قارئین کرام! آپ جانتے ہیں، پاکستان کو اس کے قیام کے مطابق راہ پر لانے کا ’’آئین نو‘‘ کا عشروں کا بیانیہ آئین کا مکمل اور سب شہریوں پر قانون کا یکساں اطلاق و نفاذ ہے۔ یہ تو اب کالم کامستقل عنوان و پیغام اور تکرار مسلسل کے ساتھ ناقابل لچک و ترمیم بیانیہ ہے، جس کی تکرار بفضل خدا تادم سکت و حیات جاری رہے گی۔ پاکستان کے تمام مسائل کےسکہ بند حل کے طور ’’آئین نو‘‘ میں اس تکرار کی اشاعتی فری کوئنسی درجنوں میں نہیں سینکڑوں کی تعداد میں موجود ہے۔ محترم قارئین آپ اور ’’آئین نو‘‘ کا آرکائیو مکمل ثبوت کے ساتھ اس امر کا بھی شاہد کہ اس کالم نویس کے ایسی ڈوپلڈ پریٹیو کی چھتری تلے ملکی صورتحال کے مطابق حالات حاضرہ کے جاری موضوعات اور ان کے فالو اپ کے طور پر کسی نہ کسی بیانیے کی تکرار، کمیونیکیشن سائنس کی تھیوری آف پرسویشن (تکرار) کے اطلاق کے طور کی جاتی ہے، اس ضرورت کو پورا کرنے کیلئے آئین نو میں کسی مخصوص سیاسی جماعت، قائد یا دور حکومت پر ہی فوکس سے ممکنہ اجتناب کرتے طرز حکومت، جماعتی و سیاسی سوچ اپروچ، حکومتی پالیسیوں ، اقدامات اور سیاسی بیانیوں کے تجزیہ و تنقید پر ہی (ایٹ لارج) اکتفا کیا گیا اور کیا جاتا رہے گا۔ تین سال سے جاری اور شدت سے مسلسل اختیار کرتی ’’آئین نو‘‘ کے ایک اور عشروں کے بیانیے، اسٹیٹس کو (نظام بد)کی انتہائی شکل ملک میں جو کثیر الجہت خصوصاً سیاسی و آئینی (لیڈنگ ٹو) معاشی و انتظامی اور سب سے بڑھ کر تہذیبی و اخلاقی بحران پیدا ہوا اس میں حالات و واقعات کاتجزیہ کرتے، بڑے بڑے ذمے داران اور سیاسی جماعتوں کے قائدین کی بڑی بڑی غلطیوں، کوتاہیوں اور سیاسی و حکومتی طرز عمل کے اعتراف کو اپنی پوزیشن کو سنبھالنے اور حل کی راہیں نکالنے کیلئے ’’اعتراف کی حقیقت‘‘ کا بیانیہ شعوری طور پر تراش کے شدت سے تو نہیں لیکن وقتاً فوقتاً اختیار کیا گیا جس سے جسے اب ’’ازالے‘‘ کے اضافے کی تکرار کے ساتھ شروع کردیا ہے تو آج حالات حاضرہ کے خبری موضوعات میں مطلوب سب سے بڑھ کر چوٹی کی ملاقات کی پیش رفت، برف پگھلنے، بات چیت، مذاکرات، بیک چینل، کھلے عام ٹیبل ٹاک کے مطالبے محفوظ فیصلے محفوظ ہی رہنے کی خبروں میں فری کوئنسی بڑھتی جارہی ہے۔ اسی کے متوازی بحران کے حل بہت سی غیر جمہوری حل و تجاویز حتیٰ کہ عملی اقدامات بھی لاحاصل اور مہلک جگاڑ لگانے کا گراف بڑھنے لگا تھا کہ ایک دم شدت سے مطلوب ’’کفر ٹوٹنے‘‘ کی خبروں کو جگہ ملی، اگرچہ کہ شر و شرارت کے بیانیے سے اسے ڈفیوز کرنے کی آخری تگ و دو بھی بدستور جاری ہے لیکن گمان غالب یہ بھی ہے کہ ملک میں سیاسی عزم و عمل اور فیصلہ سازی کے وقتی مرکز و محور کی بلندئوں پر اعتراف حقیقت و ازالے کے طاقت کی گنجائش بن گئی ہے۔ جس سے قوت اخوت عوام کو بالآخر مان لیا جائے گا۔ کوئی بڑی ٹپ سے حاصل مخصوص اطلاع ہے نہ کوئی اندر کی ڈیپ نیوز جو کوئی چڑیا چڑا یا عقاب و شاہین دے گیا ہو، کھلے کھلے تاحد نگاہ باہر کے افق سے ہی جو خوش کن خبر اسکین کی اور اس کے ہی محدود صحافتی فالو اپ کا جو تجزیہ خاکسار نے تادم صبح بخیر کیا ہے اس کے مطابق پاکستان کا جاری اور شدت اختیار کرتا ملکی بحران، ایک بڑھے جھٹکے سے تھمتا معلوم دیا ہے۔ ڈاٹ سے جو ڈاٹ ملائے ہیں، صحافتی نتیجہ یہ ہی اخذ ہو رہا ہے جہاں غلطیوں کا اعتراف ہونا چاہیے تھا وہاں ہوگیا، اسی سے پیدا تازہ طاقت سے سب سے خوش کن یہ لگ رہا ہے کہ یہ یک نہیں دو طرفہ ہے۔ جس سے مائنس ون اور کسی اہم ترین کو سہ سالہ جمود میں رکھنے کا ملک و عوام دشمن حل، جگاڑ یا گمراہ بیانیہ، مان لیا گیا کہ یہ ’’بڑا کفر‘‘ ہے جوٹوٹ گیا، دوسری جانب بھی کئے گئے حکومتی و سیاسی ڈیزاسٹرز کو مان لیا گیا کہ غلط کیا اور ہوا، اس دوطرفہ اعتراف و ازالے کے عزم و عمل سے ہی پاکستان کی حقیقی ترقی و تعمیر و استحکام کا عوام دوست راستہ نکلے گا، صحافتی وجدان بتا رہا ہےکہ یہ اب نکلا چاہتا ہے اور بہت جلد۔ اگر خبروں میں بتائے وقت کے مطابق کوئی بڑی خبر (دوران تحریر) آج نماز جمعہ سے قبل آگئی تو پاکستان کو اپنی جکڑ پکڑ میں لیا ’’بڑا کفر‘‘ بالآخر اعتراف و ازالے کی طاقت سے ٹوٹ جائے گا، انشا اللہ۔ ثابت ہوگا کہ:’’مشکل نیست کہ آساں نہ شود/ مرد باید کے ہراساں نہ شود‘‘گویا ہوگیا تو نہ کوئی ایک جیتے گا نہ ہارے گا اور اعتراف کی طاقت تازہ سے ہر دو فاتح قرار پائیں گے اور پاکستان اپنا کمال و جمال دکھانے کیلئے جھٹ سے پلٹ کر دنیا کوحیران کردے گا۔
قارئین کرام! متذکرہ تحریر کے دوران القادر ایجوکیشنل ٹرسٹ کیس کے اس فیصلہ کی بریکنگ نیوز کے مطابق اسیربانی تحریک انصاف اور سابق وزیر اعظم عمران خان کو 14 سال قید اور 10 لاکھ روپے اور ان کی بیگم بشریٰ صاحبہ کو 7 سال قید اور 5 لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی گئی ہے۔ اس متوقع اور چونکا دینے والی خبر کے باوجود راقم الحروف کی یہ خوش فہمی یا گمان غالب برقرار ہے کہ یہ فیصلے موجود سخت متنازع ہوگئے ،ملکی نظام عدل و انصاف کے مکمل سوال بنے، عدالتی معیار اور اسٹیٹس کو (نظام بد) کے دفاع کی اختتامی تگ و دو ہی کا عکاس ہے۔فلسفہ عدل و انصاف کی کلیت کی بنیاد پر اسے سپیریئر کورٹس سے پذیرائی ملنے اور اسکی تصدیق وتوثیق ہونے کاسوال ہی پیدا نہیں ہو رہا۔ یہ فیصلہ کسی کیلئے 8فروری کے عوامی فیصلے کی اشک شوئی کا اتمام حجت ہے یا پھر عوام مخالف نظام بد کے تحفظ کی آخری کوششوں کی نمائندہ کوششوںکا، اگر اس کے معمولی اہم ہونے کا شائبہ بھی ہے تویہ پاکستان میں ایک اور بڑے اور اتنے بڑے آئینی بحران کے خطرے کو لائے گا جو اب تک کی تین سالہ آئینی و سیاسی و معاشی تباہی پر حاوی و غالب ہوگا۔ یہ فقط موجود متنازع اور 8فروری کے بعد مسلسل بنی محدود ترین ہوگئی پارلیمانی طاقت اور نظام بد کی ڈوبتی علامتوں کی اشک شوئی اور ہاتھ پیر مارنے کی شکل سے ہٹ کر کسی محدود فیصد میں بھی تسلط برقرار رکھنے کی سعی لاحاصل بھی ہوئی تو اس سے ملکی بیمار سیاسی و معاشی عمل اور آئین کی حالت اتنی بگڑ جائے گی کہ اس کے تجزیے کا یارا فی الحال تو ہرگز نہیں۔اگر حکومت اس کے دربار اور اہل سرکار نے اس اشک شوئی یا فیس سیونگ کو جشن و حقیقت میں بدلنے کی کوشش کی تو پھر عوامی سیاسی طوفان سے اسی معیار پر ان ناقابل دفاع قومی جرائم کے مقدمات اور سزائوں کامطالبہ سر اٹھائےگا جواس ماحول میں قومی مطالبے سے ہی نہیں انہیں ایسی ہی عدالتوں کے قیام سے وقتی طور پر قابو کرلیا جائے تو کر لیا جائے لیکن یہ جگاڑ تباہ کن ہو گا۔ پورا نظام نازک ترین کانچ کی دیواروں کی آڑ میں مکمل قابل دید و شنید ہوتے قوت اخوت عوام سے کیسے اپنا دفاع کر پائے گا؟ سو گمان غالب اس یقین میں ڈھل رہا ہے کہ آخر کار منقسم ہی سہی پاکستان کے عوام کو آخری انصاف ان ہی عدالتوں سے مل کر دوطرفہ اعتراف و ازالے کی ہی راہ ہموار ہوگی۔ سب کھلواڑ کے بعد عدالت کی گنجائش باقی نہیں۔ اس میں بھی رکاوٹ کی جسارت کی گئی تو سب ان مینج ایبل ہوگا۔ وماعلینا الالبلاغ۔