• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سندھ کے بارے میں اب تک دنیا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے ممتاز بین الاقوامی محققین،دانشور، تاریخ داں، ماہر بشریات (Archaeologist) جو تحقیق کرکے معلومات فراہم کرتے رہے ہیں ان کی روشنی میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ سندھ بغیر کسی شک وشبہ کے قدیم دور کی دنیا کی ایک عظیم تہذیب ہے۔ یہاں اس بات کا تذکرہ سب سے پہلے کروں گا کہ سندھ کے بارے میں ان بین الاقوامی محققین کا ذکر سب سے زیادہ سندھ کے ایک دانشور و محقق شاہنواز مہیسر کی کتابوں میں ملتا ہے۔مہیسر صاحب نے سندھی میں تو کئی کتابیں لکھی ہیں مگرانگریزی میں بھی اس ایشو پر ایک دو اہم کتابیں لکھی ہیں۔ اس مرحلے پر یہ بات کرنا بھی ضروری ہے کہ ان بین الاقوامی محققین کے علاوہ کئی مذہبی کتابوں میں انکشافات کئے گئے ہیں، ان مذہبی کتابوں سے معلوم ہوتا ہے کہ سندھ کا جتنا نام پرانا ہے اتنی ہی سندھ کی تہذیب بھی پرانی ہے۔ مثال کے طورپر ایک مشہور کتاب ’’تحفت اکرام‘‘ کی تحقیق کے مطابق سندھ کانام پہلے پیغمبر حضرت آدم علیہ السلام کے بیٹے حضرت شیش علیہ السلام سے منسلک کیا جاتا ہے اور طوفان نوح کے بعد سندھ کے نام کی کافی عزت کی جاتی رہی ہے۔ علاوہ ازیں آریائوں کی مذہبی کتاب ’’رگ وید‘‘ میں سندھ کو ’’سپت سندھو‘‘ کہا گیا ہے۔ اس کے معنی ’’سات دریا‘‘ ہے اور یونانیوں نے اسے ’’سند‘‘ اور ’’ہند‘‘ کہہ کر پکارا۔مہیسر کی سندھی میں لکھی گئی ’’جنم کتھا ‘‘ (آپ بیتی) میں بتایا گیا ہے کہ ’’سندھ وہ سر زمین ہے جس کے بارے میں حضور اکرمؐ نے فرمایا کہ ’’مجھے سندھ کی ٹھنڈی اور خوشگوار ہوا لگ رہی ہے‘‘۔ جہاں تک بین الاقوامی محققین کے انکشافات کاتعلق ہے تو ان میں سے کچھ دانشوروں نے سندھ کی Chronology کاذکر کرتے ہوئے بتایا ہے کہ سندھ 5 لاکھ سال پہلے یا عیسوی سن سے 4000 سال پہلے موجود تھا۔ اس سلسلے میں مزید تفصیل دیتے ہوئے ان مورخین نے بتایا ہے کہ سندھ کا پتھر والے دور Stone Age میں وجود تھا اور ایک لاکھ سال پہلے سندھ کے علاقے کے سمندر میں تبدیلیاں آئیں اور 10 ہزار سال پہلے آب ہوا میں تبدیلیاں آئیں جو ابھی تک جاری ہیں۔ علاوہ ازیں سرسوتی اور درا شوتی دریائوں میں اور ان دریائوں کی End اور ساتھ ہی دریائے ہاکڑو میں تبدیلیاں آنے کی وجہ سے سندھ کے ڈھانچے میں کچھ اہم تبدیلیاں آئیں، 1934ء میں سندھ کی ایک پہاڑی Sivalik Hillsکی کھدائی کے دوران کچھ انسانی دانت ہاتھ لگے جو 14 سے 16 ملین سال پہلے کے لگ رہے تھے، بعد میں 1981-82ء میں کھدائی کرنے والی ایک برطانوی ٹیم کو پوٹھوہار کے علاقے میں ایک انسانی کھوپڑی (سر) ہاتھ لگی، ان بین الاقوامی محققین کا کہنا تھا کہ یہ سندھ میں پیدا ہونے والا پہلا انسان تھا۔ اب میں اس کالم میں ان محققوں کی دوسری اہم دریافت کاذکر کرونگا۔ ان محققین نے بتایا ہے کہ سندھ میں پتھر کا دور Age Stone کب شروع ہوا اورکہاں ہوا۔ محققین کے مطابق اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یقینی طورپر سندھ میں انسان 5,00000 سال پہلے پیدا ہوا اور اسی دوران کہا جاتا ہے کہ روہڑی اورکوٹ ڈیجی کے قریب اچھان شاہ اور انڑ فارم کے علاقے میں تینAge Stone فیکٹریاں کھود کر نکالی گئیں جو 5000 سے 35000 سال پہلے کے دور کی ہیں۔ روہڑی سے نکالے گئے یہ Tools موہن جو دڑو اور آمری کے ظاہر ہونے سے بہت پہلے یہ ساری سندھ وادی میں روہڑی سے تھر اورہندوستان کے ریگستان تک عیسوی سن سے 50 ہزار سے 60 ہزار سال پہلے فراہم کئے گئے۔ بعد میں جب عیسوی سن سے 5 ہزار سال پہلے کھدائی کے ذریعے سامنے آنیوالا مہر گڑھ ظاہر ہوا تو اسے بھی یہ Toolsفراہم کئے گئے۔ ان بین الاقوامی محققین نے یہ دلچسپ انکشاف بھی کیا ہے کہ ہمالیہ کے وجود میں آنے کے وقت سمندر میں آنے والی تبدیلیوں کے نتیجے میں 50 ہزار سے ایک لاکھ سال پہلے سندھ سمندر میں ڈوب گیاحالانکہ اس وقت سندھ میں انسان وجود میں آگیا تھا مگر سمندر کی سطح بتدریج بڑھتی رہی اورسندھ کااکثر علاقہ کچھ وقت کیلئے سمندر میں ڈوب گیا۔ ان محققین نے مزید دلچسپ انکشاف کیا ہے کہ سندھ کے مختلف علاقے مختلف ادوار میں سمندر میں ڈوبے رہے۔ اس سلسلے میں انہوں نے بتایا کہ موجودہ کراچی ایک لاکھ سال پہلے، ٹھٹھہ اور سونڈھا کے نزدیک کے علاقے 90 ہزار سال پہلے، آمری کے قریب کے علاقے 80ہزارسال قبل،لاڑکانہ کے علاقے 70 ہزار سال،رحیم یار خان کے علاقے 60 ہزار سال اور ملتان کے قریب والے علاقے 50 ہزار سال پہلے سمندر میں تھے۔

تازہ ترین