• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ )

میں بہت خوش قسمت ہوں۔ مجید نظامی صاحب مجھے جتنی محبت اور عزت دیتے تھے، مجھے یہ دونوں نعمتیں میر شکیل الرحمان سے بھی ملیں ان سے جتنی بھی ملاقاتیں ہوئیں ہر بار یہ احساس قوی سے قوی تر ہوتا گیا۔ ابتدائی دنوں میں لاہور آفس میں جو ملاقاتیں ہوئیں یہ الوداع کہنے کیلئے میرے ساتھ تین منازل اتر کر میری کار تک آئے اور میری روانگی تک کھڑے رہے۔ اسی طرح دوبئی میں ملاقاتوں کے درمیان میرے ہوٹل کار بھجواتے اور مجھے دوپہر کے کھانے میں شریک کرتے اور ایک دفعہ دوبئی میں میری موجودگی کی اطلاع سن کر میرے ہوٹل چلے آئے میں ان کی دی ہوئی عزت اور میرے حوالے سے ان کا CONCFRNکبھی فراموش نہیں کر سکتا ان کی کچھ اور باتیں جو آج کے دور میں عجیب سی لگتی ہیں مثلاً جب میں نے جنگ جائن کرنیکا فیصلہ کر لیا تو میرے اقبال ٹائون میں واقع دس مرلے کے مکان میں بیٹھے ہوئے انہوں نے مجھ سے پوچھا کیا یہ مکان آپ کی ضرورت کیلئے چھوٹا نہیں، میں نے عرض کی کہ پہلے تو ٹھیک تھا مگر اب بیٹے بڑے ہو گئے ہیں اور یہ چھوٹا محسوس ہونے لگا ہے مجھ سے پوچھا آپ کے پاس کوئی پلاٹ ہے میں نے کہا جی ہاں اسکے بعد وہ چلے گئے اور ایک دن ان کی طرف سے مجھے بیس لاکھ کا چیک موصول ہوا مقصد یہ تھا کہ میں مکان کی تعمیر تو شروع کروں واضح رہے یہ پچیس سال پہلے کی بات ہے گھر کی بنیادیں میں نے کھڑی کی ہوئی تھیں اسکے بعد میں کئی ماہ اس کی تعمیر میں لگا رہا اور 27مرلے کا یہ گھر صرف 39لاکھ میں مکمل کر لیا میں نے لکڑی کا سارا فرنیچر بھی گھر ہی میں تیار کروایا آپ یقین کریں 39لاکھ میں یہ سارا خرچہ بھی شامل ہے دیار کی لکڑی مناسب دام پر خریدنے کیلئے میں ایک ترکھان کو میر پور لے کر گیا اس نے تین ڈھیریوں میں سے اے کلاس بی کلاس اور سی کلاس الگ الگ کیں اور ان سے اپنی ضروریات پوری کیں۔ میں نے اس گھر کی تعمیر کیلئے بہت محنت کی لیکن یہ اسی صورت میں ہوا کہ اس 39لاکھ میں میر صاحب کے 20لاکھ شامل تھے۔ یہ بات یہیں ختم نہیں ہو جاتی بلکہ جب رقم کی واپسی کیلئے میر صاحب کو ٹچ کرتا کہ رقم کس کے نام ارسال کروں تو وہ جواب نہیں دیتے تھے فنانس والے بھی خاموشی اختیار کرتے بہرحال میں ان کا قرض جو انہوں نے قرض سمجھ کر نہیں دیا تھا چکانے میں کامیاب ہو گیا۔ میر صاحب میرے دونوں بیٹوں کی شادی میں شریک ہوئے اور بہت بھاری سلامیاں دیں ایک دن میرا بیٹا یاسر پیرزادہ مجھے کہنے لگا ابو میں بھی کالم لکھنا چاہتا ہوں آپ میر صاحب سے میری سفارش کر دیں میں نے کہا مجھے لکھ کر دکھائو اگر معیاری ہوا تو سفارش کروں گا اس نے لکھا اور مجھے پسند آیا سو دوبئی میں ملاقات کے دوران میں نے وہ کالم ان کے سامنے رکھا یہ نہیں بتایا کہ یہ میرے بیٹے کی تحریر ہے۔ انہوں نے کالم پڑھا اور کہا بہت اچھا ہے کس کا ہے میں نے کہا جی میرے بڑے بیٹے کا ہے اور وہ جنگ میں لکھنا چاہتا ہے اور اس روز سے یہ کالم چھپ رہا ہے اور بہت مقبول ہے۔

میر شکیل سے میری دوطرفہ محبت کا دورانیہ بہت طویل ہو چکا ہے اس دوران ان کی محبت کی ایک ادا تو میں کبھی بھول ہی نہیں سکتا جنگ جائن کرنے کے اوائل میں پروفیسر ایم اے ملک کی پیش گوئی کے عین مطابق جب میں اٹھاون 58برس کا ہوا تو مجھے کینسر ہو گیا میرصاحب کو پتہ چلا تو انہوں نے فون پر بتایا کہ انہوں نے میرے لئے لندن میں ایک بڑے نفرالوجسٹ سے رابطہ کر لیا ہے میں نے ان کا تہہ دل سے شکریہ ادا کیا کہ جانتا تھا زندگی اور موت اللہ کے ہاتھ میں ہے چنانچہ میرا آپریشن لاہور میں ہوا کینسر دائیں جانب کے گردے کے قریب تھا ڈاکٹروں نے رسک نہیں لیا اور وہ گردہ نکال دیا (بری صحبت میں رہنے کی سزا) چنانچہ اب میں نصف صدی سے ایک گردے سے سارے کام لے رہا ہوں ۔میں نے گزشتہ رودادمیں لکھا تھا کہ میں نے نوائے وقت زیادہ تنخواہ کی وجہ سے نہیں چھوڑا تھا اور یہ اصول جنگ کیلئے بھی ہے، آگے چل کر اس کا ثبوت میں نے دیا۔ مجھے ایک دن صف اول کے ایک کالم نگار کا فون آیا کہ آج ہم چند دوست شام کو آپ کی طرف چائے پینے آ رہے ہیں ان دنوں ایک نئے اخبار میں میرے بیشتر دوست جوق در جوق شمولیت اختیار کر رہے تھے اس دور کو صحافت کی سونامی کہا جاتا ہے۔ مجھے دوستوں کی ’’وچلی گل‘‘ سمجھ آ گئی میں نے کہا اگر تو چائے پینی ہے تو سر آنکھوں پر اور اگر نئے اخبار میں شمولیت کی دعوت دینا ہے تو میری طرف سے معذرت قبول فرمائیں۔ بولے ہم صرف آپ کو ملنے کیلئے آ رہے ہیں آپ کی رضا مندی پر اخبار کے مالک خود آپ کے پاس آکر درخواست کریں گے، میں نے کہا جس گائوں نہیں جانا اس کا راستہ کیا پوچھنا، وہ جو تنخواہ اور مراعات بتا رہے تھے اس سے دس گنا زیادہ محبت اور احترام مجھے یہاں مل رہا تھا۔اسی طرح میرے ایک بے حد محترم دوست، جو اخبار چینل اور کئی دوسرے کاروبار بہت اچھے طریقے سے چلا رہے ہیں اور اپنے اسٹاف کے ساتھ ان کا رویہ مثالی ہے، کے ایک بہت قابل اعتماد ورکر جو میرے قریبی دوست بھی تھے میرے پاس تشریف لائے ان کے ہاتھ میں ایک سفید کاغذ تھا اور اس پر ....اخبار کے مالک کے دستخط تھے وہ کاغذ انہوں نے میرے سامنے رکھ دیا اور کہا آپ نے ہمارے اخبار میں کالم لکھنا ہے اس سفید کاغذ پر تنخواہ اور دیگر مراعات خود لکھ دیں، پیشگی منظوری کیلئے نیچے ادارے کےسربراہ کے دستخط بھی موجود ہیں۔ میں نے ان کا بہت شکریہ ادا کیا اور وہی جواب دیا کہ زیادہ تنخواہ کیلئے میں اپنی جگہ تبدیل نہیں کیا کرتا!

ایک بات بہت سوچنے کے بعد لکھ رہا ہوں کہ میری ذات کا ایک پہلو یہ بھی ہے اور اسے بھی نہیں چھپانا چاہئے ۔ پی ٹی وی کی چیئرمین شپ کے دوران مجھے احساس ہوا کہ مجھے پی ٹی وی سے معقول تنخواہ مل رہی ہے اوپر سے جنگ والے بھی ہر ماہ باقاعدگی سے مجھے میری تنخواہ ارسال کرتے ہیں مجھے لگا کے بیک وقت دو اداروں سے تنخواہ لینا شاید حرام کے زمرے میں آتا ہے چنانچہ میں نے ادارے کو وہ سوا کروڑ واپس کر دیئے جو انہوں نے اس دوران میری تنخواہ کی مد میں ادا کئے تھے میں کئی بار اس کوشش میں رہا کہ وہ قبول کر لیں مگر ان کی طرف سے ہر بار شکریہ اور معذرت کا جواب ہی آتا رہا مگر جب میں اپنی ہٹ دھرمی سے باز نہ آیا تو انہوں نے ہتھیار ڈال دیئے اور یوں میرے ذہن کا بوجھ اتر گیا ادارے کی طرف سے مجھےتحسین کا خط بھی موصول ہوا اور میرا دل اور ضمیر مطمئن ہو گیا! (جاری ہے)

تازہ ترین