1964ء میں پاکستان میں پی ٹی وی کا آغاز ہوا تو یہ عوام کا گویا ایک جہانِ نو سے تعارف تھا۔ لوگوں کے لیے تفریحِ طبع کی ایک نئی دنیا کے دروازے کُھل گئے کہ اِس سے قبل سنیما یا ریڈیو ہی انٹرٹینمینٹ کے مقبول ذرائع تھے۔ ٹی وی کے آنے سے سماجی ومعاشرتی رویوں میں بھی بہت بڑی تبدیلی آئی۔ جہاں جہاں یہ نشریات پہنچتی تھیں، وہاں یہ گھروں ہی کا نہیں، اہلِ خانہ کے دِلوں کا بھی مکیں بن گیا۔ پھر گُزشتہ چھے عشروں میں ٹی وی اَن گنت تبدیلیوں سے گُزرا، اس کے پروگرامز نے ہزارہا رنگ بدلے۔
ایک طویل عرصے تک تو اکلوتے سرکاری چینل ہی کا راج رہا، لیکن پھر ٹیکنالوجی کی تیزرفتار ترقی کی بدولت جہاں ہرشعبۂ زندگی میں حیران کن تبدیلیاں آئیں، وہیں الیکٹرانک میڈیا بھی جدید سے جدید تر ہوگیا۔ آج سرکاری چینلز کے ساتھ ملکِ عزیزمیں نجی چینلزکی بھی بھرمارہے۔
یہ سیٹلائٹ چینلز چوبیس گھنٹے نشریات پیش کرتے ہیں۔ یوں ناظرین کے پاس دیکھنے کے لیےاب ’’بہت کچھ‘‘ ہے۔ عمومی طور پر اِن نشریات میں خبروں کےساتھ ڈرامے، ٹاک شوز (سیاسی وغیر سیاسی، تفریحی) مارننگ شوز، مزاحیہ شوز، ایوارڈ شوز، کھیلوں کے مقابلے/ گیم شوز، مذہبی پروگرام، فیچر فلمز وغیرہ پیش کیے اوربصد شوق دیکھے جاتے ہیں۔
چوں کہ ٹی وی ناظرین میں اکثریت خواتین کی ہے اوراُن کی اوّلین پسندیدہ تفریح ڈرامے ٹھہرے، تو عموماً سال بھر زیادہ تذکرہ مقبولِ عام ڈراما سیریز، سیریلز اور سوپ وغیرہ ہی کا رہتا ہے۔ حضرات ٹاک شوز، خصوصاً سیاسی یا مزاحیہ ٹاک شوز دیکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں، جب کہ نوعُمروں کی دل چسپی چَٹ پٹی خبروں، موسیقی کے پروگرامز، فلمز وغیرہ یا پھر اپنی فیلڈ سے متعلقہ پروگرامز ہی تک محدود رہتی ہے۔ البتہ اِس قدر ترقی و جدّت طرازی کے باوجود ہمارے یہاں ہنوز بچّوں کے لیے مین اسٹریم میڈیا پر نہ کوئی خاص وقت مقرر ہے، اور نہ ہی کوئی قابلِ ذکر شو دیکھنے کو ملتا ہے۔
بہرکیف، ٹی وی پروگرامز میں مقبولیت کے لحاظ سے کل کی طرح آج بھی چوں کہ ڈرامے ہی سرِفہرست ہیں، تو سالِ رفتہ کے ری ویو میں سب سے پہلے اُن ہی کا تذکرہ ہوجائے۔ پچھلےکچھ برسوں سے ڈراموں کے ضمن میں جو سب سے بڑی تبدیلی دیکھنےمیں آئی، وہ یہ کہ اب موضوعات میں بولڈنیس آگئی ہے۔ آج ایسے معاملات اور مسائل پربات ہورہی ہے، جن پہ لب کُشائی کبھی ممنوع تھی۔
جیسا کہ گھریلو تشدّد، مرد و خواتین کے نفسیاتی مسائل، حلالہ، پیری مریدی، پیڈو فیلیا، جادو ٹونا وغیرہ۔ سال 2024ء اس اعتبار سے ایک اہم سال ہے کہ ایک طویل عرصے بعد کچھ ڈراموں نے کام یابی کے ایسے نئے سنگِ میل طےکیے کہ پی ٹی وی کے عروج کے دَورکی یادیں تازہ کردیں کہ جب ڈراموں کے اوقات میں سڑکیں، گلیاں ویران ہوجایا کرتی تھیں۔
ناظرین کی پسندیدگی کے اعتبار سے ڈراما سیریلز کبھی مَیں کبھی تم، خئی، جاں نثار، نورجہاں، زرد پتّوں کا بَن، جینٹلمین، جفا، دنیا پور، اقتدار، کفّارہ، تیری چھاؤں میں، بسمل، جان سے پیارا جُونی، ہم دونوں، دل مانے نہ، غیر، ہابیل قابیل، داؤ، بے حد، دلِ ناداں، توبہ، فنا، ایک چُبھن سی، بَھرم، بےبی باجی کی بہوئیں، شدّت، داؤ، عشق ہوا، یارِمن، لیٹس ٹرائی محبت، نقاب، رفتہ رفتہ، پسِ دیوار سرِفہرست رہے، تو کچھ مِنی سیریلز میں (کہ یہ ٹرینڈ اِمسال ہی زیادہ پروان چڑھا اور مقبول ہوا) مَن جوگی، نادان، یحییٰ، تن مَن نیل و نیل(ہنوز آن ائیر ہے) نے بھی خُوب شہرت کمائی، جب کہ سال2023ء میں شروع ہو کر 2024ء میں ختم ہونے والے دو ڈرامے جانِ جہاں اورعشق مرشد بھی خاصے کام یاب رہے۔
کچھ مزید آن ائیر ڈراموں میں فرار، قرضِ جاں، اے عشقِ جنوں، میم سے محبت اور سُن میرے دل بھی ٹرینڈنگ میں ہیں، خصوصاً سنجیدہ ناظرین اِس امر پر خوشی کا اظہار کررہے ہیں کہ اب ڈراموں کی صُورت عشق ومحبّت، گھریلو سازشوں، ساس بہو کے روایتی جھگڑوں سے آگے بڑھ کے بھی کچھ دیکھنے، سیکھنے کو مل رہا ہے۔
حقیقی زندگیوں سے موضوعات اخذ کرکے ڈرامے بنائے جارہے ہیں، وگرنہ پچھلے کئی برسوں سے تو ہم بس اسٹار پلس ٹائپ ڈراموں ہی میں الجھ کے رہ گئے تھے۔ جیسا کہ سالِ رفتہ ڈراما سیریل ’’کبھی مَیں، کبھی تم‘‘ نے جوکام یابی کےجھنڈے گاڑے، تو صرف اِسی سبب کہ اُس کی کہانی مکمل طور پر ایک روایتی معاشرتی کہانی تھی۔
ایک اور ٹرینڈ، جو پچھلے دو ایک سال سے زیادہ رواج پا گیا، وہ ڈارک اسٹوریز کی بےپناہ مقبولیت کا ہے۔ اور اِس میں بھی ایک بڑا کردار پاکستانی میڈیا انڈسٹری کے ٹرینڈ سیٹر ’’جیو‘‘ہی کا ہے کہ بھرپور مار دھاڑ پر مبنی فلم ’’مولا جٹ‘‘ کی لازوال کام یابی کے بعد، جیو کے29 اقساط پر مشتمل ڈراما سیریل ’’خئی‘‘ نے بھی ریٹنگ کے اعتبار سے ماضی کے کئی بلاک بسٹر ڈراموں کو پیچھے چھوڑ دیا۔
ڈرامے کی کام یابی میں یقیناً عُمدہ کہانی کے ساتھ سیّد وجاہت حسین کی شان دار ہدایت کاری کا بھی بڑا عمل دخل ہے کہ جہاں ہر کردار نے اپنی بھرپور، جان دار پرفارمینس سے ڈرامے میں رُوح پُھونکی، وہیں اِس کی بین الاقوامی انداز کی عکس بندی نے بھی ناظرین کےدل جیت لیے۔ نیز، ڈرامے سے متعلق یہ بھی کہا گیا کہ ’’پاکستانی ڈرامے کی تاریخ کے سب سے ڈارک ڈرامے نے تاریخ کےسُپرہٹ ڈرامے کی شہرت پائی۔‘‘
گرچہ27مارچ کو 29ویں قسط کے ساتھ سیریل اختتام کو پہنچا، لیکن تاحال یو ٹیوب پہ سرچ کیا، دیکھا اور بےحد پسند بھی کیا جارہا ہے۔ بعدازاں، دیگر چینلزسے بھی اِسی طرز کے ڈراموں کا آغاز ہوا، جن میں مقبول ترین دنیا پور اور فرار ٹھہرے، جو تادمِ تحریر آن ائیر ہیں۔
مگر یہ بھی حقیقت ہےکہ عام گھریلو خواتین میں روایتی عشق ومحبت کا سحر پوری طرح ٹوٹ نہیں سکتا کہ سالِ گزشتہ جیو سے پیش کیے جانے والے بلاک بسٹر ڈرامے جاں نثار کی 26اکتوبر 2024ء کو جو پینسٹھویں (آخری قسط) نشر ہوئی، اُس کی ویورشپ چالیس ملین سے بھی زیادہ تھی۔
نجی سیٹلائٹ چینلز کا آغاز ہوا، تو روزِ اول سے نیوز چینلز کے اہم پروگرام ٹاک شوز ہی قرار پائے، جو زیادہ تر سیاسی و سماجی موضوعات پر مبنی ہوتے کہ لوگ عموماً حالاتِ حاضرہ، خصوصاً ’’اندر خانے‘‘کی کہانیاں جاننے کے لیے مضطرب و مشتاق رہتے ہیں۔ ابتداً جب چینلز کی تعداد کم تھی، تو اِن ٹاک شوز میں زیادہ تر تجربہ کار، جیّد صحافیوں، ماہر تجزیہ نگاروں ہی کو مدعو کیا جاتا کہ جو اپنے اپنے شعبہ جات میں خُوب مہارت کے حامل ہوتے۔
مگر اب تو جیسے ایک بھیڑچال ہے۔ چینلز کی تعداد میں اضافے کے ساتھ ٹاک شوز کی بھی بھرمار ہوچُکی ہے۔ ہر دوسرا شخص ’’سینئر ماہر تجزیہ کار‘‘ ہے، جو سیاست وصحافت کی ابجد سے بھی واقف نہیں، وہ اہم سیاسی و معاشی معاملات پر رائے زنی کررہا ہے۔
بہرکیف، سالِ رفتہ بھی ’’جیو‘‘ کے مختلف ٹاک شوز نےاپنی غیرجانب دارانہ پالیسیز کے سبب، صفِ اوّل کے ٹاک شوز کا ریکارڈ برقرار رکھا۔(واضح رہے، گزشتہ 22برس سے نمبر ایک رہنے والے جیو نیوز نے سالِ رفتہ اپنا ہی ریکارڈ توڑ دیا اور 12ارب ڈیجیٹل ویوز کے ساتھ پاکستانی میڈیا کی تاریخ میں ایک سال میں سب سے زیادہ دیکھا جانے والا چینل قرار پایا) ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘ پبلک ریٹنگ کے اعتبار سے پچھلے کئی برسوں کی طرح سال 2024ء کا بھی مقبول ترین ٹاک شو ثابت ہوا کہ اَن گنت تحقیقی و معلوماتی، دل چسپ وحیران کُن، دو طرفہ مؤقف کے حامل اور بے حد کام یاب و بھرپور پروگرامز کا ریکارڈ رکھنے والے اِس شو کے ذریعے سالِ رفتہ بھی کئی ایکس کلیوسیو اسٹوریز سامنے لائی گئیں۔
دراصل شاہزیب خانزادہ کے انتہائی منطقی، بروقت و برجستہ سوالات کے سامنے بڑے بڑے لڑکھڑا جاتے ہیں، تو ناظرین کو محسوس ہوتا ہے کہ یہ تو اُن کے دل کی آواز ہے۔ تب ہی سالِ رفتہ 3300 سے زائد اقساط مکمل کرنے کے باوجود ہنوز شو کا جادو سر چڑھ کے بول رہا ہے۔ ’’جیو نیوز نیٹ ورک‘‘ کے دیگر ٹاپ ریٹڈ ٹاک شوز میں ’’کیپیٹل ٹاک‘‘، ’’جرگہ‘‘، ’’نیا پاکستان‘‘، ’’ایک دن جیو کے ساتھ‘‘ اور ’’رپورٹ کارڈ‘‘ وغیرہ شامل ہیں۔
جب کہ ’’کیپیٹل ٹاک‘‘ کو تو یہ اعزاز بھی حاصل ہےکہ عین ’’پِیک آور‘‘میں نشر ہونے کے باوجود برسوں سے ریٹنگ چارٹ پرنمایاں ہے۔ نیز، اِس شو کی قبولیتِ عام کی ایک اور بڑی وجہ حامد میر کا بہت متوازن اور مہذب اندازِ گفتگو ہے۔
وہ عموماً بہت شائستہ اندازمیں سوال کر کے، مہمان کو جواب دینے کا پورا موقع فراہم کرتے ہیں۔ نازک، سنجیدہ ایشوز پر بھی ہنستے مُسکراتے، بالکل لائٹ انداز سے گفتگو آگے بڑھاتےہیں، تب ہی خال ہی ان کے پروگرام میں بات بحث و تکرار سے، گالم گلوچ یا ہاتھاپائی تک پہنچی ہے، جب کہ اِس ضمن میں کئی ٹاک شوز کا ریکارڈ بہت خراب بھی ہے۔ (واضح رہے، مختلف ریٹنگ چارٹس کے مطابق، جیو کے شوز ’’آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ‘‘، ’’جیو پاکستان‘‘، ’’کیپیٹل ٹاک‘‘، ’’نیا پاکستان‘‘ اور’’ہنسنا منع ہے‘‘ سال بھر کے مقبول ترین شوز تھے، نیز سوشل میڈیا پہ بھی اِن کے مختلف کلپس نہ صرف شئیر بلکہ وائرل بھی ہوتے رہے) بہرکیف، دیگر چینلز سے بھی کئی ٹاک شوز دیکھے اور پسند کیے گئے۔
اِن زیادہ دیکھے جانے والے پولیٹیکل ٹاک شوز میں ’’ندیم ملک لائیو، آن دِی فرنٹ وِد کامران شاہد، کل تک وِد جاوید چوہدری، ہم دیکھیں گے وِد منصور علی خان، فیصلہ آپ کا عاصمہ شیرازی کے ساتھ، آف دی ریکارڈ، دنیا مہر بخاری کے ساتھ، ذرا ہٹ کے، نیوز بِیٹ ود پارس جہانزیب، ریڈ لائن وِد سیّد طلعت حُسین، جی فارغریدہ، اسٹیٹ کرافٹ وِد مزمل شاہ، لائیو وِد ڈاکٹر شاہد مسعود، بریکنگ پوائنٹ وِد مالک، الیونتھ آور، سوال یہ ہے، اب تک ڈاکٹر دانش کے ساتھ، نسیم زہرا ایٹ پاکستان، ٹونائٹ وِد فریحہ، ایکسپریس ایکسپرٹس، میرے سوال ابصار عالم شو، کھرا سچ، ریاست عوام، بیانیہ، گہری نظر، کراس ٹاک، سیاست سچ، نیوز لائیو، سنو ٹو نائٹ، دو ٹوک، ایسے نہیں چلے گا، مدِ مقابل، رُوبرو، اِن فوکس، خبرگرم ہے، اعتراض ہے، نکتۂ اعتراض، نائٹ ایڈیشن، دی رپورٹرز، نائنٹی ٹو ایٹ8 ، نیوز آئی، اسپاٹ لائٹ، اسٹریٹ ٹاک، تھنک ٹینک اوراختلافی نوٹ وغیرہ شامل ہیں۔
خالص سیاسی، تجزیاتی ٹاک شوز سے ہٹ کر بات کریں، تو پولیٹیکل کامیڈی اور نان پولیٹیکل کامیڈی شوز نے بھی ناظرین کی سال بھر خُوب توجّہ، داد سمیٹی اور اِن شوز میں بھی ’’جیو نیوز‘‘ کے مئی 2022ء سے آغاز ہونے والے کامیڈی شو ’’ہنسنا منع ہے‘‘ کی ریٹنگ سب سے ہائی رہی، جس کی بڑی وجہ یقیناً پروگرام کے میزبان تابش ہاشمی کا بےساختہ پن اور حسِ مزاح کی خداداد صلاحیت ہے۔ سال2023 ء کی طرح2024 ء میں بھی مختلف شعبۂ ہائے زندگی کی معروف ترین شخصیات نے نہ صرف شو میں شرکت کی بلکہ رات 11 سے11:55 تک ناظرین کو جیو اسکرینز سے جوڑے بھی رکھا۔
اِسی نوعیت کے دیگر شوز میں، ’’شو ٹائم وِد رمیز راجا‘‘ (جس کی سب سے قابلِ ذکربات، شوکی فی میل پرفارمر عکاشہ گُل کی شان دار پرفارمینس تھی کہ لگ بھگ ہر شو کو عکاشہ کی برجستگی، مدھر آواز اورحسِ مزاح ہی نے چار چاند لگائے)’’گپ شپ وِد واسع‘‘، ’’مذاق رات، عمران اشرف کے ساتھ‘‘، ’’پبلک ڈیمانڈ شو وِد محسن حیدر‘‘، ’’خبرہار وِد آفتاب اقبال‘‘، ’’ہوشیاریاں‘‘، ’’زبردست، وصی شاہ کے ساتھ‘‘، حسن چوہدری کا ’’دی ٹاک ٹاک شو‘‘ اور عُشنا شاہ کا نیا شو ’’آفٹر آورز وِد عُشنا شاہ‘‘ بھی دیکھے اور پسند کیے گئے۔
ہر فن مولا سہیل احمد کی لاجواب مزاح نگاری کے سبب ایک طویل عرصے سے مقبولِ عام پروگرام ’’حسبِ حال‘‘ بھی کئی میزبانوں کی تبدیلی کے باوجود سالِ رفتہ بہت دیکھا، خُوب پسند کیا گیا۔ پھر2023 ء سے شروع ہونے والا ایک منفرد تجزیاتی شو ’’کیا ڈراما ہے‘‘، سالِ گزشتہ بھی مقبولِ عام پروگرام رہا۔
یاد رہے، اِس شو کا فارمیٹ کچھ اس طرح ہے کہ میزبان کے ساتھ تین ماہرین لگ بھگ تمام انٹرٹینمینٹ چینلز پر نشر ہونے والے ڈراموں کا جائزہ لیتے اور بہت حد تک غیر جانب دارانہ تجزیات پیش کرتے ہیں۔ سالِ رفتہ پورے شو پر نادیہ خان اپنے اوریجنل، unbiased انداز، سینس ایبل تجزیات کے سبب چھائی رہیں۔ پی ٹی وی ہوم نے سالِ رفتہ اپنی 60ویں سال گرہ انتہائی دھوم دھام سے منائی۔
اِس ضمن میں کئی عُمدہ شاہ کار پروگرام ترتیب دیئے گئے، جن میں ماضی میں پی ٹی وی سے وابستہ رہنے والے متعدد لیجنڈز نےنہ صرف شرکت کی بلکہ اپنی بہت خُوب صُورت، خوش گوار یادیں بھی تازہ کیں۔ نیز، عاصم یار ٹوانہ کے کام یاب پروگرام ’’اسٹار اینڈ اسٹائل‘‘ کا سفر بھی جاری رہا، جس کی شریک میزبان شرمین علی نے بھی اپنے فرائض عُمدگی سے انجام دیئے۔
ڈراموں کے بعد اگر خواتین کوئی پروگرام بے حد اشتیاق سے دیکھتی ہیں، تو وہ ہیں، مارننگ شوز کہ اُن میں اُن کی دل چسپی کے کئی سیگمنٹس موجود ہوتے ہیں۔ گڈمارننگ پاکستان، جو گزشتہ بارہ برس سے نشر ہورہا ہے، عموماً اپنے وائرل کلپس کے سبب زیادہ خبروں میں رہتا ہے اوریہ کلپس خواتین ہی کے سبب زیادہ وائرل ہوتے ہیں۔
نیز، اِسی نوعیت کے دوسرے روایتی مارننگ شوز میں ’’صُبح کا سما، مدیحہ کے ساتھ‘‘، ’’صبح سے آگے‘‘، ’’مارننگ ود ساحر‘‘، ’’باخبرسویرا‘‘، ’’جی اُٹھا پاکستان‘‘، ’’دھنک‘‘، ’’صُبح کا ستارہ‘‘، ’’مارننگ اسٹار‘‘، ’’نیوز کیفے‘‘، ’’مُسکراتی صبح‘‘، ’’گُڈ مارننگ لاہور‘‘، ’’مارننگ ایٹ ہوم وِد جگن‘‘ اور’’ لائف گرین ہے‘‘ وغیرہ خواتین نے نہ صرف دیکھے، بلکہ ریٹنگ چارٹ پر بھی چڑھائے رکھے کہ وقتاً فوقتاً مختلف سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے اِن کے کئی کلپس وائرل ہوتے رہے۔ ویسے مارننگ شوز کی یک سانیت سےاب کئی گھریلو خواتین بھی اُکتانے لگی ہیں، جب کہ حضرات تو ابتدا ہی سے اِس فارمیٹ سےنالاں ہیں۔
شاید اسی لیے 2016ء ہی سے ’’جیو نیٹ ورک‘‘ نے دو بہترین اینکرز، ایک عُمدہ سلوگن ’’اِک نئی صُبح کا آغاز‘‘ اور’’جیو پاکستان‘‘ کے نام سے ایک نیوز بیسڈ مارننگ شو کا آغاز کردیا تھا، جو اپنی ابتدا سے تاحال ٹاپ ریٹڈ پروگرام ہے، کیوں کہ اس شو میں فضول ناچ گانے، شادی بیاہ کی بے ہنگم رسومات، رونے دھونے اور جادُو ٹونے جیسے فارمولاز سے قطعاً اجتناب برتا جاتا ہے۔
سالِ رفتہ بھی پروگرام نے اپنی روایت برقرار رکھتے ہوئے متعدّد کام یاب شوز کیے، جب کہ کچھ دیگر چینلز سے بھی اسی نوعیت کے مارننگ شوز، جیسے ’’چائے ٹوسٹ اور ہوسٹ‘‘، ’’صُبح کا سماء‘‘، ’’ایکسپریسو‘‘، ’’صُبح سے آگے‘‘، ’’صُبح سویرے پاکستان‘‘، ’’آج پاکستان‘‘، ’’دُنیا بول ہے‘‘،’’پیامِ صبح‘‘ اور رائزنگ پاکستان ود توثیق حیدر کا سفر کام یابی سے جاری و ساری رہا۔