• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ جمعہ کو افواج پاکستان کے ترجمان لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے پریس بریفنگ میں مختلف معاملات پر تفصیلی اور مدلل گفتگو کی اور خصوصی طور پر پاک فوج کے عزم کی بھرپور ترجمانی کی۔ ان کی پریس بریفنگ کے بعض حصوں پر کچھ لوگوں نے اعتراضات شروع کردیئے جو انتہائی نامناسب ہیں۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ جو آپ کو ناپسند ہو اس کو سب ناپسند کریں اور جو آپ کو پسند ہو سب اس کی تائید کریں۔ جو آپ کیلئے پہلے حلال تھا اب اس کو حرام مانا جائے کیونکہ اب آپ اسکو حرام کہتے ہیں۔ ان لوگوں نے اس پریس بریفنگ میں دہشت گردی کی وارداتوں اور خوارج کے بارے میں پاک فوج کے اقدامات پر کوئی خوشی کا اظہار کیا نہ خوارج کی پاک فوج کے ہاتھوں ہلاکتوں اور جہنم رسید کرنے پر تعریف کی نہ پاک فوج کے شہداء کو سلام اور خراج عقیدت پیش کیا۔ انہوں نے یہ اعتراض کیا کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے ملٹری کورٹس، 9مئی اور 26نومبر میں ملوث افراد کے بارے میں کیوں بات کی۔ یہ تبصرے اور بیانات نہایت قابل افسوس ہیں بلکہ یہ حقیقت سے انکار اور عوام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہیں۔ کوئی یہ تو بتائے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر نے کوئی ایک بات بھی ایسی کی ہو جو حقیقت سے ماورا ہو۔ سب کچھ پوری قوم نے دیکھا ہے اور ثبوت و شواہد بھی موجود ہیں۔ پہلے تو سوشل میڈیا کے ذریعے فوج کیخلاف خرافات بکی جاتی تھیں اب تو ملک کے اندر سے براہ راست فوج پر کھلی تنقید شروع کردی گئی ہے۔

یہ لوگ افواج پاکستان کے ترجمان کی گفتگو پر اعتراض بھی کرتے ہیں اور یہ بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ مذاکرات اصل میں وہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کررہے ہیں۔ وہ یہ بھول جاتے ہیں کہ ڈی جی آئی ایس پی آر اسی فوج یا اسٹیبلشمنٹ ہی کے ترجمان ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ نے واضح کیا ہے کہ ان کے کسی کے ساتھ کوئی مذاکرات نہیں ہورہے نہ ہی وہ اس میں کوئی سہولت کاری کررہے ہیں نہ ان کو اس کی ضرورت ہے۔ انہوں نے متعدد بار خواہش کے اظہار اور منت سماجت کے باوجود یہ جواب دیا ہے کہ جو بھی مذاکرات کرنا چاہے وہ حکومت کے ساتھ کرے۔ اس لئے تو وہاں سے مایوس ہوکر یہ لوگ حکومت کے پاس جاکر بذریعہ اسپیکر قومی اسمبلی مذاکرات کے لیے کہتے رہے۔ اب اس میں اسٹیبلشمنٹ کہاں سے آگئی۔چلیں مذاکرات کا ڈول تو ڈالا گیا ۔ ابتدائی ملاقات بھی ہوئی اور 2جنوری کو اس کا باقاعدہ آغاز بھی ہونے جارہا ہے لیکن دیکھئے کہ اس ڈول میں نکلتا کیا ہے یا خالی واپس آتا ہے۔ ہر پاکستانی چاہتا ہے کہ مذاکرات ہوں اور نتیجہ خیز بھی ثابت ہوں۔ پی ٹی آئی سے زیادہ سرگرم تو اب حکومت نظر آتی ہے لیکن درمیان والی بات کوئی نہیں بتاتا۔ پی ٹی آئی نے زبانی طور پر بیانات کے ذریعے دو مطالبات رکھے ہیں جبکہ تیسرا مطالبہ اس وقت سامنے آئے گا جب ان دو مطالبات کا نتیجہ ان کی مرضی کے مطابق نکلےگا۔ ان دو مطالبات میں ایک مطالبہ پی ٹی آئی کے بانی سمیت تمام قیدیوں کو رہا اوران پر قائم مقدمات ختم کئے جائیں۔ دوسرا یہ ہے کہ 9مئی اور 26نومبر کے واقعات پر سپریم کورٹ کے تین سینئر ترین ججز کا کمیشن بناکر تحقیقات کرائی جائیں۔ جو تیسرا مطالبہ بعد میں آئے گا وہ مینڈیٹ کی واپسی ہے۔ فی الحال ہم ان پہلے والے دو مطالبات کی بات کرتے ہیں۔ کیا حکومت کے لئے بانی پی ٹی آئی سمیت پارٹی کے قید تمام افراد کو رہا کرنا ممکن ہے۔ دوسرا یہ کہ کیا ملٹری کورٹس سے دی گئی سزائوں اور عدالتوں میں ان تمام افراد کے زیر سماعت مقدمات بھی حکومت ایک ایگزیکٹو آرڈر کے ذریعے ختم کرسکتی ہے۔ یقیناً حکومت ایسا کرنےکی مجاز نہیں ہے۔

اگر حکومت ایسا نہیں کرسکتی تو پی ٹی آئی ان مذاکرات کو کس طرح نتیجہ خیز مانے گی۔ خود پی ٹی آئی یہ جانتی ہے کہ ایسا ممکن نہیں ہے اور حکومت کو بھی اپنے دائرہ اختیار کا پتہ ہے تو پھر مذاکرات چہ معنی دارد۔ کون کس کو اندھیرے میں رکھنا چاہتا ہے یہ بھی دونوں فریق سمجھتے ہیں۔ تو پھر یہ ہو کیا رہا ہے۔ لگتا یہ ہے کہ دونوں وقت حاصل کرنا چاہتے ہیں اور وقت حاصل کرنے کے دونوں فریقوں کے مقاصد بھی الگ الگ ہیں۔ اصل فیصلہ اس وقت ہوگا جب یہ سامنے آئے گا کہ وقت گین کرنے سے دونوں میں سے فائدہ کس کو ہوا اور خالی ہاتھ کون رہا۔ اب تھوڑی سی بات ملٹری کورٹس کی۔ جب پی ٹی آئی دور حکومت میں ملٹری کورٹس سے لوگوں کو سزائیں ہوئیں تو بانی پی ٹی آئی ملٹری کورٹس کو نہ صرف ضروری کہتے تھے بلکہ اس کے فوائد بھی بیان کیا کرتے تھے۔ پھر اب ملٹری کورٹس کیوں ناجائز ہوگئیں۔ اس وقت بیرونی ممالک اور انسانی حقوق کے نام نہاد دعویداروں کو انسانی حقوق یاد نہیں رہے تھے۔ دوسری بات ایک امریکی نامزد مشیر کی بڑی تواتر کے ساتھ کی جارہی ہے تو سمجھ نہیں آتی کہ حکومت اتنی کمزور کیوں بن گئی جو ایک شخص کے بیان سے اتنی پریشان ہوگئی ہے۔ حکومت کو اتنی کمزوری نہیں دکھانی چاہئے یہ صحیح طریقہ نہیں ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ ایسے غیر اہم لوگوں کے غیر اہم بیانات پر توجہ ہی نہ دے۔ یہ بھی معلوم نہیں کہ اس کے اکائونٹ سے جو ایکس پیغامات جاری ہوئے ہیں یہ اس نے کئے بھی ہیں یا یہ دوسری کارروائی ہے۔ جہاں تک پاکستان کے میزائل پروگرام اور بعض کمپنیوں پر امریکی پابندیوں کا تعلق ہے تو ذرائع نے اس کی سختی سے تردید کی ہے کہ یہ بانی پی ٹی آئی کی رہائی سے تعلق رکھتی ہیں بلکہ یہ ایک الگ موضوع ہے۔ 9مئی کے واقعات میں ملوث کچھ افراد کو سزائوں کی ایک اور قسط آنے کا امکان ہے۔ فوج کا یہ مصمم عزم ہے کہ ماسٹر مائنڈ اور سہولت کاروں سمیت کسی بھی ملوث فرد کو معاف کیا جائے گا نہ کوئی رعایت دی جائے گی۔ قوم اطمینان رکھے۔

تازہ ترین