• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

غیرت کے نام پر قتل فساد فی الارض قرار دیا جائے گا، سزا 25 سال مقرر کرنے کی تجویز، ورثاء معاف نہیں کرسکیں گے

اسلام آباد (انصار عباسی) غیرت کے نام پر قتل سے نمٹنے کے لیے نئے مجوزہ قانون میں اس جرم کو فساد فی الارض قرار دیا گیا ہے جس پر 25 سال قید کی سزا ہوگی۔ دیگر سزاؤں کے برعکس اس مجوزہ قانون کے تحت دی جانے والی 25 سال قید کی سزا میں تخفیف نہیں کی جاسکے گی جس کا سالانہ بنیادوں پر یا عید کے موقع پر اعلان کیا جاتا ہے۔ سرکاری ذرائع کا کہنا ہے کہ مجوزہ قانون آئین اور اسلامی تعلیمات کو مد نظر رکھتے ہوئے بنایا جارہا ہے۔ اسلامی قانون کے تحت قتل کے مقدمے میں مقتول کے قانونی ورثاء دیت کی ادائیگی یا کسی اور سمجھوتے کے تحت قاتل کو معاف کرسکتے ہیں۔ لیکن اگر قتل فساد فی الارض کے زمرے میں آئے تو ورثا کو قاتل کو معاف کرنے کا اختیار حاصل نہیں ہوگا۔ غیرت کے نام پر قتل کے سلسلے میں مجموعہ تعزیرات پاکستان میں ترمیم کرکے اسے فساد فی الارض قرار دیا جائے گا، جس کے نتیجے میں عدالت کو ولی اور قاتل کے درمیان سمجھوتے کو منظور یا مسترد کرنے کا اختیار حاصل ہوجائے گا۔ زیادہ تر کیسز میں قاتل مقتول کا قریبی رشتے دار ہی ہوتا ہے۔ غیرت کے نام پر قتل کے زیادہ تر کیسز میں قاتل اہل خانہ کی رضامندی سے یہ جرم کرتا ہے۔ مثلا بھائی یا کسی اور قریبی رشتے دار کے ہاتھوں ہلاک ہونے والی بیٹی کا والد یا والدہ مقدمے میں مدعی ہوتے ہیں۔ ان مقدمات میں مدعی (والد یا والدہ) عموما قاتل (بیٹا یا قریبی رشتے دار) کو معاف کردیتے ہیں اور عدالت کے پاس اسے رہا کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں رہتا۔ مجوزہ ترمیم کے نتیجے میں ان قتل کے مقدمات میں عدالت کو راضی نامہ منظور کرنے یا مسترد کرنے کا حتمی اختیار ہوگا۔ حکومت نے غیرت کے نام پر قتل یا جنسی زیادتی کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے اس سے پہلے بھی کئی قوانین میں مجوزہ ترامیم تیار کی تھیں، لیکن سیاسی جماعتوں میں اتفاق رائے نہ ہونے کی وجہ سے انہیں عملی جامہ نہیں پہنایا جاسکا۔ مگر اب مختلف سیاسی جماعتوں کی مشاورت سے مجوزہ ترامیم کی جارہی ہیں۔ جہاں تک جنسی زیادتی کا تعلق ہے تو حکومت مختلف قوانین میں 7 ترامیم لانا چاہتی ہے تاکہ زیادتی کا شکار ہونے والوں کو بلاتاخیر اور بلااستحصال انصاف کی فراہم یقینی بنائی جاسکے ۔ مجوزہ ترامیم میں زیادتی کا شکار ہونے والی لڑکی کا 24 گھنٹے کے اندر اندر ڈاکٹر سے طبی معائنہ کرایا جائے گا تاکہ دباؤ یا کسی اور وجہ سے ہونے والی تاخیر سے بچا جاسکے۔ مگر طبی معائنے کےلیے متاثرہ خاتون کی رضامندی لازمی ہوگی۔ جب کہ ملزم کے طبی معائنہ کے لیے معقول طاقت کا استعمال کیا جاسکے گا۔ تعزیرات پاکستان میں ایک اور ترمیم ان ڈاکٹروں، پولیس تفتیشی افسر اور وکیل استغاثہ کےلیے تجویز کی گئی ہے جو دانستہ طور پر طبی، تفتیشی رپورٹ یا عدالت میں کیس کو خراب کریں۔ ایک اور ترمیم بھی زیر غور ہے کہ عدالت جنسی زیادتی کے مقدمے کا فیصلہ 6 ماہ میں یقینی بنائے۔ یہ بھی تجویز ہے کہ متاثرہ لڑکی کا نام اس کی یا عدالت کی مرضی کے بغیر سامنے نہ لایا جائے۔ تعزیرات پاکستان میں ایک اور ترمیم یہ بھی تجویز کی گئی ہے کہ اگر متاثرہ خاتون کی رضامندی شامل ہو تو جنسی زیادتی کے مقدمات کی ان کیمرا سماعت کی جائے۔
تازہ ترین