نیا سال شروع ہو چکا ہے،جانے والا سال بہت سی اچھی،بری یادیں چھوڑ گیا۔ عالمی سطح پر کچھ تبدیلیاں آئیں، کئی معاملات حل ہوئے اور بہت سے مزید خراب ہو گئے۔ فلسطین پر بدترین اسرائیلی جارحیت جاری ہے،کشمیری عوام پر بھارتی مظالم میں کمی نہیں آسکی،اسرائیلی جارحیت کا دائرہ مشرق وسطیٰ کے دوسرے ممالک تک بڑھ رہا ہے، ملکی سطح پر بھی سیاسی ہلچل جاری رہی، دھرنے اور احتجاج کی سیاست سے معاشی استحکام کو بریک لگانے کی کوشش کی گئی، تاہم یہ بات گزرے ہوئے سال میں خوش گوار رہی کہ ملک ڈیفالٹ ہونے سے بچ گیا جسکا تمام کریڈٹ وزیر اعظم شہباز شریف اور آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر کو جاتا ہے جنہوں نے انتھک محنت اور یکجا ہوکر ملکی معیشت کو بہتری کی راہ پر گامزن کرنے میں مشترکہ کردار ادا کیا،پاکستان میں بھی سال نوکانئی امیدوں کے ساتھ آغاز ہوا،ملک بھر میں بھرپور آتش بازی کی گئی۔ 2024عوام کیلئے چیلنجز سے بھرپور رہا، اس سال شہری مہنگائی اور بے روزگاری کی چکی میں پستے رہے، نیا سال نئی امیدوں کے ساتھ شروع ہوا ، لوگ درپیش تمام مسائل میں کمی کے لیے پر امید ہیں۔ عوام دعاگو ہیں کہ اس سال مقبوضہ کشمیر اور فلسطین میں مظالم کا خاتمہ ہو، نیا سال دنیا اور خاص طور پر پاکستان کے لیے امن، خیر اور برکت کا سال ثابت ہو۔اگر سیاسی استحکام حاصل ہو جائے تو یہ معیشت کو سنبھالنے کی کوششوں پر مثبت اثر ڈالے گا، انہیں امید ہے کہ نیا سال ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمہ کا سال ہوگا، پاکستان نے اس جنگ میں ماضی میں بے پناہ قربانیاں دے کر ملک سمیت دنیا بھر میں امن کے قیام میں ناقابل فراموش کردار ادا کیا ہے، مگر پی ٹی آئی حکومت کے دور میں جس طرح گرفتار دہشت گردوں کو رہا کیا گیا اس نے افواج پاکستان اور قوم کی امن کے لئے کی جانے والی کوششوں کو بری طرح متاثر کیا اور دہشت گردوں کو دوبارہ سے سر اٹھانے کا موقع فراہم کیا، پارا چنار کا واقعہ افسوس ناک ہے ،زمینوں کے تنازع کو مذہبی اور فرقہ وارانہ فساد میں تبدیل کیاگیا جس کا مقصد ملک میں مذہبی منافرت کو فروغ دے کر ملکی حالات کو خراب کرنا ہے، امن کو خراب کرنے کے لئے بھارت اور افغانستان نے اپنے ایجنڈوں کو فعال کردیا ہے جس کا مقصد پاکستان میں فساد کی آڑ میں معیشت کو ایک بار پھر برباد کرنا ہے ، قوم امن اور معاشی صورت حال پر کوئی سمجھوتہ کرنے کو تیار نہیں ،اس وقت ملک میں سیاسی انتشار اور غیر یقینی صورت حال کے خاتمے کی ضرورت ہے جس نے پہلے ہی معیشت کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔اس لیے سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے کے لیے سیاسی تناؤ میں کمی ضروری ہے۔ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان جاری مذاکرات کو طول دینے کے بجائے جلد کسی نتیجہ پر پہنچنا ہوگا۔ حکومت کو بھی اپوزیشن رہنماؤں کے خلاف غیر سنجیدہ مقدمات واپس لینے ہوں گے، قابلِ ضمانت ’جرائم‘ میں قید افراد کو رہا کرنا ہو گا، ان افواہوں کا خاتمہ کرنا ہوگا کہ مارچ میں تبدیلی آنیوالی ہے، یہ حقیقت ہے کہ موجودہ حکومت اپنی پانچ سالہ مدت پوری کریگی، کسی قسم کی تبدیلی ملکی معاشی صورت حال کیلئے زلزلے سے کم نہیں ہوگی جس کے بعد ملک کو سنبھلنے میں کئی سال درکار ہونگے۔ حکومت اور اپوزیشن مذاکرات میں اہم ترین ایجنڈامعاشی اصلاحات ہونا چاہئے جس سےسرمایہ کاروں کو مثبت پیغام جائے گا۔سیاسی مفاہمت ملک میں داخلی امن لانے میں مدد گار ثابت ہوگی ۔ ہماری سیاسی اور دفاعی قیادت کو اس بات کا مکمل ادراک ہے کہ مضبوط معیشت کسی بھی قوم کی بین الاقوامی حیثیت اور داخلی استحکام کی بنیاد ہوتی ہے۔ ملک کو مالی خسارے پر قابو پانے، مہنگائی کو کنٹرول کرنے، اور ریونیو بڑھانے کو ترجیح دینی چاہیے۔ فوری اقدامات جیسے ٹیکس چوری کے خلاف سخت کارروائی، ٹیکس نیٹ کا دائرہ وسیع کرنا، اور سرکاری اداروں میں ساختی اصلاحات ناگزیر ہیں۔سیکورٹی کے مسائل، خاص طور پر دہشت گردی کی بحالی اور علاقائی عدم استحکام نے عالمی سطح پر پاکستان کی ساکھ کو متاثر کیا ہے۔ جامع انسداد دہشت گردی حکمت عملی، انٹیلی جنس شیئرنگ، اور کمیونٹی پولیسنگ کے ذریعے داخلی سلامتی کو یقینی بنانا عوام اور بین الاقوامی برادری دونوں میں اعتماد کو بحال کرے گا، ہمیں اپنی خارجہ پالیسی میں بھی تبدیلی لانا ہوگی، سی پیک منصوبے کو ہر حال میں جلد مکمل کرنا ہوگا۔پڑوسی ممالک، خاص طور پر افغانستان، ایران ،سعودی عرب، متحدہ عرب امارات، چین ،روس اور قطر کے ساتھ سفارتی اور تجارتی تعلقات کو مضبوط کرنا، علاقائی امن اور اقتصادی تعاون کے لیے ضروری ہے، اس وقت ملک کو بچانے اور ترقی کے ٹریک پر لانے کے لئے جتنی ذمے داری حکومت کی ہے اتنی ہی اپوزیشن کی بھی ہے، جس نے افواج پاکستان، اعلیٰ عدالتوں کے خلاف سوشل میڈیا پر جس طرح کی مہم چلا رکھی ہے، اس سے نہ صرف پوری قوم، بیرون ملک پاکستانی اور غیر ملکی سرمایہ کار بھی اضطراب کا شکار ہیں،، فوجی عدالتوں سے سزا یافتہ 19 مجرمان کی سزاؤں میں معافی کا اعلان خوش آئند عمل ہے جس سے ثابت ہوگیا کہ جس ادارے پر الزام تراشی کی جارہی تھی وہ غلط تھی۔بانی پی ٹی آئی کو حکومت سے نہیں اعلیٰ عدالتوں سے رہائی مل سکتی ہے، حکومت صرف ڈیل کی صورت میں کسی کو این آر او دے سکتی ہے۔ پی ٹی آئی کو ملک میں مثبت تبدیلی کیلئے جمہوری طریقہ کار اختیار کرنا ہوگا جو خود انکے سیاسی مفاد میں بھی ہے۔باہمی احترام اور مشترکہ مفادات پر مبنی عملی خارجہ پالیسی پاکستان کو جنوبی ایشیا میں استحکام فراہم کرنیوالی قوت کے طور پر دوبارہ نمایاں کرسکتی ہے، حکومت کو نئے سال میں مہنگائی کی شرح سے ہر طبقے کے افراد کی تنخواہوں میں اضافہ کرنا چاہئے، گرانی کے خاتمے کیلئے کمشنری نظام کو فعال کرنا ہوگا،تعلیم اور صحت کے شعبے پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔مختصراََ یہ سفر مشکل ضرور ہےناممکن نہیں۔