تازہ دم جمہوریت کے پہلے سال 2013ء میں 14000 سے زیادہ قتل کی وارداتیں ہوئیں۔ صرف کراچی میں 3000سے زائد عوام کو گولیوں سے بھون دیا گیا۔ ایف آئی آر کاٹنے سے پراسیکیوشن تک،پھر مقدمے کے ٹرائل سے سزا تک سب کو 100فیصد یقین تھا،سارے بچ جائیں گے۔ اس ’’انصاف پسند‘‘ سماج میں اگر قومی لیڈر یہ کہہ دیں کہ میں مخالف کو چوک میں لٹکا دوں گا۔ مذہبی رہنما دوسرے طبقہ خیال کے اپنوں کو قابلِ گردن زدنی قرار دیں۔ ایسے متوازی نظامِ انصاف میں کون اپنی عدالت نہیں لگائے گا...؟کرکٹ سے شروع کر لیں۔ جس کو ٹیم میں یا کرکٹ بورڈ میں۔ سیلکٹرز میں یا کوچ میں۔ جگہ نہ ملے اُس کے علاوہ باقی سارے میچ فکسنگ کے بڑے ملزم اور بُکی۔ پھر میڈیا ٹرائل کا میدانِ پلاسی ہوتا ہے اور بیچارہ کھیل۔ آج کل پاکستان کی ایٹمی صلاحیت۔ سوویت یونین کی بحالی کے امکانات۔ تھرکول میں بجلی کے کرنٹ۔ داخلہ، خارجہ سمیت خلائی تحقیقات۔ جنّات کے مالک بنگالی بابے اس طرح گڈمَڈ ہو گئے ہیں کہ ہر ٹی وی چینل پر ماہر تجزیہ کاروں کی مہارت کے لئے نہ علم کی ضرورت رہی نہ تجربے کی۔ نہ تحقیق چاہئے اور نہ ذہن رسا۔ آپ نے بقلم خود نیم خواندہ ماہرین کو سپریم کورٹ کی کارروائی میں غلطیاں نکالتے،اپنے متفقہ آئین سے کیڑے تلاش کرتے اور سینئر ترین وکلاء کو ان پڑھ کہتے سُن رکھا ہے۔ یہ ہے وہ ماحول جس میں ہم ایشین ٹائیگر، بابائے آزادیِ تقریر۔ آخری تفتیش کار اور متوازی عدالتوں کے فری لانس مُنصف بن چکے ہیں۔وکیل کا کام صرف مقدمہ لڑنا ہے۔ موکل کو ریلیف نہ ملے تو پولیس سے لڑنا نہیں۔ جج کا کام بحث سننا ہے، خود بحث کرنا نہیں۔ رپورٹر کا کام محض واقعات کو رپورٹ کرنا ہے۔ دُنیا کے کس ملک کی صحافت میں داستان گوئی اور کہانی نویسی کو رپورٹنگ مانا جاتا ہے...؟ وزیر انتہائی بےتدبیر ہوں۔ مشیر آخر موقع پرست کیوں نہ ہوں حکومتوں اور اِداروں کو مشورے دینا اُن کا ہی کام ہے۔ ابھی کل کی بات ہے چند حضرات کی تقریر اور تحریر سوموٹو نوٹس کی ’’ضامن‘‘ سمجھی جاتی تھی۔ دُنیا کے کون سے نظام میں اخبار نویس آئینی عدالتوں کو گائیڈ کرتا ہے کہ وہ کس مقدمے کو فوراً اٹھائے اور کون سا مقدمہ ہے بلکہ کس کا، جسے صرف شیلف پر سجایا جائے۔ جب ایک سابق چیف جسٹس کے آفیشل پتے پر بنی ہوئی کمپنیوں اور اُس کے لڑکے کا مالی اسکینڈل سامنے آیا۔ فطری ردِعمل کے طور پر معروف وکلاء نے چیف جسٹس سے استعفیٰ مانگا۔ باپ نے بیٹے کا بنچ بنایا۔ خود اُس میں بیٹھ کر لختِ جگر کی صفائی دی پھر وہ مقدمہ کُھوہ کھاتے چلا گیا۔ اپنی پسندیدہ مقدس گائے کو مستعفی ہونے کا مشورہ دینے والوں کو وہ تبرّے سُنائے گئے کہ خدا کی پناہ۔ موجودہ وزیرِاعظم اور اُس وقت کے لیڈر آف نون کالا کوٹ پہن کر مدعی بنے، سیدھے سپریم کورٹ پہنچے۔ میمو کو دفاعِ پاکستان پر آخری حملہ قرار دیا۔ کُھلی آنکھ رکھنے والوں نے اُن کا عظیم الشان استقبال اور فقید المثال پروٹوکول دیکھا۔ پاک فوج پر فدا ہونے والے کا موقف اتنا سچا تھا بلکہ اتنا زیادہ سچا تھا بلکہ زیادہ سے بھی زیادہ ترین سچا تھا کہ اس سچ کو حق ثابت کرنے کے لئے دو عدد دفاعی بیان حلفی بھی کُود پڑے۔ ہمارا وہ منصفانہ نظام جو الطاف حسین سے کہتا ہے پہلے سفارت خانے آ کر شناخت کرائو پھر شناختی کارڈ ملے گا۔ اُس نظامِ انصاف نے انصاف کی حد کر دی۔ مشکوک شناخت والے ایک غیر مُلکی کا حب الوطنی پر طویل جوڈیشل لیکچر ویڈیو پر سُنا گیا۔ یہ ہیں وہ مختصر جھلکیاں جو موجودہ سہ فریقی بحران کو سمجھنے کے لئے ذہن میں رکھنا ضروری ہیں۔آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی تعیناتی کے پہلے 100دن کے اندر اندر۔ جبکہ بھاری مینڈیٹ والی حکومت کی تیسری قسط کی دوسری سہ ماہی میں اِداروں کے احترام کا بھانڈا پُھوٹا۔ پہلے ڈکٹیٹر شپ کے پسندیدہ کردار کا ٹرائل پھر سیاسی جماعتوں کی کانفرنس میں افواج کے سربراہوں کو بٹھانا پھر وزیروں کا بیانات کے ذریعے دفاعی اِداروں کو نشانہ بنانا۔ ڈیڑھ ارب ڈالر کے عوض دو ڈویژن فوج جیسے معاملات نے سول ملٹری تعلقات میں بگاڑ پیدا کیا۔ میں نے بطورِ وزیر ایسے ہی کئی مراحل میں جنرل کیانی، صدر زرداری اور دوسرے اِداروں کے درمیان گفتگو کے دروازے کھولے۔ پُرجوش مگر اندر سے خوفزدہ وزیروں کو ادارے فتح کرنے، زیرِنگیں کرنے اور بے توقیر کرنے جیسے ارادوں سے ٹوکا نہیں بلکہ روکا۔ سابق صدر کی بیماری والی رات کی کہانی فکشن سے بھی زیادہ سنسنی خیز ہے۔ حالات چاہے جیسے بھی ہوں۔ حکومت خواہ کوئی بھی ہو۔ حکومت کا رویہ سوکن جیسا کبھی نہیں ہو سکتا بلکہ حکومت کو تو ایک ماں جیسا دل گداز کردار ادا کرنا پڑتا ہے۔ ایک وزیر کی پہلے بڑھک بازی اور اب قبرستان جیسی خاموشی آج کے بحران کا سب سے بڑا سوالیہ نشان ہے۔ کون نہیں جانتا کہ بعض قلم کاروں اور اخبار نویسوں کو اشتعال دلانے والا کردار آج کس لئے گونگا بنا ہواہے۔
یہ محض اتفاق ہے یا حُسنِ انتظام کہ جب سے موجودہ حکومت برسرِاقتدار آئی ہے فوج اورآئی ایس آئی میڈیا ٹرائل کے طوفان کی آنکھ میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ہر روز، ہر پروگرام، ہر کالم اور ہر گفتگو دفاعی اِداروں کے اردگرد گھومتی ہے۔ تقریباً ہر جگہ طنزیہ جُملے بولنے کا فیشن ہو گیا ہے۔ نائن الیون جیسے بڑے حادثے کے بعد بھی پینٹاگون، ایف بی آئی اور سی آئی اے کو ہمارے جیسی متوازی عدالتوں کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ موجودہ حالات کے بارے میں شہرِ اقتدار یہ ماننے کو تیار نہیں کہ کہیں بھی کوئی گڑبڑ ہے۔ لنگر گَپ یہ ہے کہ کہوٹہ سے تعلق رکھنے والے پوٹھوہاری جنرل کی آبپارہ والی کرسی کے لئے ایک اور بٹ صاحب کی تلاش جاری ہے۔ جو کچھ ہو رہا ہے اُس سے صاف ظاہر ہے اقتدار کے سارے مشیر 12اکتوبر والے ہیں۔ جس نے 12 اکتوبر سے سبق سیکھا ہے آج کابینہ کا لشکری ونگ اُسے سبق سکھانے کے لئے تڑپ رہا ہے۔ جس نے سبق نہیں سیکھا اُس کے لئے سب اچھا ہے۔ ہمیں کب سمجھ آئے گی کہ ہم میں سے کوئی بھی جیک آف آل ٹریڈ تو ہو سکتا ہے،ماسٹر آف آل ٹریڈ ہرگز نہیں۔ جن کو اپنے کام کی تنخواہ ملتی ہے یا فِیس وہ اُسے حلال کرے۔ دوسروں پر رحم کرے اور متوازی عدالت بند کر دے۔ عدل اُن کو کرنے دیں جن کو آئین انصاف کرنے کی ہدایت دیتا ہے۔ میں اُسی آئین کی بات کر رہا ہوں جس نے ریاست چلانے کے لئے ادارے بنائے۔ منتخب پارلیمنٹ،تربیت یافتہ سروس آف پاکستان، آئینی نظامِ عدالت اور پاکستان کی مسلح افواج۔ ریاستی انتظام چلانے کی ذمہ داری ٹرائیکا کے ذمہ ہے۔ہم کسی بھی شعبے کے مقدس ترین کاروبار کو بھی زورِ بیان سے آئین کا نیا ستون نہیں بنا سکتے۔ یہی سوچ ماورائے آئین ہے۔ اسی سے ہر گلی اور ہر شعبے میں متوازی عدالتیں کُھلی ہوئی ہیں۔