• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بڑھتی ہوئی مہنگائی اور بے روزگاری دوسرے مسائل کے علاوہ ملک میں انسانی اسمگلنگ کے مکروہ دھندے کے پھیلائو کا سبب بن گئی ہے۔جس کا زیادہ شکار غریب اور متوسط طبقوں کے نوجوان ہیں،جو بہتر زندگی کی آس میں غیرقانونی طریقوں اور انجانے راستوں سے بیرونی خصوصاً یورپی ملکوں کا رخ کررہے ہیں۔انسانی اسمگلر نوکری کا جھانسہ دے کر ان سے لاکھوں روپے بٹورتے ہیںاور ملک سے باہر روانہ کردیتے ہیں۔جانے والے مجبور لوگ راستے ہی میں حادثات کا شکار ہوجاتے ہیں یا متعلقہ ملک میں پہنچتے ہی غیرقانونی داخلے پر گرفتار کرلیے جاتے ہیںاور برسوں جیلوں میں سڑتے رہتے ہیں۔حالیہ برسوں میں لیبیا کے راستے کشتیوں میں اٹلی اور یونان جانے والے سیکڑوں افراد سمندر کی نذر ہوگئے۔اس طرح اب تک سیکڑوں خاندان تباہ ہوچکے ہیں،جنھوں نے اپنے مال مویشی اور زمینیں بیچ کر انسانی اسمگلروں کو فی کس چالیس سے 60لاکھ روپے تک فی کس معاوضہ ادا کیااور اپنے پیاروں سے بھی محروم ہوگئے۔سکھر کے سیشن جج نے ایک یونانی کشتی کے حادثے میں ایسے ہی 75افراد کی ہلاکتوں پر حکومتی ذمہ داروں کی غفلت کا نوٹس لیا ہے اور وزیراعظم، وزیرداخلہ اور وزیر خارجہ کو 15جنوری کو عدالت میں طلب کیا ہے۔حکومت خود بھی اس صورتحال پر فکرمند ہے اور وزیراعظم شہباز شریف نے انسانی اسمگلنگ کی روک تھام کیلئے ہونے والے ایک جائزہ اجلاس میںجو، ان کی صدارت میں منعقد ہوا ،سختی سے ہدایت کی ہے کہ انسانی اسمگلنگ کے سہولت کار سرکاری افسروں کے خلاف کارروائی کی جائے،ان کی جائیدادیں اور اثاثے ضبط کیے جائیں اور انھیں نشان عبرت بنایا جائے۔انھوں نے یہ بھی ہدایت کی کہ وزارت اطلاعات ونشریات بیرون ملک نوکریوں کیلئے صرف قانونی طریقے اختیار کرنے کی آگاہی مہم چلائے،تادیبی کارروائی کیلئے سخت تعزیری اقدامات کیے جائیںاور دفتر خارجہ بیرون ملک سے انسانی اسمگلنگ کا دھندا چلانے والے پاکستانیوں کی جلد از جلد پاکستان حوالگی کیلئے متعلقہ ممالک سے رابطہ کرے۔وزیراعظم نے انسانی اسمگلروں کی مدد کرنے والے سرکاری اہل کاروں کے خلاف ایف آئی اے کی مہم کو سراہااور ہدایت کی کہ ایسے افراد کے خلاف استغاثہ کے عمل کو مزید موثر بنایا جائے۔ہوائی اڈوں پر بیرون ملک جانے والوں کی اسکریننگ کا عمل مزید موثر بنایا جائے ۔ایسے ٹیکنیکل اداروں کی ترویج کی جائے جو عصر حاضر کے تقاضوں کے مطابق تربیت یافتہ پیشہ ور افراد بیرون ملک مارکیٹ کو فراہم کرسکیں۔اجلاس میں انسانی اسمگلنگ روکنے کیلئے قانون سازی پر ہونے والی پیش رفت پر وزیراعظم کو بریفنگ دی گئی اور یہ بھی بتایا گیا کہ اس حوالے سے اب تک کیااقدامات کئے گئے ہیں۔اسمگلنگ مال کی ہو یا انسانی جانوں کی،ایک ایسا ناسور ہے جسے جڑسے اکھاڑنے کی ضرورت ہے۔ساتھ ہی ایسے اقدامات بھی کرنے چاہئیں ،جن سے نوجوانوں کو ملک کے اندر ہی روزگار ملے۔اس وقت ہنرمند اور پڑھے لکھے لوگ روزگار نہ ملنے کی وجہ سے بیرونی ملکوں کا رخ کررہے ہیں۔یہ صورتحال جاری رہی تو ملک کے اندر ایسے افراد کی قلت پیدا ہوجائے گی جو ملکی معیشت کیلئے شدید نقصانات کا باعث بنے گی۔کوئی بھی ملک جو معاشی ترقی کا خواہش مند ہو،برین ڈرین کا متحمل نہیں ہوسکتا۔پاکستان اس وقت اقتصادی مشکلات سے دوچار ہے ،اسے ایسی صورتحال پیدا نہیں ہونے دینی چاہئے ۔وزیراعظم نے اس حوالے سے انسانی اسمگلروں کے خلاف جن تعزیری اقدامات کا اعلان کیا ہے ،ان پر سختی سے عمل درآمد ہونا چاہئے۔بیرون ملک روزگار سے بھی فائدہ اٹھانا چاہئے ،مگر صرف قانونی طریقوں سے۔

تازہ ترین