20 سال کے اندر اندر یورپ میں سو سال کی عمر تک جینا عام بات ہو گی۔ یہ میں نہیں سائنسدان کہہ رہے ہیں کیلیفورنیا کی اسٹین فورڈ یونیورسٹی کے ماہر حیاتیات بھارتی نژاد ڈاکٹر شرد پاتلجا پورکر کے مطابق اوسطاً زندگی میں اضافہ جو علاج اور بیماری کی روک تھام کے شعبوں میں ترقی کی وجہ سے ہو رہا ہے اس دنیا میں رہنے والوں کی زیست کو بدل دے گا۔ یہ سب کچھ 2026کے بعد شروع ہونے کی توقع ہے جب انسانی زندگی اتنی تیزی سے بڑھنا شروع ہو گی کہ 60یا 70برس میں بیمار پڑنے والوں کا مذاق اڑایا جائیگا۔ ڈاکٹر تلجاپور کر کی تحقیق کے مطابق یہ عمل جس میں تیزی جاری رہے گی 2040 تک کا ہو سکتا ہے۔اس دوران اوسطاً زندگی میں 20سے 25 سال کا اضافہ ہو سکتا ہے اور اسکے نتیجے میں مغربی ممالک میں اوسطاً زندگی 80سے 100سال تک پہنچ جائیگی۔ علم تحقیق کے مطابق بڑھاپے یا عمر میں اضافے کا سلسلہ پیدائش کے دن ہی سے شروع ہو جاتا ہے بچے کا بڑا ہو کر بالغ ہونا پھر بڑھاپے میں قدم رکھنا جس کے بعد عمر میں اضافےکے سبب انسان کی کارکردگی گھٹنے لگتی ہے جو بالآخر موت پر ختم ہو جاتی ہے۔ بڑھاپے کا آغاز کب ہوتا ہے؟ آدمی کب بوڑھا ہوتا ہے؟ جسم میں تبدیلی کیوں واقع ہوتی ہے؟ بڑھاپے کے حوالے سے یہ اہم سوالات ہیں جنکے جوابات یقیناً قارئین کے علم میں اضافے کا ذریعہ بنیں گے۔میرے حساب سے سائنس جسم میں آنے والی تبدیلیوں اور موت کے بارے میں معلومات ضرور فراہم کرتی ہے لیکن دو سوالوں کے جواب دینے سے فی الحال قاصر ہے، پہلا سوال یہ کہ کیا اضافہ عمر اور موت کا کوئی مقصد ہوتا ہے؟ اور اگر ہے تو وہ مقصد کیا ہے؟ بہر کیف سائنس دانوں نے انسان کو کم از کم 100 سال تک زندہ رہنے کی نوید دے دی ہے لیکن اس کے باوجود جوانی کا مطلوبہ چشمہ نہیں مل سکا۔ آیورو دیدک کی کتابوں میں ایسے طریقے اور عمل بھی درج ہیں جن کے نتیجے میں جسم کے پرانے اور بوسیدہ حصے الگ ہو کر نئے خلیات پر مشتمل حسین بدن جنم لیتا ہے لیکن بدقسمتی سے کتابوں میں اس کے صرف تذکرے ہی ملتے ہیں اصل نسخہ’’تجدید شباب‘‘ وہاں بھی ناپید ہے۔ اہل تلاش و تحقیق نے البتہ تین ایسی تدبیر کی نشاندہی ضرور کی ہے جسکے ذریعے اچھی صحت مند اور قدرے طویل عمر حاصل کی جا سکتی ہے۔ ایک تدبیر ورزش دوسری خاص قسم کی غذائیں اور تیسری غذا میں حراروں کی تعداد یا مقدار میں کمی ہے۔ اور ورزش نہ کرنے والوں کے مقابلے میں باقاعدگی سے ورزش کرنے والے اچھی صحت اور اسکے فوائد سے لطف اندوز ہوتے ہیں کم رو غنی غذا اور زیادہ سبزیاں پھل کھانے والے زیادہ نشاستہ اور چکنائیاں کھانے والوں کی نسبت زیادہ صحت مند اور توانا رہتے ہیں اسی طرح غذا میں کم حراروں کی وجہ سے جسم کے خلیات زیادہ چست اور توانا رہتے ہیں اس سے مطلب حراروں میں خطرناک حد تک کمی نہیں ہے صرف کم خوراکی ہے یعنی پیٹ کا ایک چوتھائی حصہ خالی رہے اور غذا میں بھی حرارے کم رہیں۔ ان تین مقاصد یا اہداف کے حاصل کرنے کیلئے اکثر لوگوں کو اپنے رہن سہن یا طرز حیات میں تبدیلی لانی ہو گی یقیناً انہیں صحت مند اور توانا دیکھ کر دوسروں کو بڑھاپے کی رفتار سست کرنے کی تحریک ملے گی اس سلسلے میں اگرچہ قارئین بہت کچھ پڑھ چکے ہیں لیکن تکرار کا مقصد انہیں ان کی نوعیت اور صحت و توانائی کے برقرار رکھنے میں ان کی اہمیت بتانا ہے یہاں مشرق کے قدیم تجربات کا ذکر بھی مناسب ہوگا جن کے مطابق یو گا، تائی چی اور چی کانگ جیسی نہایت کار آمد ورزشیں عمر بڑھاتی ہیں ان ورزشوں کی بنیاد ان نظریوں پر ہے کہ صحت دراصل جسمانی جذباتی ذہنی اور روحانی توازن کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے۔ ان میں ورزشوں کے علاوہ جسم کی حالت آرام میں لانے کے طریقوں کے علاوہ سانس لینے کی ورزشیں، غذا اور مراقبہ بھی شامل ہے ایک ماہر یوگی بہت طویل عرصے تک بغیر کوئی تکلیف محسوس کیے اپنی سانس روک سکتا ہے اپنے دل کی دھڑکنوں کے مدو جزر پر قابو حاصل کر سکتا ہے گرمی اور سردی کی شدتوں کو برداشت کر سکتا ہے اور فاقہ کشی کے باوجود تندرست رہ سکتا ہے یہ یوگی لوگ اپنی صلاحیت کے پورے استعمال کے ساتھ اکثر بہت طویل عمر پاتے ہیں اور یہ یوگی کیا ہوتا ہے؟ نہیں سمجھتے تو کسی سمجھدار سے پوچھ لیں۔