہونے والی ہے۔ 

یہی وجہ ہے کہ تجزیہ کاروں نے 8 دسمبر کی صبح بشار الاسد کے اقتدار کے خاتمے کو ایک حیران کن تبدیلی کہا۔ گو شام کے مختلف شہروں میں خانہ جنگی جاری تھی، مگر دمشق پر بشار کی گرفت مضبوط تھی۔ دمشق نہ صرف بشار کی حکومت، بلکہ شام کا سیاسی، ثقافتی، اور اقتصادی مرکز سمجھا جاتا ہے۔

اسد کا دور اقتدار:

بشار الاسد 2000 میں اپنے والد حافظ الاسد کی وفات کے بعد اقتدار میں آئے تھے۔ انہیں ابتدا میں اپنے والد کی وراثت سنبھالنے کے لیے تیار نہیں کیا گیا تھا۔ 1994 میں دمشق کے قریب ایک کار حادثے میں ان کے بڑے بھائی باسل کی موت کے بعدانہیں وراثت کی ذمے داریاں سونپی گئیں۔

ترکی، عراق، اردن، لبنان اور اسرائیل کا یہ پڑوسی اپنے جغرافیائی محل وقوع کی وجہ سے مشرق وسطیٰ کا اہم سیاسی کھلاڑی تھا، البتہ خطے میں امریکی جنگ جوئی اور تیونس سے شروع ہونے والی عرب بہار کی وجہ سے طاقت کا توازن بگڑنے لگا۔ 2011 میں حکومت کے خلاف خانہ جنگی شروع ہوئی، جس میں سیکڑوں افراد ہلاک اور بے گھر ہوئے۔

روس اور ایران سے وابستہ مسلح گروہ بشار کی حمایت میں، جب کہ ترکی اور خلیج فارس کے ممالک مخالف باغی گروپوں کی حمایت میں سامنے آگئے۔ ترکی، شام میں موجود کرد عسکریت پسند گروپس کو اپنے لیے خطرہ سمجھتا اور ان کے خلاف دیگر گروپس کی معاونت کرتا تھا۔اگرچہ آغاز میں بشار کے خلاف مظاہرے آزادی اور جمہوری نعروں کے ساتھ شروع ہوئے تھے، لیکن پھراس میں فرقہ وارانہ عنصر غالب آتا گیا۔

باغیوں کی پیش قدمی اور سقوط دمشق:

ترکی نے اسد سے مذاکرات کے ذریعے شام کے بحران کا حل نکالنے کی کوشش کی تھی، تاکہ شامی پناہ گزین واپس لوٹ سکیں، مگر شام نے اس تجویز کو مسترد کر دیا۔

بشار کے خلاف شروع ہونے والی عسکری جدوجہد کی قیادت سخت گیر مذہبی تنظیم "ہیئۃ تحریر الشام " کر رہی تھی، جس نے جلد ہی شام کے اہم شہر حلب، حما، اور حمص پر قبضہ کر لیا۔ تجزیہ کاروں کو توقع نہیں تھی کہ دمشق بھی کچھ ہی گھنٹوں میں ڈھے جائے گا، آٹھ دسمبر کو یہ واقعہ بھی رونما ہوگیا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق یہ تبدیلی شام اور خطے میں طاقت کے توازن کو بدل سکتی ہے۔ بشار الاسد کے دور اقتدار میں شام ایرانی پالیسیوں کا تسلسل دکھائی دیتا تھا۔ شام کی کڑیاں حزب اللہ، یمن کے حوثیوں، عراقی ملیشیا اور غزہ میں حماس کی سرگرمیوں سے بھی ملتی تھیں۔ بشار کی رخصتی کے بعد ان کے مفادات کو زک پہنچ سکتی ہے۔ دوسری جانب اسرائیل اور اس کے اتحادیوں کی قوت میں اضافے کا اندیشہ ہے۔ یاد رہے کہ اسرائیل نے اس تبدیلی کا خیرمقدم کیا ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق نئی قیادت نے اگرچہ مثبت اشارے دیے ہیں، مگر خانہ جنگی کے شکار شام کے پاس وسائل کی کمی اور مشکلات کا انبار ہے۔ حالیہ تبدیلی سے شام میں ایک طاقت کا خلا پیدا ہو سکتا ہے۔

اسرائیل فلسطین تنازع اور غزہ کا انسانی المیہ

فلسطینی دنیا کے مظلوم ترین شہری اور اسرائیل متنازع ترین سرزمین ہے۔ بیسویں صدی کے وسط میں امریکی آشیرباد پر سام راجی قوتوں نے عرب کنارے اسرائیلی ریاست قائم کرکے ایک ایسے تنازعے کو جنم دیا، جس سے مظالم کی بے انت داستان کا آغاز ہوا، جو سال 2024 میں ایک المیے کی شکل اختیار کر گئی۔ بدقسمتی سے عالمی فورم پر جنگ بندی کی بات تو کی جاتی ہے، مگر عملی اقدامات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ 

اقوام متحدہ کی قراردادوں کو نظر انداز کیا گیا، اور امریکا نے اپنا وزن اسرائیل کے پلڑے میں ڈال دیا۔حال ہی میں، بی بی سی نے اپنی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا ہے کہ فیس بک نے اسرائیل غزہ جنگ کے دوران فلسطینی نیوز ایجنسی کی خبروں کی رسائی یا ریچ کو غیراعلانیہ طور پر محدود کردیا ہے۔ 

یہ تحقیق شواہد فراہم کرتی ہے کہ اکتوبر 2023 سے غزہ اور مغربی کنارے میں موجود خبررساں اداروں کی آڈئینس انگیجمنٹ میں کمی واقع ہوئی ہے۔اس نوع کے اقدامات سے فیصلہ سازوں کی سوچ اور رویے کا اندازہ لگاجاسکتا ہے۔

تاریخی پس منظر

اسرائیل فلسطین تنازعے کی جڑیں بہت گہریں ہیں۔ یہ تنازع فلسطینی زمین پر یہودی ریاست کے قیام سے شروع ہوا۔ آغاز 20ویں صدی کے وسط میں ہوا، کئی جنگیں لڑی گئیں، مگر سام راجی آشیرباد، سرمایے اور ٹیکنالوجی کی قوت کے سہارے اسرائیل اپنی سرحدیں بڑھاتا رہا اور زمین کے باسی محدود ہوتے گئے۔1967کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیل نے مغربی کنارے، غزہ کی پٹی اور مشرقی یروشلم پر قبضہ کر کے یہاں یہودی آباد کاری شروع کر دی،فلسطینوں کو دیوار سے لگا دیا گیا۔ ان مظالم کے خلاف مسلح جدوجہد کا سلسلہ شروع ہوا۔ 

حماس سمیت مختلف تنظیمیں سامنے آئیں، جنھیں مسلم ممالک کی غیر اعلانیہ حمایت حاصل رہی۔ اس جدوجہد کا مقصد فلسطینی علاقوں سے اسرائیلی فوج کی بے دخلی اور آزاد فلسطینی ریاست کا قیام تھا۔ عسکری جدوجہد کے ساتھ ساتھ مذاکرات کا راستہ بھی اختیار کیا گیا، مگر اسرائیل کی جانب سے لچک نہیں دکھائی گئی۔

موجودہ صورت حال:

جنوبی اسرائیل کے ایک صحرا میں منعقد ’سپر نووا فیسٹیول‘ پر سات اکتوبر 2023 کو ہونے والے راکٹ حملوں نے اس تنازع پر جلتی پر تیل کا کام کیا۔ اسرائیل اور عالمی دنیا نے حماس کو اس کا ذمے دار ٹھہرایا، اور تین سو افراد کی ہلاکت کا دعویٰ کیا۔

اس واقعے کو جواز بنا کر اسرائیل نے غزہ پر بمباری شروع کر دی،اس دوران شہریوں، اسپتالوں اور درس گاہوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ پہلے ہی حملے میں ہلاکتوں کے تعداد ہزاروں میں پہنچ گئی، مگر عالمی دباؤ کے باوجود یہ سلسلہ رُک نہیں سکا۔ اسرائیل نے اپنے حملوں میں حماس کی اعلی قیادت کو بھی نشانہ بنایا، اور کئی اہم راہ نما کو جاں بحق کیا۔ البتہ حماس کی جانب سے جدوجہد اور مزاحمت کا سلسلہ جاری رہا۔

اس پورے تنازع سے ایک بڑے انسانی المیے نے جنم لیا۔ غزہ میں غذائی اور طبی بحران پیدا ہوگیا، جو سال 2024 میں بھی جاری رہا۔ سماجی اور فلاحی تنظیمیں جنگ زدہ علاقے میں امداد پہنچانے میں ناکام رہیں۔ 

ان تنظیموں کی جانب سے اسرائیل کی ہٹ دھرمی کو اس کی وجہ ٹھہرایا گیا، جب کہ اسرائیل نے ان تنظیموں کی ناقص حکمت عملی کو اس کا ذمے دار ٹھہرایا۔

اسرائیل فلسطین تنازع پیچیدہ شکل اختیار کر گیا ہے۔ خطے کی بدلتی صورت حال، شام سے بشار کی رخصتی کے بعد اسرائیلی اثرو رسوخ بڑھتا ہوا نظر آرہا ہے۔ بدقسمتی سے عالمی دنیا اور مسلم ممالک بھی اس ضمن میں اپنا کردار ادا نہیں کرسکے۔