• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بروقت کوئی تدبیر کرو، آفات کی نیّت ٹھیک نہیں…

2024 ء اپنے دامن میں ڈھیروں مِلی جُلی یادیں، ہنسنے، رُونے کی باتیں، متعدد قابلِ ذکر واقعات اور کئی سانحات بھی سمیٹے تاریخ کا حصّہ ہوا۔سالِ نو کے لیے یہی دُعا ہے کہ اللہ کرے، امسال اُن قدرتی آفات، وباؤں کا سامنا نہ کرنا پڑے، جو گزشتہ سال برداشت کرنی پڑیں کہ سال2024ء کا شاید ہی کوئی مہینہ ایسا گزرا ہو، جس میں اہلِ زمین نے کسی نہ کسی قدرتی آفت کا سامنا نہ کیا ہو۔ 

اِن آفات کی شدّت عموماً اِتنی زیادہ رہی کہ بڑے بڑے ممالک کی معیشت ڈگمگا گئی، جب کہ جانوں کا زیاں الگ ہوا۔ نیز، یہ تباہ کاریاں بے شمار نفسیاتی، سماجی اور معاشی پیچیدگیوں کا بھی باعث بنیں۔ حضرتِ انسان کا تک جن قدرتی آفات سے سامنا رہا ہے، اُن میں سرِفہرست سونامی (tsunami)، طوفانِ بادوباراں (hurricane)، زلزلے، طوفان (tornado)، جنگلات میں آگ( wild fires)، آتش فشانی(volcanism)، برفانی طوفان(blizzard)، ژالہ باری(hail storm)، مٹّی کے تودے گرنا(land slides)، سیلاب(flood) اور برفانی تودے (avalanch) وغیرہ ہیں اور اِن قدرتی آفات میں سے بیش تر نے بار بار کرّۂ ارض کو اپنی لپیٹ میں لیا۔2024ء میں سب سے زیادہ تباہی سیلابوں اور شدید بارشوں نے مچائی۔پھر طوفانِ بادوباراں، زلزلوں اور جنگلات کی آگ نے بھی اِس تباہی میں اپنا حصّہ ڈالا اور اِن قدرتی آفات کا سامنا ایسے علاقوں کو بھی کرنا پڑا، جہاں کبھی ان کے عمل دخل کا تذکرہ بھی خواب ہوا کرتا تھا۔

مثلاً صحارا کے ریگستان میں شدید بارشیں اور سیلاب، اپریل کے مہینے میں جدّہ، دبئی، عمّان، بحرین اور قطر وغیرہ میں شدید ترین بارشوں اور سیلاب سے تباہ کاریاں، پاکستان میں بھی اپریل ہی کے مہینے میں شدید ترین بارشیں اور سیلاب، جون میں سعودی عرب میں حج کے دَوران گرمی کی شدید ترین لہر، اکتوبر میں امریکا کے ساحلی علاقوں میں آنے والے طوفانِ بادوباراں اور سیلاب سے تباہی، تائیوان میں اثر دِکھانے والا سُپر ٹائفون کنگرے اور فرانس میں تباہی مچانے والی شدید بارشیں، نہ صرف متعدد ہلاکتوں کا باعث بنیں، بلکہ ماحول میں بھی شدید ترین بدلاؤ کا اشارہ دیتی نظر آئیں۔

ماہرین نے 2024ء کو دنیا کا اب تک کا’’ گرم ترین سال‘‘ قرار دیا۔واضح رہے، گزشتہ برس1850 ء سے1900 ء تک کے گرم ترین دَور سے بھی کئی گُنا زاید درجۂ حرارت ریکارڈ کیا گیا۔ دنیا میں سب سے زیادہ درجۂ حرارت والے علاقوں میں سعودی عرب کا جدہ، پاکستان کا تربت، عراق کا بصرہ، ایران کا اہواز اور امریکا کا فرنس کریک نمایاں رہے۔

بحیثیتِ مجموعی اگر جائزہ لیا جائے، تو پچھلے175 سالوں میں یہ کرّۂ ارض کا گرم ترین سال تھا کہ صرف جون سے اگست تک شمالی نصف کرّے میں اوسط درجۂ حرارت ایک اشاریہ پانچ دو سینٹی گریڈ زیادہ رہا۔ 

ماہرین نے 2023ء ہی میں2024 ء کے دَوران کرّۂ ارض کا درجۂ حرارت کم از کم1.5 سینٹی گریڈ تک بڑھنے کی پیش گوئی کر دی تھی۔قابلِ غور امر یہ ہے کہ درجۂ حرارت میں تیزی سے اضافہ کسی قدرتی یا نامعلوم وجوہ کا نتیجہ نہیں، بلکہ اس کا سبب ہم خود ہی ہیں،جو کسی منصوبہ بندی کے بغیر ہی مختلف معاشی و معاشرتی سرگرمیاں سرانجام دے رہے ہیں۔ 

ماہرین متفّق ہیں کہ درجۂ حرارت کے بڑھنے سے پوری دنیا میں موسمیاتی تبدیلیوں کا آغاز ہو چُکا ہے اور ان تبدیلیوں کے نتیجے میں سب سے پہلے موسموں کا انداز بدل رہا ہے۔ قطبین پر موجود برف، جو گلیشیئرز اور چادروں کی شکل میں ہے، پگھل رہی ہے، جس سے سمندر میں پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے۔

سب سے زیادہ تباہی سیلابوں، شدید بارشوں نے مچائی، طوفانِ بادوباراں، زلزلوں، جنگلات کی آگ نے بھی پورا حصّہ ڈالا

یوں تو ہمیشہ ہی سے کرّۂ ارض پر درجۂ حرارت قدرتی طور پر گھٹتا اور بڑھتا رہتا ہے، لیکن اس نے کبھی یہاں بسنے والوں کی زندگی پر منفی اثرات نہیں ڈالے کہ قدرت نے ہماری زمین کو چاروں طرف سے ہوا کے ایک قدرتی گیسی غلاف میں لپیٹا ہوا ہے، جو مختلف اقسام کی گیسز پر مشتمل ہے، اسے ہم فضا(atmosphere) کہتے ہیں۔ 

اِس فضا میں سورج سے آنے والی حرارت کا کچھ حصّہ زمین میں جذب ہو جاتا ہے اور باقی حصّہ واپس پلٹ جاتا ہے۔پھر اِس جذب شدہ حرارت کو سطحِ ارض، حرارتی توانائی کی شکل میں دوبارہ ماحول میں خارج کر دیتی ہے۔ اب فضا میں موجود کچھ مخصوص گیسز اس حرارتی توانائی کو اپنے اندر سمولیتی ہیں، جس کے باعث سطحِ ارض پر ٹمپریچر تقریباً نارمل ہو جاتا ہے اور جان داروں کا بسیرا آسان ہو جاتا ہے۔

اِس عمل کو’’گرین ہاؤس ایفیکٹ‘‘ کہا جاتا ہے اور وہ گیسز، جو حرارتی توانائی فضا میں اپنے اندر جذب کرتی ہیں،’’ گرین ہاؤس گیسز‘‘ کہلاتی ہیں۔ ان گیسز میں کاربن ڈائی آکسائیڈ، آبی بخارات، میتھین اور اوزون شامل ہیں۔ فضا میں جتنی زیادہ گرین ہاؤس گیسز شامل ہوتی ہیں، زمین اُتنی ہی زیادہ گرم ہوتی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ آج فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بہت زیادہ مقدار موجود ہے اور یہ انسان کی اپنی سرگرمیوں ہی کا نتیجہ ہے کہ آج فضا میں پچھلی آٹھ ہزار صدیوں سے زیادہ کاربن ڈائی آکسائیڈ موجود ہے۔

ماہرین کا ماننا ہے کہ آب و ہوائی تبدیلیاں(climatic changes)موسموں پر اثر انداز ہوتی ہیں اور ان کا اثر براہِ راست یا بالواسطہ انسانوں سمیت دنیا کی ہر زندہ شے پر ہوتا ہے۔ آج کل یہ تبدیلیاں ہمیں گرمی کی شدید ترین لہر، طوفانِ بادوباراں،سیلابوں، خشک سالی اور جنگلات کی آگ وغیرہ کی شکل میں نظر آرہی ہیں۔ 

دنیا کے بیش تر ساحلی علاقے مستقل سیلابوں کی زد میں ہیں اور خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ ان میں سے بہت سے علاقے اگلی صدی تک شاید سمندر بُرد ہی نہ ہو جائیں۔ جیسے جیسے ماحول کا ٹمپریچر بڑھنے سے برف پگھل رہی ہے، ویسے ویسے قطبین پر رہنے والے جانوروں کے کھانے پینے کی جگہیں، رہنے کے مقامات اور اپنی نسل بڑھانے کے مخصوص مراکز ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ 

اگر ہم گزشتہ سالوں میں آنے والی مختلف قدرتی آفات کا مطالعہ کریں، تو ان میں بڑی تعداد ایسی آفات کی ہے، جن میں درجۂ حرارت کے بڑھنے کا براہِ راست عمل دخل رہا۔ چند ایک قدرتی آفات ایسی ہیں، جن میں شاید درجۂ حرارت تو براہِ راست اثر انداز نہ ہوا ہو، مگر کوئی دوسرا موسمی عمل ضرور موجود ہوگا، یہی وجہ ہے کہ2024 ء میں شاید ہی کوئی مہینہ ایسا گزرا ہو، جس میں دنیا کے کسی حصّے میں گلوبل وارمنگ کی وجہ سے کوئی قدرتی آفت نہ آئی ہو۔ 

خاص طور پر اِس دورانیے میں سب سے زیادہ تباہی سیلاب مچاتے رہے، دوسرے نمبر پر جو قدرتی آفت برپا رہی، وہ طوفانِ بادوباراں تھے، ان کے بعد جنگلات کی آگ بھی وقتاً فوقتاً اپنے اثرات دِکھاتی رہی۔ نیز، زلزلوں اور ٹائفون سائیکلونز نے بھی تباہی مچانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

سالِ گزشتہ کے آخری ہفتوں میں پاکستان کے صوبہ پنجاب پر اسموگ کا راج رہا اور اس نے حسبِ سابق لاہور کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا، جس کے باعث یہ دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں سرِفہرست رہا۔جہاں عوام کو روز مرّہ امور کی انجام دہی میں شدید مشکلات کا سامنا رہا، وہیں حکومت بھی تنقید کی زَد میں رہی۔ اِس ضمن میں ایک تشویش ناک پہلو یہ بھی سامنے آیا کہ ملتان سمیت پنجاب کے کئی دیگر علاقے بھی شدید دُھند کی زَد میں رہے، حالاں کہ اِس سے قبل یہ علاقے عام طور پر اِس سے محفوظ رہتے آئے تھے۔ 

صوبائی حکومت نے حالات پر قابو پانے کے لیے’’ گرین لاک ڈاؤن‘‘ سمیت متعدّد اقدامات کیے اور فیصلوں کے نفاذ میں قدرے سختی سے بھی کام لیا کہ ہمارے ہاں قومی مفادات میں کیے گئے اقدامات میں بھی حکومت سے تعاون کی روایت نہیں ہے۔تعلیمی اداروں میں عام تعطیل کردی گئی، جب کہ کاروباری مراکز کے بھی رات آٹھ بجے کے بعد کھولنے کی ممانعت کا اعلان ہوا۔

موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے کانفرنسز کا سلسلہ جاری رہا

نیز، اینٹوں کے بھٹّوں اور دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں کے خلاف بھی گرینڈ آپریشن کیا گیا، جس کے دَوران ہزاروں گاڑیاں پکڑنے کے ساتھ درجنوں بھٹّے سیل کردئیے گئے، جب کہ درجنوں افراد کی گرفتاریاں بھی عمل میں آئیں۔ اسموگ معاملے کی گونج عدالتوں میں بھی سُنائی دی۔ معزّز جج صاحبان نے اِس ضمن میں بہت سے سوالات اُٹھائے اور حکومتی اقدامات کی تعریف کے ساتھ بعض امور میں مزید بہتری کی طرف بھی توجّہ دِلائی۔

ایک موقعے پر وزیرِ اعلیٰ مریم نواز نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ بھارتی پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ کو خط لکھیں گی تاکہ دونوں صوبے مل کر اسموگ کا سدّ ِباب کرسکیں۔ تاہم، اُن کی طرف سے ایسا کوئی خط تو سامنے نہ آسکا، البتہ بھارتی پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ نے اِس پر ردِ عمل ضرور دیا۔ اُن کا کہنا تھا کہ’’ کیا ہمارے ہی صوبے کی ہوائیں ہر طرف چلی جاتی ہیں۔‘‘ دراصل، مریم نواز نے اُس صُورتِ حال کی طرف اشارہ کیا تھا، جس کی وجہ سے بھارتی پنجاب کے کاشت کاروں کی جانب سے فصلوں کی باقیات جلانے سے دھواں پاکستانی پنجاب کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے اور یہ بھی اسموگ کی ایک وجہ ہے۔ 

بہرکیف، حکومتی بھاگ دوڑ، فوری فیصلوں اور سخت اقدامات سے صُورتِ حال میں قدرے بہتری نظر آئی، البتہ ماہرین کا کہنا تھا کہ اسموگ سے نمٹنے کے لیے طویل المدّتی منصوبوں کی ضرورت ہے۔صوبائی حکومت کی جانب سے بھی کہا گیا کہ اسموگ سے مستقل طور پر چھٹکارے کے لیے دیرپا منصوبوں پر کام ہو رہا ہے، حکومت اِس سلسلے میں کیا کچھ کرتی ہے، اِس کا اندازہ اگلے برس ہی ہوسکے گا۔ یاد رہے کہ فضائی آلودگی میں کراچی بھی پیچھے نہیں رہا اور دسمبر کے شروع میں یہ لاہور کو ہرا کر پہلے نمبر پر آگیا۔ماہرین نے کراچی کی فضا انسانی صحت کے لیے انتہائی خطرناک قرار دی۔ 

اُن کا کہنا تھا کہ جگہ جگہ پڑے کچرے کے ڈھیر اور بے ہنگم ٹریفک شہریوں کے لیے کسی آفت سے کم نہیں، البتہ یہ آفت قدرتی نہیں، عوام اور حکومت کی لاپروائی کی دَین ہے، جس سے دونوں مل کر بآسانی نمٹ بھی سکتے ہیں۔ اُدھر دسمبر کے ابتدائی ایّام میں بلوچستان کے کئی علاقوں نے برف کی چادر اوڑھ لی، اِس ضمن میں اہم بات یہ رہی کہ ضلع دکی میں ہونے والی ژالہ باری نے بیالیس سالہ ریکارڈ توڑ ڈالا، جو موسمیاتی تبدیلیوں کے نتیجے میں خطّے پر مرتّب ہونے والے اثرات کی ایک واضح علامت ہے۔

اگرچہ حضرتِ انسان کرّۂ ارض پر تباہ کُن قدرتی آفات کو خود ہی دعوت دے چُکا ہے، مگر مقامِ شُکر ہے کہ اب اسے کسی حد تک اپنی اِس غلطی کا احساس بھی ہو چلا ہے، یہی وجہ ہے کہ اب ساری دنیا کے ممالک اِس غلطی کے جلد از جلد تدارک کے لیے کوشاں ہیں۔2024 ء میں دنیا بَھر میں اِس حوالے سے بے شمار کانفرنسز، ورکشاپس اور سیمنارز وغیرہ ہوئے۔ 

سال کے شروع میں برطانیہ میں 15سے17جنوری تک ماہرین، گلوبل وارمنگ اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی کانفرنس میں اکھٹے ہوئے، پھر 22 سے24فروری کو نیویارک، امریکا میں موسمیاتی تبدیلی اور توانائی کے مستقبل پر منعقدہ سیمینار میں ماہرین نے اپنے خیالات کا اظہار کیا، بعدازاں، 6 سے 8مارچ کے دَوران بھی ماہرین لندن میں ورلڈ کلائیمیٹ کانفرنس میں سر جوڑ کر بیٹھے، اِسی طرح کی ایک ورکشاپ’’ گلوبل وارمنگ اور سمندری زندگی‘‘ 10سے 12مارچ تک ٹوکیو، جاپان میں منعقد کی گئی۔ 10تا 12اپریل، نیویارک میں ماحولیاتی تبدیلیوں اور ترقّی کے حوالے سے مشاورت ہوئی۔ 17تا19اپریل بیجنگ، چین میں ماحولیاتی تبدیلی اور زراعت پر بات ہوئی، پھر 15تا17مئی ٹوکیو، جاپان میں ماہرین’’ موسمیاتی تبدیلی اور صحت‘‘ کے عنوان سے اکٹھے ہوئے۔ 24سے26مئی تک سڈنی، آسٹریلیا میں گلوبل وارمنگ اور شہری منصوبہ بندی پر سیمینار کا انعقاد کیا گیا۔ 

اسموگ پنجاب کے عوام، حکومت کے لیے دردِ سر بنی رہی ، تو ایک مرحلے پر کراچی فضائی آلودگی میں لاہور سے آگے نکل گیا

مختصراً یہ کہ جہاں ایک طرف کرّۂ ارض پر قدرتی آفات تباہیاں مچا رہی تھیں، وہیں دوسری طرف، دنیا بَھر میں ماہرین ان کے تدارک اور روک تھام کے لیے بھی کوشاں رہے اور صرف ترقّی یافتہ ممالک ہی نہیں، ترقّی پزیر ممالک بھی اِس دوڑ میں پیچھے نہ رہے۔ کیپ ٹاؤن، جنوبی افریقا ہو یا ریوڈی جنیرو، برازیل، دبئی متحدہ عرب امارات ہو یا سنگا پور، میڈرڈ، ہسپانیہ ہو یا خود ہمارا مُلک پاکستان، سب ہی اس اجتماعی مسئلے کے حل کے لیے پورا سال مصروفِ کار رہے۔

بہرحال، قدرتی آفات آتی جاتی رہیں گی اور انھیں روکنا ناممکن ہی ہے، لیکن اگر ساری دنیا اپنے اپنے طور پر ان سے نمٹنے کے اقدامات بھی کرتی رہے گی، کانفرنسز، سیمینارز اور ورک شاپس منعقد ہوتی رہیں گی، تو بہتری کی کوئی نہ کوئی صورت پیدا ہوگی۔ 

جب کہ ہمیں بھی ایک ذمّے داری شہری کے طور پر اب یہ سمجھ جانا چاہیے کہ اِس خوف ناک اور خطرناک اجتماعی مسئلے، یعنی قدرتی آفات سے بھرپور بچاؤ کے لیے ہر ایک کو اپنا اپنا کردار ادا کرنا ہوگا اور اِس ضمن میں سب سے پہلے تو قدرتی آفات کی وجوہ، نقصانات اور بچاؤ کے حوالے سے ایک بھرپور اور منظّم آگاہی مہم کی ضرورت ہے، جس میں الیکٹرانک، پرنٹ اور سوشل میڈیا کو بھرپور طریقے سے کام میں لایا جا سکتا ہے۔

نیز، اِس آگاہی مہم کو نصابی کتب کا بھی حصّہ بنانا ہوگا تاکہ آنے والی نسلیں اِس خطرے سے آگاہ ہوسکیں۔ علاوہ ازیں، موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے بچاؤ کے ضمن میں متعارف کروائے گئے مقامی اور بین الاقوامی قوانین پر پورے خلوص اور سختی سے عمل درآمد کروایا جائے۔ 

حکومت اور مقامی انتظامیہ کو باقاعدہ منصوبہ بندی کرنی چاہیے اور پیش بندی کے طور پر ان آفات کے نقصانات کے اثرات کم کرنے کے لیے وقتاً فوقتاً مشقیں بھی کرتے رہنا چاہیے۔ پھر یہ کہ ایک الرٹ سسٹم بھی ہونا چاہیے، جس کے ذریعے عوام بروقت خطرے سے آگاہ ہوسکیں۔

پھر تعمیرات،خصوصاً حکومتی تعمیرات، ایسی معیاری ہوں کہ وہ قدرتی آفات کا بھرپور مقابلہ کرسکیں۔ آبادیاں، دریائی کناروں اور سمندری ساحلوں سے ذرا دُور محفوظ فاصلوں پر بسائی جائیں، جب کہ فاسل فیولز کی بجائے ماحول صاف اور درجۂ حرارت کم رکھنے کے لیے متبادل ذرائع کام میں لانے کی کوشش کی جائے۔ اس کے علاوہ شجرکاری پر زیادہ سے زیادہ توجّہ ہونی چاہیے، کیوں کہ اگر آنے والے سالوں میں دنیا کے کرتا دھرتا قدرتی آفات سے بچاؤ اور تحفّظ کے لیے سنجیدہ اقدامات نہ اُٹھاسکے، تو خدانخواستہ یہ کرّۂ ارض کو تیزی سے تباہی کی جانب دھکیل دیں گی۔ (مضمون نگار، وفاقی اردو یونی ورسٹی، کراچی کے شعبہ جیالوجی کی سابق سربراہ ہیں)