• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلڈوزر دنیا بھر میں تعمیرات کے شعبے کا لازمی جزو سمجھے جاتے ہیں۔ اگرچہ ان سے عمارتیں گرانے کا کام لیا جاتا ہے لیکن یہ تخریب ازسرنو تعمیر کی غرض سے کی جاتی ہے۔ حکومتیں بلڈوزر سے غیر قانونی طور پر بنائے گئے گھروں کو گرانے کا کام بھی لیتی ہیں۔ مگر ہمارے ہمسایہ ملک بھارت میں بلڈوزر دہشت اور ریاستی جبر کی علامت بن چکا ہے۔ 2014ء میں مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد بلڈوزر انصاف کا سلسلہ شروع ہوا۔ بلڈوزر سے نہ صرف سیاسی مخالفین کا ناطقہ بند کیا گیا بلکہ اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو اجتماعی سزائیں دینے کا بھی آغاز ہو گیا۔ کبھی کسی گلی محلے میں کوئی ہندو انتہا پسند الزام لگاتا ہے کہ فلاں مسلمان کے گھر گائے ذبح کی گئی ہے اور دھرم کے ٹھیکیدا ر بلڈوزر لیکر وہاں پہنچ جاتے ہیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے پوری بستی یا محلے کو نیست ونابود کر دیا جاتا ہے۔ 37سال بعد 2017ء میں بھارتیہ جنتا پارٹی ریاست اتر پردیش میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئی تو یوگی آدتیہ ناتھ وزیر اعلیٰ بن گئے۔ یوگی جی اس سے پہلے لوجہاد اور گائو رکھشا جیسے معاملات کے پرچارک تھے مگر وزیر اعلیٰ بننے کے بعد انہوں نے بلڈوزر انصاف کی سرپرستی شروع کر دی۔ ریاستی مشینری کے بل بوتے پر ہجوم کے ذریعے بلڈوزر انصاف کا جو سلسلہ یوپی سے شروع ہوا تھا وہ دیکھتے ہی دیکھتے دیگر ریاستوں تک پھیلتا چلا گیا۔ آسام، گجرات، ہریانہ، مدھیہ پردیش اور راجستھان سمیت کئی بھارتی ریاستوں میں بلڈوزر کا راج ہے۔ جون 2024ء میں ریاست اترپردیش کے ضلع مانڈلا میںمحض اس لیے مسلمانوں کے11گھر بلڈوزر کے ذریعے گرا دیئے گئے کہ کسی کے ریفریجریٹر سے گوشت برآمد ہوا تھا۔ بھارتی دارالحکومت دہلی کے نواح میں مسلم اکثریتی ضلع نوح پسماندہ ترین علاقوں میں سے ایک ہے۔ 2023ء میں یہاں سے ایک ہندو تنظیم کی یاترا کا جلوس گزرا تو فسادات پھوٹ پڑے۔ دکانوں، گاڑیوں اور مساجد کو نذر آتش کردیا گیا اور پھر کچھ دن بعد اجتماعی سزا دینے کا عمل شروع ہو گیا، بی جے پی کے زیر انتظام بلڈوزر اُتر آئے۔ چار دن تک مسلمانوں کے گھروں اور دفاتر کو غیر قانونی قرار دیتے ہوئے گرانے کا سلسلہ جاری رہا۔ اتر پردیش میں جاوید محمد کے دو منزلہ گھر کو اس لیے مسمار کردیا گیا کہ اس نے انتخابات کے دوران بے جے پی کی رہنما نوپور شرما کے خلاف مہم چلائی تھی۔ اسی طرح اگست 2024ء میں حاجی رضا نامی شخص کے چار منزلہ شاپنگ کمپلیکس کو منہدم کر دیا گیا کیونکہ لوک سبھا انتخابات کے دوران اس نے مودی جی کے خلاف تقریریں کی تھیں۔اس ریاستی جبر کے حوالے سے ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی ایک تفصیلی رپورٹ جاری کرچکی ہے جس میں617 مسلمانوں کے 128گھر گرائے جانے پر تشویش کا اظہار کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ یہ سب کچھ ریاستی سرپرستی میں ہو رہا ہے۔ گزشتہ چند برس کے دوران بلڈوزر بی جے پی کا انتخابی نشان بن چکا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے نوجوانوں میں بلڈوزر اس قدر مقبول ہے کہ بازو پر بلڈوزر کے ٹیٹو بنوائے جاتے ہیں۔ گھروں، دکانوں اور گاڑیوں پر بلڈوز کی تصاویر آویزاں کی جاتی ہیں۔ بلڈوزر ا نصاف کے سرپرست وزیر اعلیٰ اتر پردیش یوگی آدتیہ ناتھ کو ’’بلڈوزر بابا‘‘ کہہ کر مخاطب کیا جاتا ہے۔ جب بی جے پی کے جلسے ہوتے ہیں تو بلڈوزر کے ذریعے رہنمائوں کا استقبال کیا جاتا ہے۔ خود پردھان منتری مودی جی اس ریاستی تشدد اور جبر کی کھلے عام حمایت کرتے ہیں۔ 22اپریل 2024ء کو اتر پردیش میں ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بلڈوزر بابا پر فخر کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ انہیں ایسے ساتھیوں پر ’گرو‘ ہے۔ یہ بھی کہا کہ یوگی آدتیہ ناتھ میرے وزیراعلیٰ ہیں۔ایسا نہیں کہ بھارت میں کسی نے بلڈوزر انصاف کے خلاف آواز نہیں اُٹھائی۔ جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق پر یقین رکھنے والے افراد اس ریاستی جبر کے خلاف احتجاج کرتے رہے ہیں مگر اس مزاحمت کے باوجود یہ سلسلہ کم ہونے کے بجائے بتدریج بڑھتا ہی چلا گیا کیونکہ بلڈوزر چلانے والوں کو حکمران جماعت کی تائید و حمایت اور آشیر باد حاصل ہے۔ اس ناانصافی کے خلاف ملک کی سب سے بڑی عدالت سے رجوع کیا گیا۔ انسانی حقوق کی تنظیم ایسوسی ایشن آف پروٹیکشن فار سول رائٹس (اے پی سی آر) نے اس حوالے سے مدھیہ پردیش کے شہر جاورا کے رہائشی محمد حسنین اور راجستھان کے علاقے شہزادے پور کے مکین راشد خان کی طرف سے سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کی۔ جمعیت علمائے ہند نے بھی اس حوالے سے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی۔ جسٹس بی آر گوئی اور جسٹس کے وی وشوناتھن پر مشتمل بنچ نے ان درخواستوں پر طویل سماعت کے بعد ایک تاریخی فیصلہ دیا۔ 13نومبر 2024ء کو دیئے گئے بھارتی سپریم کورٹ کے فیصلے میں بلڈوزر انصاف پر یہ کہہ کر پابندی عائد کردی گئی کہ سر پر چھت دستور کی دفعہ 21کے تحت بنیادی حق ہے اور کسی کے گھر یا دوکان کو محض اس لیے منہدم نہیں کیا جا سکتا کہ وہ شخص ملزم یا مجرم ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ انتظامیہ عدلیہ کی جگہ نہیں لے سکتی۔ سرکاری اہلکاروں کے پاس یہ اختیار نہیں کہ وہ کسی کے قصور وار ہونے کا فیصلہ کریں اور اس کا گھر مسمار کر دیں۔ ایسا کرنا اپنی حدود سے تجاوز اور غیر قانونی ہے۔ فیصلے میں کہا گیا کہ کسی کے گھر کو گرانے سے 15دن پہلے نوٹس دیا جائے البتہ جس جگہ پر غیر قانونی طور پر قبضہ کیا گیا ہو ،وہاں اس فیصلے کا اطلاق نہیں ہوگا۔

بھارتی سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے باوجود بلڈوزر انصاف کا سلسلہ تھم جانے کی توقع نہیں کیونکہ جب ریاست ہی بنیادی انسانی حقوق کو بلڈوزر کے نیچے کچل دینے پر بضد ہو تو قانونی جواز تلاش کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہوتا۔ بلڈوزر ماڈل کے ذریعے بھارتیہ جنتا پارٹی ہندوئوں میں بیحد مقبول ہے اور مسلمانوں کو سیاست چمکانے کیلئے بطور ایندھن استعمال کیا جا رہا ہے۔ اب یہ کام محض یوگی آدتیہ ناتھ تک محدود نہیں رہا بلکہ مقبولیت حاصل کرنے کیلئے بی جے پی کے کئی رہنما اس رنگ میں رنگے جا چکے ہیں مثال کے طور پر اتر پردیش کے شیو راج سنگھ چوہان آج کل ’’بلڈوزر انکل‘‘ کہلاتے ہیں۔ اسلئے بظاہر یوں لگتا ہے کہ عدالتی فیصلے کے باوجود مودی سرکار میں بلڈوزر ’’انصاف‘‘ کا سلسلہ جاری رہے گا۔

تازہ ترین