تاریخی اور قدیم شہرملتان تین عظیم حکمرانوں کی جنم بھومی ہے۔ سلطان محمد تغلق ملتان کے لوہاری دروازے کے قریب پید ا ہوئے۔ یہ علاقہ اب بھی تغلق خان کی نسبت سے کوٹلہ تولے خان کہلاتا ہے۔ محلہ حسین آگاہی قاضیانوالہ میں سلطان بہلول لودھی نے جنم لیا۔ بتایا جاتا ہے کہ مکان کی چھت گرنے کی وجہ سے بہلول لودھی کی ماں مر گئی اور وہ قبل ازوقت پیدا ہوگئے۔ افغان فرمانروا احمد شاہ ابدالی نے بھی ملتان میں آنکھ کھولی۔ انکی یاد میں چوک نواں شہر سے ایس پی چوک جانیوالی سڑک ابدالی روڈ کہلاتی ہے ۔ابدالی روڈ پر سڑک کے پاس ہی احمد شاہ ابدالی کی جائے پیدائش کو ایک یادگار کی شکل دی گئی ہے جبکہ اسکے پاس ہی ابدالی مسجد بھی موجود ہے۔ملتان کئی بار تاراج ہوا۔محمد بن قاسم کی سندھ آمد کے بعد چھچھ حکومت ختم ہوئی اور عربوں نے ملتان کو تسخیر کیا تو 700 عیسوی سے 970عیسوی تک یہ شہر بغدادی خلیفہ کے زیرانتظام رہا۔ بعدازاں قرامطیوں نے ملتان پر قبضہ کرلیا۔ سلطان شہاب الدین غور ی نے 1175عیسوی میں یلغار کرکے قرامطیوں کا قلع قمع کردیا اور یہاں اپنی حکومت قائم کردی۔بعد ازاں تغلق اور پھر لنگاہ خاندان یہاں برسراقتدار رہا۔ قطب الدین لنگاہ جو 1345ء میں تخت نشین ہوا تھا، اسکے جانشینوں کو مغلوں نے شکست دی۔بعد ازاں ایک اور افغان خاندان سدوزئی نے ملتان پر قبضہ کرلیا۔نواب مظفر خان کے عہد میں راجہ رنجیت سنگھ پنجاب میں سکھ سلطنت قائم کرچکا تھا۔ سکھ دربار کی طرف سے کئی بار ملتان کو تسخیر کرنے کی کوشش کی گئی مگر نواب مظفر خان لوہے کا چنا ثابت ہوا۔1818ء میں سکھ فوج نے ملتان پر آٹھویں مرتبہ یلغار کی۔ مسلسل پانچ ماہ کی گولہ باری کے بعد ملتان تو فتح ہوگیا مگر نواب مظفر خان کو تسخیر نہ کیا جاسکا۔ سکھ فوج اندر داخل ہوئی تو 80سالہ نواب مظفر خان اپنے 8بیٹوں اور300 جانثاروں کے ہمراہ سیسہ پلائی دیوار بن گئے۔ سکھ فوج دوبدو لڑائی میں قابو نہ پا سکی تو ایک بار پھر توپخانے کی مدد حاصل کی گئی۔
نواب مظفر خان اور انکے پانچ بیٹے مارے گئے۔ نواب مظفر خان حضرت بہائوالدین زکریا کے دربار کے سامنے اپنی بہادری کی داستان سمیت آسودہ خاک ہیں ۔سکھ دربار کی طرف سے دیوان ساون مل کو ملتان کا حاکم مقرر کیا گیا۔ملتان ماضی میں ’’ملی تھان‘‘ اور پھر مولتان کہلایا کرتا تھا،سکھ دور میں ملتان ایک بہت بڑی راجدھانی ہوا کرتا تھا جسکی سرحدیں ایک طرف موجودہ خیبرپختونخوا کے ضلع کوہاٹ،بنوں اور ڈیرہ اسماعیل خان تک پھیلی ہوئی تھیں تو دوسری طرف سندھ میں ساگر دو آب تک کا علاقہ ملتان کی حدود میں شامل تھا۔دریائے راوی کے پاس چیچہ وطنی اورتلمبہ تک کے علاقے ملتان کے زیر انتظام آتے تھے تو اُدھر مغرب میں حاکم ملتان کی ریاست کوہ سلیمانی کے پہاڑی سلسلے تک پھیلی ہوئی تھی۔ ڈیرہ غازی خان،راجن پور،لیہ ،مظفرگڑھ، خانیوال، وہاڑی اورلودھراں سمیت موجودہ پنجاب اور خیبر پختونخوا کے کم ازکم 15اضلاع تب ملتان کی حدود میں شامل تھے۔مورخین کے مطابق دیوان ساون مل اچھے منتظم تھے مگر وہ اپنے ہی فوجی کے ہاتھوں مارے گئے۔
چند روز قبل اپنے شہر ملتان جانے کا اتفاق ہوا تو ماضی کی حسین یادوں میں کھوگیا۔دراصل میرے مربی و محسن ،سینئر صحافی جبار مفتی کی بیٹی کی شادی تھی اور انہیں رخصت کرنے جانا تھا۔سب سے پہلے مخدوم رشید میں جنم جنم کے باغی جاوید ہاشمی کے درِدولت پر حاضری دی۔ابتلا و آزمائش کے ان ایام کو یاد کیا جب انہیں جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں بغاوت کا مقدمہ بنا کرپابند سلاسل کردیا گیا تھا۔اس دوران یہ حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ وہ نامعلوم مراسلہ جس پر’’قومی قیادت کے نام ‘‘تحریر تھا ،پریس کانفرنس میں لہرانے پر بغاوت کا مقدمہ تو چار افراد پرقائم ہوا مگر ٹرائل صرف جاوید ہاشمی کا کیا گیا۔ بہرحال شادی کی تقریب میں کئی پرانے دوستوں سے ملاقات ہوگئی ۔زمانہ طالبعلمی کے دوست اور اسٹوڈنٹ لیڈر طیب صدیقی نے بڑھکر استقبال کیا ۔علمی وادبی شخصیت شاکر حسین شاکر جنہوں نے کتابوں کی نگری بسا رکھی ہے، ان سے تبادلہ خیال ہوا۔معروف شاعر اور کالم نگار خالد مسعود خان جنہوں نے قبل ازیں کسر نفسی کے سبب اپنی تحریر کو ’’ماٹھے کالم ‘‘کا عنوان دے رکھا تھا، اب ہر ایک کوکٹہرے میں کھڑا کئے رکھتے ہیں اور شاید وہاں بھی انہوں نے کسی کو مشق ستم بنا رکھا تھا۔’’ہے خبر گرم‘‘کے عنوان سے کالم لکھنے والے عزیز دوست اظہر سلیم مجوکہ جنہیں رضی الدین رضی ’’کانگڑی پہلوان‘‘ قرار دے چکے ہیں ،ان سے بھی گپ شپ رہی اسکے علاوہ پی ٹی وی ملتان کے جنرل منیجر شفقت عباس ملک نے بھی کمال شفقت کا مظاہرہ کیا۔ اس کے علاوہ ایک جہاندیدہ مگر ’’ریٹائرڈ ‘‘سیاستدان حافظ اقبال خاکوانی سے ملاقات ہوئی۔کہا جاتا ہے کہ صحافی ،وکیل اور سیاستدان کبھی ریٹائر نہیں ہوتے مگر سابق صوبائی وزیر اقبال خاکوانی نے سیاست نامی معشوقہ کو خود طلاق دی ہے ۔حافظ اقبال خاکوانی نے ملتان میونسپل کارپوریشن سے سیاست کا آغاز کیا۔1993ء میں پہلی بار پنجاب اسمبلی کے رُکن منتخب ہوئے،1997ء میں ایم پی اے کا الیکشن جیتنے کے بعد انہیں وزیراعلیٰ شہباز شریف کی کابینہ میں وزیر صحت بنایا گیا۔حافظ محمد اقبال خان خاکوانی جنکا شمار نوازشریف کے قریبی اور بااعتماد ساتھیوں میں ہوا کرتا تھا، جنرل پرویز مشرف کے مارشل لا دور کے ابتدائی برسوںمیں ڈٹ کر کھڑے رہے۔ چوہدری پرویزالٰہی بذات خود ملتان چل کر آئے اور اقبال خاکوانی کو مسلم لیگ (ق) میں شامل ہونے کی صورت میں سینئر صوبائی وزیر بنانے کی پیشکش کی مگر انہوں نے معذرت کرلی۔2002ء کے انتخابات میں اقبال خاکوانی کو سبق سکھانے کیلئے انکے کزن ڈاکٹر خالدخاکوانی کو مسلم لیگ (ق) کا ٹکٹ دیدیا گیا۔ خالد خاکوانی کی وجہ سے ووٹ تقسیم ہوئے تو پیپلز پارٹی کے امیدوار لیاقت ڈوگر جیت گئے۔ انتخابات کے بعد حافظ اقبال خاکوانی کو قتل کے ایک جھوٹے مقدمے میں پھنسا کر گرفتار کرلیا گیا۔ دھمکی دی گئی کہ یا تو مسلم لیگ (ق)میں شامل ہوکر بری ہو جائیں یا پھر پھانسی چڑھنے کیلئے تیار ہو جائیں ۔ اقبال خاکوانی نے مجبور ہو کر مسلم لیگ (ق) میں شمولیت کا اعلان تو کردیا مگر عملاً سیاست کو خیرباد کہہ کر گوشہ نشین ہوگئے۔