ماضی کی طرح 2024ء میں بھی پاکستان کے شعبۂ تعلیم کو گوناگوں چیلنجز درپیش رہے، جن میں فنڈنگ اور انفرااسٹرکچر کی کمی، اسکول سے باہر رہ جانے والے بچّوں کی تعداد میں اضافہ، مون سون بارشوں کے نتیجے میں سرکاری اسکولز اور عارضی تعلیمی مراکز کو پہنچنے والا نقصان، ناقص معیارِ تعلیم اور کم شرحِ خواندگی قابلِ ذکر ہیں، جب کہ احتجاجی مظاہروں اور موسمی حالات کے سبب بھی درس و تدریس کا سلسلہ متاثر ہوا۔
تاہم، سالِ رفتہ وزیرِ اعظم، شہباز شریف کی جانب سے تعلیمی ایمرجینسی کے نفاذ کے بعد مذکورہ بالا چیلنجز پر قابو پانے کے لیے اصلاحات کا سلسلہ جاری رہا۔ مثال کے طور پر تعلیم کے لیے وفاقی بجٹ 2024-25ء میں 103.781 ارب روپے مختص کیے گئے۔ گرچہ یہ رقم گزشتہ تعلیمی بجٹ کے مقابلے میں 0.9فی صد زیادہ ہے، تاہم ایجوکیشن بجٹ کو جی ڈی پی کے 4فی صد تک کرنے کے پاکستان کے بین الاقوامی عہد کی تکمیل کے لیے کسی طور کافی نہیں۔
اس ضمن میں وفاقی وزارتِ تعلیم کا کہنا تھا کہ گرچہ رواں مالی سال میں تعلیمی بجٹ میں قابلِ ذکر اضافہ کیا گیا، لیکن جی ڈی پی کا چار فی صد بجٹ مختص کرنے کے لیے سالانہ 4242ارب روپے کی ضرورت ہے، جب کہ رواں برس تعلیم کے لیے وفاق نے215 ارب، پنجاب نے 673ارب، سندھ نے 508ارب، کے پی کے نے 393ارب، بلوچستان نے 162ارب، آزاد جمّوں و کشمیر نے 48ارب اور گلگت بلتستان نے 33ارب روپے مختص کیے ہیں۔ واضح رہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے مختص کیے گئے 215ارب روپے میں سے 46فی صد ترقّیاتی منصوبوں اور 54فی صد حالیہ اخراجات کے لیے ہیں۔
تعلیمی بجٹ کے حوالے سے پاکستان بَھر کی جامعات کے اساتذہ کی نمائندہ تنظیم، ’’فیڈریشن آف آل پاکستان یونیورسٹیز اکیڈمک اسٹاف ایسوسی ایشن‘‘ کے صدر، ڈاکٹر امجد مگسی کا کہنا تھا کہ ’’وفاقی بجٹ میں تعلیم کے لیے مختص کی جانے والی رقم مُلک کی جی ڈی پی کے دو فی صد سے بھی کم ہے۔ مُلک کے اہم ترین سیکٹر کو نظر انداز کیے جانے کے سبب اعلیٰ تعلیم کا شعبہ تباہی کے دہانے پر پہنچ چُکا ہے۔
لائبریریز کے لیے نئی کُتب کے کا حصول اور تجربہ گاہوں کے لیے آلات تو دُور کی بات، اب تو جامعات کے لیے اپنے اساتذہ کو بروقت تن خواہیں دینا بھی مُشکل ہو رہا ہے۔ وفاقی حکومت نے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کا بجٹ پچھلے پانچ برس سے65ارب پر منجمد کر رکھا ہے، حالاں کہ اس دوران صرف اساتذہ کی تن خواہوں میں 170فی صد تک اضافہ ہو چُکا ہے۔‘‘ اس حوالے سے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے چیئرمین، ڈاکٹر مختار احمد کا کہنا تھا کہ انہوں نے اس سال مُلک کی 160سرکاری جامعات کے لیے 126ارب روپے طلب کیے تھے، لیکن صرف 25ارب روپے دینے کا اعلان کیا گیا۔
دوسری جانب اسکول نہ جانے والے ڈھائی کروڑ سے زائد بچّوں کے انرولمنٹ اور معیارِ تعلیم بہتر بنانے کے لیے ’’فیڈرل فاوئڈیشنل لرننگ پالیسی‘‘ متعارف کروائی گئی۔ دریں اثنا، وزارتِ تعلیم کے تحت کام کرنے والے ادارے، ’’پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف ایجوکیشن‘‘ نے شعبۂ تعلیم کی کارکردگی کے حوالے سے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ مُلک کے مختلف علاقوں میں قائم سرکاری درس گاہیں بیت الخلا، پینے کے صاف پانی اور چار دیواری جیسی بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں، جب کہ 3لاکھ سے زائد تعلیمی اداروں میں زیرِ تعلیم کم و بیش5کروڑ طلبہ کو 21لاکھ 40ہزار اساتذہ تعلیم فراہم کر رہے ہیں۔
اپنے مطالبات کے حق میں اساتذہ اور طلبہ نے احتجاجی مظاہرے کیے
پاکستان میں شعبۂ تعلیم کی بہتری کے لیے خدمات انجام دینے والی تنظیم، ’’ای آئی ای‘‘ کی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس جولائی اور اگست میں ہونے والی مون سون کی موسلادھار بارشوں کے نتیجے میں مُلک بَھر میں 1850 اسکولز، عارضی تعلیمی مراکز اور غیر رسمی تعلیمی اداروں کو جُزوی اور مکمل طور پر نقصان پہنچا۔
اس دوران 208اسکولز زیرِ آب آنے کے سبب استعمال کے قابل نہیں رہے، جب کہ 19اسکولز میں آئی ڈی پیز رہائش پذیر ہیں۔ اس صورتِ حال کی وجہ سے نہ صرف کم و بیش ایک لاکھ طلبہ کا تعلیمی سلسلہ متاثر ہوا بلکہ 2022ء کے سیلاب سے متاثرہ اسکولز کی بحالی نہ ہونے کی وجہ سے تعلیمی نظام پر دبائو میں مزید اضافہ ہوا۔گزشتہ برس مئی میں وزیرِاعظم شہباز شریف نے مُلک میں تعلیم کے فروغ کے لیے تعلیمی ایمرجینسی کے نفاذ کا اعلان کیا۔
شعبۂ تعلیم سے متعلق قومی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیرِ اعظم کا کہنا تھا کہ ’’تعلیم کے بغیر کوئی قوم ترقّی نہیں کر سکتی۔ اسکولز سے باہر بچّوں کو تعلیم کی فراہمی ایک مشکل چیلنج ہے، لیکن ناممکن نہیں۔ مَیں تعلیم کے شعبے کی خود نگرانی کروں گا اور اسکولز سے باہر 2کروڑ 60 لاکھ بچّے بہت جلد اسکولوں میں ہوں گے۔‘‘ تاہم، سندھ میں تعلیمی ایمرجینسی نافذ اور کُل بجٹ کا 25 فی صد مختص ہونے کے باوجود سرکاری اسکولز کی حالتِ زار بہتر نہ ہو سکی۔
صوبے میں اسکول چھوڑنے والے بچّوں کی تعداد میں خوف ناک حد تک اضافہ ہوا۔ اس ضمن میں ذرائع ابلاغ میں شائع و نشر ہونے والے اعدادوشمار کے مطابق سندھ میں تعلیم کے لیے خطیر رقم مختص ہونے کے باوجود سرکاری اسکولز بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہیں۔ صوبے کے 37فی صد اسکولز پینے کے پانی، 68فی صد بجلی، 25فی صد واش رُومز اور49 فی صد چار دیواری سے محروم ہیں، جب کہ صوبے میں اسکولز سے باہر بچوں کی تعداد 55لاکھ سے تجاوز کر چُکی ہے۔
دوسری جانب سالِ رفتہ حکومت پنجاب نے صُوبے بَھر کے 13ہزار پرائمری سرکاری اسکولز کی نج کاری کا آغاز کیا، جب کہ خیبر پختون حکومت نے بھی گورنمنٹ اسکولز کی پرائیویٹائزیشن کا منصوبہ بنایا۔ اس ضمن میں پنجاب حکومت نے دعویٰ کیا کہ اس پالیسی کا مقصد تعلیم کے شعبے میں تبدیلی لانا ہے، جب کہ ماہرینِ تعلیم کا کہنا تھا کہ نج کاری کی پالیسی سے ریاست بنیادی تعلیم کی فراہمی کی ذمّے داری سے دست بردار ہو رہی ہے۔ واضح رہے کہ یہ اقدام پنجاب حکومت کے وسیع تر پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ماڈل کا حصّہ ہے، جس کا مقصد بہ ظاہر تعلیم کے معیار کو بڑھانا اور لاکھوں طلبہ کی تعلیم تک رسائی میں اضافہ کرنا ہے۔
پنجاب ایجوکیشن فاؤنڈیشن ان13ہزار پرائمری سکولز کی نگرانی کرتی ہے، جن میں 1کروڑ80لاکھ طلبہ زیرِ تعلیم ہیں۔ حکومتِ پنجاب نے منصوبے کے پہلے مرحلے میں 5ہزار863سرکاری اسکول حوالے کرنے کے لیے نجی شعبے کے اداروں کے ساتھ مفاہمت کی ایک یادداشت پر دست خط کیے جب کہ دوسرے اور تیسرے مرحلے میں چار چار ہزارا سکولز کی منتقلی کی جائے گی۔ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ ماڈل کی شرئط کے تحت حکومت نجی شعبے کو ماہانہ 650روپے فی طالب علم فراہم کرے گی۔ نجی شعبہ اساتذہ کے انتظام اور ضروری انفرااسٹرکچر کی فراہمی کا ذمہ دار ہوگا۔
2024ء میں مُلک کی مختلف جامعات میں وائس چانسلرز کی تعیّناتی بھی عمل میں آئی، جب کہ حکومتِ پنجاب کی جانب سے وائس چانسلرز کی تقرّریوں کے معاملے پر گورنر پنجاب، سردار سلیم حیدر خان اور وزیرِاعلیٰ پنجاب، مریم نواز کے مابین اختلافات کی خبریں بھی سامنے آئیں۔ اس موقعے پر گورنر ہاؤس نے پنجاب کی 6جامعات میں وائس چانسلرز کی تعیّناتی پر تحفّظات کا اظہار کرتے ہوئے سمری مسترد کیے جانے کے باوجود تعیّناتی کو بلاجواز قرار دیا۔
دریں اثنا، سندھ حکومت نے صوبے کی جامعات کے وائس چانسلرز کو دوسری مدّت نہ دینے کا اصولی فیصلہ کیا اور کابینہ کے فیصلے کی روشنی میں جامعات میں بیوروکریٹ وائس چانسلر کی تقرّری کے سلسلے میں نئے وائس چانسلر کے اشتہارات روک دیے گئے۔ قبل ازیں، مئی میں سرکاری جامعات میں مستقل وائس چانسلرز کی تعیّناتی سے متعلق کیس میں ہائیر ایجوکیشن کی طرف سے مُلک بھر کی جامعات سے متعلق ایک رپورٹ پیش کی گئی تھی۔
اس رپورٹ میں اُس وقت کے چیف جسٹس، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3رُکنی بینچ کو بتایا گیا تھا کہ مُلک میں کل 154سرکاری جامعات میں سے 66میں وائس چانسلر کے لیے اضافی چارج دیا گیا ہے یا یہ عُہدے خالی ہیں۔
اسکول نہ جانے والے ڈھائی کروڑ سے زائد بچّوں کے انرولمنٹ اور معیارِ تعلیم کی بہتری کے لیے تعلیمی ایمرجینسی کا نفاذ عمل میں آیا اور ’’فیڈرل فاوئڈیشنل لرننگ پالیسی‘‘ متعارف کروائی گئی
سال کے وسط میں وفاقی حکومت نے بیرونِ مُلک میڈیکل کی تعلیم کے حصول کے لیے این او سی کی شرط لازمی قرار دے دی۔ اس ضمن میں متعلقہ حُکّام کا کہنا تھا کہ پاکستانی طلبہ کو غیر معیاری غیر مُلکی جامعات سے دُور رکھنے کے لیے مزید اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں۔ حُکّام کے مطابق 2024ء کے سیشن کے لیے طلبہ کو ’’پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کائونسل‘‘ سے اجازت لینا ہو گی۔
واضح رہے کہ بیرونِ مُلک میڈیکل کی تعلیم کے لیے جانے والے پاکستانی طلبہ میں 30فی صد خواتین شامل ہیں اور بیرونِ مُلک سے طبّ کی تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی پاکستان میں کوئی کھپت نہیں، جب کہ سب سے زیادہ پاکستانی طلبہ میڈیکل کی تعلیم کے لیے چین جاتے ہیں اور اس کے بعد وسط ایشیائی ریاستوں، افغانستان اور مشرقی یورپ سمیت دیگر ممالک کا نمبر آتا ہے۔
گزشتہ برس مُلک کے مختلف شہروں میں اساتذہ اور طلبہ کی جانب سے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ بھی جاری رہا، جس کی وجہ سے درس و تدریس کا سلسلہ شدید متاثر ہوا۔ صوبۂ خیبر پختون خوا میں اساتذہ کی جانب سے اسکولز کی تالا بندی کے نتیجے میں پورے صُوبے میں لاکھوں بچّے تعلیم سے محروم رہے۔ اس دوران چند مقامات پر اساتذہ تنظیموں کے عُہدے داران نے زبردستی مقامی اسکولز بند کروائے۔
اس موقعے پر ہڑتالی پرائمری اساتذہ کا بنیادی مطالبہ ان کی اپ گریڈیشن تھی۔ تاہم، اس کے ساتھ ہی انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ پرائمری اسکولز میں اوسطاً ایک کلاس میں بچّوں کی تعداد کی بنیاد پر اساتذہ کی تعیّناتی یقینی بنائی جائے اور بچّوں پر کُتب کا بوجھ بھی کم کیا جائے۔ نیز، سرکاری اسکولز کی نج کاری کا فیصلہ واپس لیا جائے اور اساتذہ کو 2022ء کے ریگولرائزیشن ایکٹ کے مطابق جی پی فنڈز بھی دیے جائیں۔
دریں اثنا، اساتذہ تنظیم کے ایک وفد کی صوبائی انتظامیہ کے نمائندوں سے ملاقات ہوئی، تاہم یہ مذاکرات ناکام رہے اور اساتذہ نے احتجاج جاری رکھنے کا فیصلہ کیا۔ پنجاب میں ہزاروں اساتذہ نے سرکاری اسکولز کی نج کاری سمیت اپنے دیگر مطالبات کے حق میں احتجاجی تحریک چلائی، جس پر محکمۂ تعلیم نے ایکشن لیتے ہوئے پنجاب ٹیچرز یونین، ایجوکیٹرز ایسوسی ایشن کے صدور اور سیکریٹریز کو معطل کردیا اور پنجاب ٹیچرز یونین، پنجاب ایجوکیٹر ایسوسی ایشن کے صدور، جنرل سیکرٹریز کو شوکاز نوٹسز جاری کیے، جس پر اساتذہ نے گرینڈ ٹیچرز الائنس کا اجلاس طلب کرکے سخت ردِ عمل ظاہر کیا۔
حکومتِ پنجاب نے پرائمری سرکاری اسکولز کی نج کاری کا آغاز کیا
گزشتہ برس پنجاب کے ایک نجی کالج میں طالبہ سے مبیّنہ زیادتی کے خلاف صوبے کے مختلف شہروں میں طلبہ کی جانب سے شدید احتجاج کیا گیا۔ اس موقعے پر طلبہ نے پنجاب اسمبلی کے سامنے دھرنا بھی دیا۔ احتجاجی طلبہ نے پلے کارڈز اُٹھا رکھے تھے، جن پر ’’ہم انصاف چاہتے ہیں‘‘ کے الفاظ درج تھے۔ مظاہروں کے دوران طلبہ نے نجی کالج میں توڑ پھوڑ کی، جس پر پولیس نے لاٹھی چارج کر کے کئی طلبہ کو حراست میں لے لیا۔
دریں اثنا، بلوچستان میں بولان میڈیکل کالج کے طلبہ نے تعلیمی ادارے کی بندش، ہاسٹلز پر قبضے اور طلبہ پر تشدّد کے خلاف دھرنا دیا، جو کئی روز تک جاری رہا۔ اس موقعے پر طلبہ کا کہنا تھا کہ کالج اور ہاسٹلز کی بندش نے اُن کے مستقبل کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔ انہوں نے طلبہ پر تشدّد اور ان کی گرفتاریاں کرنے والے پولیس اہل کاروں کی گرفتاری کا بھی مطالبہ کیا۔
گزشتہ برس تعلیم کے میدان سے کچھ اچّھی اور مثبت خبریں بھی سامنے آئیں۔ 21سے 28جولائی تک ایران کے شہر، اصفہان میں منعقدہ 54ویں بین الاقوامی ’’فزکس اولمپیاڈ‘‘ میں پاکستانی ٹیم نے کانسی کے تین تمغے جیتے۔ اس ضمن میں ترجمان اٹامک انرجی کمیشن نے بتایا کہ پاکستانی ٹیم نے ’’اسٹیم کیریئر پروگرام‘‘ کی زیرِ سرپرستی اولمپیاڈ میں حصّہ لیا، جو کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن اور پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف انجینئرنگ اینڈ اپلائیڈ سائنس کا مشترکہ منصوبہ ہے۔
دریں اثنا، لاہور ہائی کورٹ نے نئے نجی اسکولز کی رجسٹریشن اسکول بسز کی پالیسی سے مشروط کر دی۔ دسمبر کے آخری ہفتے میں لاہور ہائی کورٹ کے جج، جسٹس شاہد کریم نے اسموگ کے تدارک کے لیے دائر درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس دیے کہ نئے اسکولز کی رجسٹریشن کے لیے اسکول بسز کو لازمی قرار دیا جائے اور ہر اسکول کو یہ پالیسی اپنانا ہو گی۔
دوسری جانب مُفت آن لائن تعلیم کے حوالے سے دُنیا بَھر میں شُہرت حاصل کرنے والی ’’خان اکیڈمی‘‘ نے پاکستان میں نظامِ تعلیم کی تبدیلی کے حوالے سے انقلابی قدم اُٹھاتے ہوئے یہاں اپنی اکیڈمی قائم کرنے کا اعلان کیا۔
پاکستان میں ’’خان اکیڈمی‘‘ کے قیام سے اے آئی ٹیکنالوجی سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اساتذہ اور لاکھوں پاکستانی طلبہ کو اعلیٰ معیار کی حامل جدید تعلیم میسّر ہو گی۔ علاوہ ازیں، وزیرِ اعلیٰ پنجاب، مریم نواز شریف نے پنجاب کے تمام سرکاری اسکولز میں کلاس پنجم تک کے بچّوں کو مُفت دودھ دینے کے احکامات جاری کیے۔ اس منصوبے کا آغاز جنوبی پنجاب سے کیا گیا اور پہلے مرحلے میں لیہ، بھکّر اور راجن پور کے اضلاع کے پرائمری اسکولز کے طلبہ کو دُودھ فراہم کیا گیا۔
گزشتہ برس کے آخر میں دینی مدارس سے متعلق بل پر جاری تنازعے کے حل کے لیےوفاقی کابینہ نے مدارس رجسٹریشن کے لیے سوسائٹیز رجسٹریشن ترمیمی آرڈیننس کی منظوری دی۔ وزیرِاعظم شہباز شریف کی زیرِصدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں حکومت اور جمعیت علمائے اسلام کے درمیان تنازعے کا باعث بننے والے سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ میں ترمیم کے لیے آرڈیننس کی منظوری دی گئی، جب کہ وزیراعظم آفس کے اعلامیے کے مطابق کابینہ نے وزارتِ قانون کی سفارش پر 1860 کے سوسائٹیز رجسٹریشن ایکٹ میں ترمیم کے آرڈیننس کی منظوری دی۔