• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

میں پنجاب یونیورسٹی اورنٹئل کالج کی تعلیم کے دوران اسلامی جمعیت طلبا سے بہت متاثر تھا چنانچہ ’’جماتیا‘‘ مشہور تھا اس دوران ایک الیکشن میں جمعیت کے ایک امیدوار کی بھرپور کمپین چلائی اور بعد میں وہ انتہائی گھٹیا انسان ثابت ہوا میں اس زمانے میں نیک آدمی اسے سمجھتا تھا جس کی داڑھی ہو اور نماز ،روزے کا پابند ہو یہ عقل تو بعد میں آئی کہ یہ تو خدا اور انسان کا باہمی معاملہ ہے انسانوں کا انسانوں کے ساتھ رویہ ان کے مقام اور درجات متعین کرتا ہے۔میرے گھر میں مولانا مودودی کی بہت سی کتابیں موجود تھیں وہ ایک دن ہمارے گھر میں تشریف لائے تھے وہ بہت بڑے اسکالر تھے چنانچہ میں کبھی کبھار 105ذیلدار پارک لاہور میں انکی ہفتہ وار گپ شپ کی نشست میں بھی شریک ہوتا تھا شکل وصورت سے بھی جاذب نظر تھے اور شیرینی گفتار کے بھی حامل تھے، پتہ نہیں کس کی حکومت تھی جس کے دوران جماعت کے بیشتر لیڈر گرفتار کرلئے گئے تھے رہائی پر اگرچہ معمول کے مطابق ساتھیوں سے گفتگو کا اہتمام تھا تاہم اس دن پنجابی کے ایک شاعر نے اپنی بہت خوبصورت نظم بھی سنائی ۔نعیم صدیقی مولانا کے برابر ہی بیٹھے تھے شاعر نے نظم میں ایک مضمون حکومت کی طرف سے گرفتاریوں اور کارکنوں اور قیادت کی ہمت اور ڈٹ جانے کے حوالے سےباندھا جس میں ایک مصرعہ اس مفہوم کا تھا کہ حکومت کھیرسمجھ کر جماعت کوکھا جانا چاہتی تھی مگر وہ اس میں ناکام رہی نعیم صدیقی نے مولانا سے پوچھا مولانا آپ کو پنجابی سمجھ آتی ہے جس پر انہوں نے زیر لب مسکراتے ہوئے کہا پنجابی سمجھ آئے نہ آئے مولوی ہوں کھیر کی سمجھ آتی ہے، ان گرفتاریوں کے دوران جماعت کے مولانا باقر خان بھی جیل میں مولانا کے ساتھ تھے ایک دن انہوں نے باقر خان کو کچھ اداس پایا تو کہا لگتا ہے آپ کو باقرخانی یاد آ رہی ہے !مولانا کی خوش کلامی اور بعض اوقات جملے بازی کمال کی ہوتی تھی ایک دفعہ رانا نذرالرحمان نے انکی ’’بیٹھک‘‘ میں آنا تھا تاخیر سے پہنچے تو وجہ یہ بتائی کہ رستے میں ایک جلسہ ہو رہا تھا اسٹیج پر رانا جہاں داد اور رانا خدا داد بیٹھے تھے۔ لوگوں نے مجھے دیکھا تو ان دونوں کے درمیان بٹھا دیا اس پر مولانا کی حس ظرافت پھڑکی اور کہا گویا آپ دو ’’رانوں‘‘ کے درمیان تھے ،ہوسکتا ہے مجھ سے رانوں کے نام میں کچھ غلطی ہو گئی ہو تاہم یہ بات یقینی ہے کہ رانا نذرالرحمان کا نام میں نے صحیح لکھا ہے خیر یہ تو ہلکی پھلکی باتیں ہیں مگر ان کے بیان سے مقصود یہ ہے کہ عالم ہونے کا صحیح مطلب سڑیل ہونا نہیں، میں نے ایک منظر ایسا بھی دیکھا ہے جو شاید سب نے نہ دیکھا ہو میں ان دنوں ہائی اسکول کا طالب علم تھا اور جلسے جلوسوں کا شوقین۔ اس روز موچی دروازے میں زیر عتاب جماعت کا جلسہ تھا میں اپنے دوست کے ساتھ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ کچھ بدمعاش ٹائپ لوگ شوروغوغا کرتے ہوئے جلسہ گاہ سے باہر سڑک کی طرف آ رہے ہیں اور جب پیچھے مڑ کر دیکھنے پر انہیں پتہ چلتا ہے کہ انکے پیچھے کوئی نہیں آ رہا تو وہ دوبارہ جلسہ گاہ کی طرف جاتے ہیں اور اس روٹین پر عمل کرتے ہوئے واپس جاتے ہیں اور پھر آتے ہیں ہیں۔ بہرحال ہم آگے گئے تو دیکھا کہ لائوڈ اسپیکر کی تاریں کاٹ دی گئی ہیں اور مولانا بغیر اسپیکر کے خطاب کر رہے ہیں جلسہ بھرا ہوا تھا مجھے اب یاد نہیں کہ مولانا کی باتیں آخری صف تک پہنچانے کیلئے کوئی مکبربھی تھا کہ نہیں مگر ڈسپلن کی انتہا تھی جسے پن ڈراپ سائلنس ہی کا نام دیا جا سکتا ہے، اتنے میں میں نے دیکھا کہ غنڈوں نے سائبانوں کی رسیاں کاٹنا شروع کر دی ہیں اس پر پاس کھڑے ایک تھانیدار کو پندرہ سالہ نوجوان لڑکے نے برا بھلا کہا اور یہ بھی کہ انہیں روکتے کیوں نہیں ؟ جس پر اس نے بہت پیار اور شفقت سے انہیں مخاطب کیا اور کہا ’’ناکرو یار‘‘ دریں اثنا فائرنگ شروع ہو گئی اور پھر کارکن اپنے ایک ساتھی اللہ بخش کی میت بازوئوں میں سمیٹے خیموں سے باہر نکلے، جلسہ جاری تھا ہر کوئی سکون سے بیٹھا تھا فائرنگ کا مقصد لوگوں کو خوفزدہ کرکےتتربتر کرنا تھا فائرنگ جاری تھی اور تقریر بھی مولانا کوثر نیازی نے سید مودودی سےکہا آپ پلیز بیٹھ جائیں جس پر سید نے کہا اگر آج میں بیٹھ گیا تو کل کوئی کھڑا نہیں ہو گا۔تحریک ختم نبوت کے دنوں میں مولانا مودودی نے تحریک میں حصہ نہیں لیا جبکہ مولانا عبدالستار نیازی بے حد پرجوش تھے۔ سید مودودی نے صرف ایک مختصر رسالہ ختم نبوت پر دلائل کے حوالے سے لکھا مگر فوجی عدالت نے دونوں کو سزاے موت سنا دی۔ یہ جنرل اعظم خاں کا دور تھا اس دور میں ایک لطیفہ یہ مشہور ہوا کہ عبدالستار خان نیازی کو سزائے موت اس لئے سنائی گئی کہ انہوں نے تحریک میں حصہ کیوں لیا اور مودودی صاحب کو اس لئے کہ انہوں نے تحریک میں حصہ کیوں نہیں لیا ؟ خیر میرے ابا جی مولانا بہاء الحق قاسمی کو بھی گرفتار کرلیا گیا تھاابا جی بتاتے ہیں کہ جب عبدالستار خاں نیازی کو زنجیروں میں جکڑے لارہے تھے تو بیرکوں کی سلاخوں سے مولانا کو اس حالت میں دیکھ کر قیدیوں نے رونا شروع کر دیا اس پر مولانا نے اپنی مخصوص گرجدار آواز میں کہا ’’روتے کیوں ہو اللہ پر بھروسہ رکھو‘‘ نیازی صاحب اور مودودی صاحب کی سزائے موت بہرحال ٹل گئی مجھے اس وقت بھلے وقتوں کے مولانا نیازی یاد آ رہے ہیں جو اپنے لمبے ’’طرہ‘‘ کے ساتھ مختلف جلسوں میں تقریر کیلئے مدعو کئے جاتے تھے ایک دفعہ ماڈل ٹائون جی بلاک کی مسجد میں ان کا جلسہ تھا میں بھی حاضر تھا وہاں اس روز مولانا اپنی طرے دار پگڑی کے بغیر تقریر کر رہے تھے یہ انہوں نے سامنے دھرے میز پر رکھی ہوئی تھی وہاں فوٹو گرافر بھی موجود تھے ان میں سے ایک فوٹو گرافر نے کیمرے کا رخ نیازی صاحب کی طرف کیا تو انہوں نے نہایت غصے سے فوٹو گرافر کو تصویر لینے سے منع کر دیا، اس روز مجھے بہت خوشی ہوئی کہ اگرچہ علمائے کرام نے اجتماعی طور پر تصویر کشی کو حرام قرار دے رکھا ہے مگر کوئی ایک ایسا عالم دین بھی نہیں جس نے تصویر نہ کھچوائی ہو مجھے اس روز مولانا نیازی اپنی علما برادری سے منفرد کردار کے لگے چنانچہ بچارہ کیمرہ مین سہم کر پرے ہو گیا کچھ دیر بعد مولانا نے اپنا طرہدستار دوبارہ سر پر رکھا اور فوٹو گرافر کو مخاطب کرکے کہا ’’اب تصویر کھینچو‘‘ ۔

میرے ابا جی کی لائبریری میں غلام احمد پرویز کی تصنیفات بھی پڑی ہوئی تھیں چنانچہ ایک دن ان سے ملاقات کو جی چاہا یہ سردیوں کے دن تھے مگر دھوپ بھی اپنے جوبن پر تھی میں نے اپنی موٹر سائیکل نکالی اور ان کی قیام گاہ گلبرگ پہنچ گیا جو غالباً مین مارکیٹ کے قریب تھی میں نے دیکھا پروفیسر صاحب اپنے گھر کے باغیچے میں بیٹھے دھوپ سینک رہے ہیں گیٹ کھلا تھا میں اندر داخل ہو گیا اور سلام عرض کی پوچھا کس سلسلے میں تشریف لائے ہیں میں نے کہا بس آپ کی زیارت کرنا تھی بولے زیارت تو قبروں کی کی جاتی ہے اور ساتھ ہی الوداعی سلام کیلئے ہاتھ بڑھا دیا میں چلا گیا لیکن اس کے کافی عرصے بعد ان سے جو ملاقات ہوئی وہ میری زندگی کی یادگار ملاقات ہے۔ ایک دن ان کے ایک بہت عقیدت مند جن کی مجھ سے بھی رسم وراہ تھی اور وہ مجھے بھی اپنی راہ پر چلانے کے خواہشمند تھے دفتر نوائے وقت تشریف لائے اور بہت دردمندانہ درخوست کی کہ انکے ساتھ وائی ایم سی اے ہال چلوں جہاں پروفیسر صاحب نے قائداعظم کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کرنا ہے میں انکے ساتھ چل دیا خطاب شروع ہوا تو اس کے حسن سے میرے دل کی میل اترنا شروع ہو گئی درمیان درمیان میں پروفیسر صاحب کی آواز شدت عقیدت سے بھرابھی جاتی تھی اور دو تین مرتبہ ان کے آنسو ان کی آستین پر بھی ٹپک پڑے میں خود جذباتی ہو گیا مگر مجھے ایک ضروری کام سے کہیں جانا تھا میں نے اپنے دوست سے اپنی مجبوری بیان کرتے ہوئے اس ملال کا اظہار بھی کیا کہ میں پروفیسر صاحب کی پوری تقریر سننے سے محروم ہو گیا جس پر اس نے اپنے بیگ میں سے ایک پمفلٹ نکالا اور مجھے عنایت کرتے ہوئے کہا آپ یہ پمفلٹ لے جائیں آپ کو تشنگی کا احساس نہیں ہوگا میں نے گھر آکر پڑھا تو سخت دھچکا لگا کہ جو تقریر میں فی البدیہہ سمجھ کر متاثر ہو رہا تھا وہ انہوں نے رٹا لگائی ہوئی تھی بلکہ اس میں یہ نوٹس بھی درج تھے کہ یہاں آواز بھرآنی ہے اور یہاں آنسو بہانے ہیں میں نے اگلے دن اپنے کالم میں ان کی تقریر کی لذت کی حیثیت بیان کر دی۔ ایک لیفٹیننٹ جنرل ان کے مداح تھے انہیں یہ سب بہت ناگوار گزارا چنانچہ اگلے دن پروفیسر صاحب کا نثری قصیدہ بھیجا گیا اور وہ اسی جگہ شائع ہوا جہاں پر کالم شائع ہوا تھا۔

واضح رہے ہمارے علما کی ایک تعداد مولانا مودودی اور غلام احمد پرویز کو کافر قرار دے چکی ہے کچھ عرصہ پہلے ان کفار(لاحول ولا قوۃ)میں جاوید احمد غامدی بھی شامل ہوگئے ہیں بلکہ کچھ لوگ ان کی جان کے بھی درپے ہیں اگلی قسط میں غامدی صاحب اور ڈاکٹر اسرار احمد کا ذکر خیر ہو گا! (جاری ہے)

تازہ ترین