• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایس اے ایس کے پاس گولڈن پاس تھا، وہ قتل سے فرار ہوسکتے تھے، عوامی انکوائری

لندن (پی اے) برطانیہ کی اسپیشل فورسز کے ایک سابق سینئر افسر نے افغانستان میں مبینہ جنگی جرائم کے بارے میں ایک عوامی انکوائری کو بتایا ہے کہ ایس اے ایس کے پاس گولڈن پاس تھا جس کی وجہ سے وہ قتل سے فرار ہو سکتے تھے۔ یہ الزام بدھ کے روز افغانستان کی انکوائری کی طرف سے شائع کیا گیا ہے جس میں برطانیہ کی خصوصی افواج کے ارکان کے ساتھ سات بند کمرہ سماعتوں کا خلاصہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ افسر، اسپیشل بوٹ سروس (ایس بی ایس) کے سابق آپریشن چیف آف اسٹاف ، برطانیہ کی بحری خصوصی افواج ،ان کئی سینئر افسران میں سے ایک تھا جنہوں نے 2011میں یہ خدشات درج کروائے تھے کہ ایس اے ایس پھانسیاں کو انجام دے رہا ہے اور انہیں چھپا رہا ہے۔یہ انکوائری، جو 2010اور 2013کے درمیان یوکے ایس ایف کی طرف سے رات کے چھاپوں کا جائزہ لے رہی ہے، بی بی سی پینوراما کی طرف سے قتل کے الزامات اور ایس اے ایس کی پردہ پوشی کے سالوں کی رپورٹنگ کے بعد کی جا رہی ہے۔اس وقت ایک ای میل میں، افسر نے رجمنٹ کے سرکاری بیانات کو کافی ناقابل یقین قرار دیا۔ بند سماعتوں کے دوران انکوائری سے یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ اپنے اس دعوے پر قائم ہے کہ ایس اے ایس کے اقدامات قتل کے مترادف ہیں، افسر نے جواب دیا، واقعی۔2011میں اپنے تحفظات کو چین آف کمانڈ تک نہ بتانے کے اپنے فیصلے کے بارے میں پوچھ گچھ میں وکیل کے دباؤ پر، انہوں نے کہا کہ انہیں اس وقت کارروائی نہ کرنے پر افسوس ہے۔انہوں نے اس بات سے اتفاق کیا کہ برطانیہ کی اسپیشل فورسز کی قیادت میں بڑے پیمانے پر ناکامی ہوئی ہے۔سابق ایس بی ایس آپریشنز چیف آف اسٹاف رائل نیوی کی اسپیشل فورسز رجمنٹ کے کئی سینئر افسران میں سے ایک تھے جنہوں نے 2024میں بند دروازوں کے پیچھے ہونے والی انکوائری کو ثبوت دیا۔ بند سماعتوں میں صرف انکوائری ٹیم اور وزارت دفاع کے نمائندوں کو شرکت کی اجازت دی گئی ہے۔ عوام، میڈیا کے ارکان اور سوگوار خاندانوں کے وکلاء کو حاضر ہونے کی اجازت نہیں ہے۔ بدھ کو جاری کردہ مواد ان سماعتوں کی گواہی کا خلاصہ کرتا ہے۔ دستاویزات کل سینکڑوں صفحات پر مشتمل ہے جس میں 2009 میں ایس اے ایس کی افغانستان آمد اور ایس بی ایس سے طالبان کا شکار کرنے کے طریقہ کار کی تصویر کشی ؎ہے۔ ایس بی ایس کے سینئر افسران نے گہری تشویش کے بارے میں استفسار پر بتایا کہ ایس اے ایس، جو عراق میں جارحانہ، تیز رفتار کارروائیوں میں ملوث ہے۔ ہر آپریشن میں وہ مرنے والوں کی تعداد حاصل کر سکتے ہیں۔ ثبوت دینے والے ایک اور سینئر ایس بی ایس افسر سے پوچھا گیا کہ کیا وہ 2011 میں اپنے خدشات پر قائم ہیں کہ ایس اے ایس ماورائے عدالت قتل کر رہا تھا۔ میں نے سوچا اور سوچا کہ کم از کم کچھ آپریشنز میں (ایس اے ایس)قتل کر رہا تھا، اس نے کہا۔ ایک جونیئر ایس بی ایس افسر جس نے بند دروازوں کے پیچھے ہونے والی انکوائری کو ثبوت بھی دیا، ایک گفتگو بیان کی جس میں ایس اے ایس کے ایک رکن نے جو حال ہی میں افغانستان سے واپس آیا تھا، اسے بتایا کہ پستول سے مارے جانے سے پہلے کسی کے سر پر تکیہ رکھا گیا تھا۔ جونیئر افسر نے کہا مجھے لگتا ہے کہ جس چیز نے مجھے سب سے زیادہ صدمہ پہنچایا وہ طالبان کے ممکنہ ارکان کی پھانسی نہیں تھی، جو یقیناً غلط اور غیر قانونی تھی، لیکن یہ عمر اور طریقے اور آپ کو معلوم ہے، تکیے جیسی چیزوں کی تفصیلات سے صدمہ پہنچا۔ انہوں نے واضح کیا کہ ایس اے ایس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والوں میں سے کچھ بچے بھی تھے۔ انکوائری کے وکیل کی طرف سے پوچھا گیا کہ کیا اس کا مطلب ہے کہ ہلاک ہونے والوں میں سے کچھ 16 سال کی عمر کے ہوں گے، اس نے جواب دیا100:فیصد کم عمرتھے۔ جونیئر افسر نے انکوائری میں بتایا کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے ڈرتا ہے کہ کیا اس کا نام اس گواہی سے جوڑا جائے کہ ایس اے ایس مبینہ طور پر شہریوں کو قتل کر رہا ہے۔ یہ ایس بی ایس افسران ایک چھوٹے گروپ کا حصہ تھے جو 2011 میں افغانستان سے واپس آنے والی ایس اے ایس آپریشنل رپورٹس کی صداقت کے بارے میں نجی طور پر شکوک و شبہات پیدا کر رہا تھا۔ ایک ای میل میں، ایک سینئر افسر، جو اس وقت پول میں ایس بی ایس کے ہیڈکوارٹر میں ایک عہدہ پر فائز تھے، نے اپنے ایک سینئر ساتھی کو لکھا کہ اگر ہم اس پر یقین نہیں کرتے، تو کوئی اور نہیں کرے گا اور جب اگلی وکی لیکس سامنے آئے گی ےتو ہمیں ان کے ساتھ گھسیٹا جائے گا۔ دونوں سینئر افسران رجمنٹ کی رپورٹس کی زبان کی ترجمانی کرنے کی پوزیشن میں تھے، انہوں نے ایس اے ایس کی آمد سے قبل افغانستان میں ایس بی ایس آپریشنل یونٹس کے ساتھ خدمات انجام دی تھیں۔ یوکے ایس ایف کے سینئر اراکین کی مداخلت کے بعد، افغان یونٹس نے ایس اے ایس کے ساتھ مل کر کام جاری رکھنے پر اتفاق کیا۔ لیکن یہ آخری موقع نہیں ہوگا جب انہوں نے احتجاج میں اپنی حمایت واپس لی۔یہ سب بہت نقصان دہ ہے، ایس بی ایس افسر نے اپنی ای میل کا اختتام کیا۔

یورپ سے سے مزید