• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’جدید تاریخ میں نظام حکومت و سیاست سے برآمد معاون نظام ہائے صحافت و ابلاغیات (میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سپورٹ سسٹم) قومی صحافت (میڈیا) کے غلبے کیساتھ اپنے ارتقاء سے خود بخود نیشن بلڈنگ پراسس (تعمیروطن) میں ریاست، حکومت اور معاشرے کا ابلاغی معاون بن جاتا ہے۔ ایک جمہوری معاشرے میں تو آئین کی پابندی کے حوالے سے اس کی کوئی گنجائش نہیں ہوتی کہ حکومت نیشن بلڈنگ تعمیر وطن پراسس اور اس پیشہ ورانہ عملداری میں مداخلت کرکے تشکیل پاتے قومی ابلاغی دھارے، جس سے کمیونیکیشن سپورٹ سسٹم وجود میں آتا ہے کو بار بار ڈسٹرب کرے۔ اگر حکومت اور سیاسی و انتظامی طاقتیں اس تعمیر و ترقیاتی عمل میں ادار ہ جاتی اثر سے ماس میڈیا اور مجموعی قومی نظام ابلاغیات میں مخل ہوتی ہیں تو ہر دو خود نظام حکومت و سیاست اپنی آئینی اور حلف کی پابندی سے ’’آزاد‘‘ ہونے لگتی ہیں اور قومی صحافت کی ناگزیر آزادی پابند ہو کر عوام میں اپنا اعتماد کھوتی حکومتوں کی تشہیر اور اپوزیشن کیخلاف پروپیگنڈے کا ذریعہ بن کر رہ جاتی ہے۔ یوں ترقی پذیر جمہوری معاشروں میں ماورا آئین حکومتوں کا قومی صحافت کو اپنا پابند اور مجموعی قومی ابلاغی دھارے کو مغلوب کرنا عوام اور ریاستی اداروں دونوں کیلئے بڑے خسارے کا باعث بنتا ہے۔ نئی صدی کی آمد 2000ء سے تو سوشل میڈیا کا ظہور اور ورطہ حیرت میں ڈالنے والا تیز تر اور مسلسل اختراعی (INNOVATIVE) ارتقاء، ترقی پذیر ممالک کی حکومتوں کی زیر بحث سیاسی و حکومتی غیر آئینی و غیر جمہوری سوچ واپروچ کے مقابل ایک بڑے طاقتور اور بااثر حریف بن کر روایتی مین اسٹریم پابند و محدود آزاد میڈیا کے مقابل حریف کے طور پر مقابل آن کھڑا ہے۔ اس سے حکومتی تابع اور جکڑے میڈیا کی ابلاغی قوت اور اثر و نفوذ کم تر ہوگیا جبکہ سوشل میڈیا کے ساتھ کئی قباحتیں جڑی ہونے کے باوجود،اس کی کمیونیکیشن پاور اور اثر، آئین سے بیزار حتیٰ کہ بند معاشروں (AUTHORITARIAN SOCIETIES) کی آمرانہ حکومتوں کیلئے بھی دردسر بنتا جا رہا ہے کہ یہ ہر طرح کی پابندیوں سے اپنی راہ نکالنے کی بے قابو صلاحیت کا حامل ہے۔ جب حکومتیں مین اسٹریم روایتی میڈیا کیساتھ سوشل میڈیا کو بھی اپناتابع بنانے کے جتن میں لگ جاتی ہیں تو ان کا میڈیا اور عوام سے فاصلہ بڑھتا اور سوشل میڈیا اور عوام کی ہم آہنگی و وابستگی کا گراف چڑھتا جاتا ہے‘‘۔

قارئین کرام! میڈیا اینڈ کمیونیکیشن سائنس کا اسٹوڈنٹ ہوتے ناچیز کا یہ نظری علمی نوٹ اس جدید علم کی معاشرے، حکومت و سیاست و ریاست سے گہری ہوتی باہم وابستگی خصوصاً ’’آئین کی عملداری کی مانیٹرنگ اینڈ رپورٹ بیک‘‘ کے تاریخی اور ملکی پیش منظر کے تناظر سے اخذ کیا گیا ہے:پاکستان ترقی پذیر دنیا میں واحد ملک ہے جس نے اپنی تشکیل اور بھارت جیسے اکثریتی حریف سے الگ و آزاد ہونے کی ان ہونی کو ہونی میں تبدیل کیا‘‘۔اصل میں زیر بحث مطلوب ناگزیر معاون کمیونیکیشن سپورٹ سسٹم ہماری قیام پاکستان کی 6 عشروں پر محیط تحریک حصول مملکت کے چار بنیادی پوٹینشل، دو قومی نظریہ، سیاسی پلیٹ فارم (آل انڈیا مسلم لیگ) اور حضرت قائد اعظم کے ساتھ چوتھا بڑا اور نتیجہ خیز اور ایسا تاریخ ساز جوہر نایاب تھا، جس کی نوآبادیاتی نظام سے آزادی حاصل کرنے والی یا قائم ہونے والی نئی مملکتوں میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ اس کا عمومی تجزیہ، ’’آئین نو‘‘ کے قسط وار سلسلے بعنوان ’’قومی ابلاغی دھارے کا بگاڑ و جگاڑ‘‘ میں جاری ہے۔

اسی تناظر میں ملک کے نامور بزرگ صحافی اور مورخ جناب الطاف حسن قریشی نے حال ہی میں پنجاب یونیورسٹی لا کالج کے پرنسپل اور پروفیسر آف کانسٹی ٹیوشنل لا پروفیسر ڈاکٹر امان اللہ کی معاونت کے ساتھ قابل قدر تصنیف ’’میں نے آئین بنتے دیکھا‘‘ تاریخ آئین پاکستان کے پہلے مرحلے، دوران تحریک پاکستان کے قابل قدر حوالوں پر مبنی تجزیے کے طور پر تحریر کی ہے۔ بلاشبہ ملکی آئین کے ان دونوں اسکالرز کی یہ مشترکہ تصنیف، قیام پاکستان کی سیاسی اور آئینی جدو جہد کی جیتی جاگتی قلمبند تصویر ہے۔ بیک ٹائٹل پر کتاب کے اپنے تعارفی نوٹ میں لندن میں مقیم معروف پاکستانی وکیل بیرسٹر نعیم احمد باجوہ نے جناب الطاف قریشی اور پروفیسر امان اللہ کی اس مشترکہ کاوش کو قانون دان طبقوں، سیاسی کارکنوں،صحافیوں اور پڑھے لکھے شہریوں کے لئے نہایت مفید قرار دیا ہے۔ ان کے مطابق یہ تصنیف قانون کی حکمرانی کا شعور گہرا کرے گی۔ یوں یہ ہمارے سیاسی اور آئینی لٹریچر میں ایک قابل قدر اضافہ ہے۔ ملک میں آئین سازی اور اس کے خلا، بحرانوں اور ملک میں آئین شکنی کے تمام واقعات الطاف صاحب کیلئے تو تاریخ ہی نہیں انہوں نے ایک آئین شناس اور ملکی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے صحافی کے طور ہر مرحلے پر اس کا گہرا مشاہدہ کیا اور وہ آئین سازی اور شکنی کے ان مراحل میں سرگرم سیاست دانوںکی کاوشوں رویوں کے عینی شاہد ہیں۔ انہوں نے آئین بنتے ٹوٹتے اس کی بدترین خلاف ورزیوں کو دیکھ کر بروقت اس کے نتائج سے خبردار بھی کیا۔ ’’میں نے آئین بنتے دیکھا‘‘ حقیقتاً نئی تعلیم یافتہ نسل کے لئے بہت قابل مطالعہ ہے کہ وہ ایسی حوالہ کتب کے بغیر ملک کی تاریخ کے حوصلہ افزا و شکن حقائق اور اس سے نکلے نتائج کی حقیقت کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ دونوں مصنفین اس ریفرنس بک کے تناظر میں بعد از قیام پاکستان آئینی تاریخ کو اسی نیم تحقیقی انداز سے حصہ دوم لکھنے کا عزم باندھے ہوئے ہیں۔ اس طرح یہ دونوں جلدیں سیاسی استحکام کا بڑا سبق ہوگا۔ ’’میں نے آئین بنتے دیکھا‘‘ اس لحاظ سے بہت بروقت ہے کہ آج ہماری حکومتیں و سیاست پاکستان کے تیزی سے ارتقا پذیر قومی صحافت اور قومی ابلاغی دھارے کو بری طرح اپنی گرفت میں لانے کی غیر جمہوری و آئینی ذہنیت سے ’’تعمیر وطن‘‘ کے بڑے اثاثے کو بے اثر و بے اعتماد بنا چکے ہیں، حالانکہ 32سال کے مارشل ادوار اور باقی نحیف و نااہل حکومتوں کے عہد میں بھی صحافتی مزاحمتی قوت مسلمہ تھی جو موثر اپوزیشن ذریعہ احتساب اور مانیٹر کے طور پر موثر کردار ادا کرتی ہیں۔ اب تو عالم یہ ہے کہ انٹرنیٹ جیسی انقلاب آفریں کمیونیکیشن سروس کو پابند حکومت کرکے پاکستان کے جمہوری اور تاریخی ابلاغی تشخص کو مسخ کرکے بھاری بھر زرمبادلہ کی آمدن کی رفتار کو بھی سست کردیا گیا ہے۔ غور طلب یہ بھی ہے کہ صحافتی تنظیمیں اپنی مزاحمتی قوت سے بھی محروم ہوگئیں۔ اس کا شاخسانہ ہے کہ آئین سازی میں بدترین رکاوٹوں کی طرح اطلاق آئین (1973) کےبعد آئین شکنی کا سلسلہ مارشل لائی اور سول نیم منتخب حکومتوں کی طرف سے جاری ہے، سوشل میڈیا کا متبادل برپا ہونے کے باوجود سوشل میڈیا کو بھی ممکنہ حد تک گرفت میں لینے اور ہراسگی کے بڑے خسارے والے اقدامات پوری شدت سے جاری ہیں، گویا قیام پاکستان کے لئے ملک کو جوسحر انگیز اور نتیجہ خیز ابلاغی معاونت حاصل تھی، تعمیر وطن کے لئے اس کے ارتقا پر بھی پہرے بٹھا کر آزادی اظہار رائے کا بنیادی حق،ملک میں معمول کے سیاسی عمل اور قومی اقتصادیات کیلئے ایک مہلک، جامد اور غیر جمہوری ہتھکنڈہ بن کر قومی ارتقا و ترقی میں مسلسل باعث خسارہ ہے۔ وما علینا الالبلاغ۔

تازہ ترین