کالم کی سری: یہ کالم تارکین وطن کے خلاف ہر گز نہیں، نیزیہ کالم سنجیدہ بھی ہر گز نہیں۔
کل ایک پوسٹ نظر سے گزری جو شاید کسی نے مذاق میں لکھی تھی مگر باتیں تمام درست تھیں، ملاحظہ کیجیے۔ ’’اوورسیز رشتہ دار پاکستان آ کر یہ سب کچھ کرتے ہیں: دانتوں کا علاج، لیزر ٹریٹمنٹ، ہئیر اسٹائلنگ، لذید کھانے، بھرپور شاپنگ، اپنے بچوں کی شادی، دوسروں کی شادی میں شرکت اور جائیداد خریدنا۔ اور پھر چند ہفتے بعد واپس جا کر کہتے ہیں کہ اب پاکستان میں کچھ نہیں رکھا۔‘‘ بے شک پاکستان کے ہر دوسرے گھر کا بندہ ملک سے باہر ہے اور وہ اِسی وجہ سے ملک چھوڑ کر گیا ہے کہ پاکستان میں اُس کیلئے کچھ نہیں رکھا تھا مگر مجھے اب تک اُس تارکِ وطن کی تلاش ہے جس کا کام پاکستان کے بغیر چل سکتا ہو! آئے روز اخبارات میں خبریں اور تجزیے شائع ہوتے ہیں کہ لوگ ملک سے مایوس ہو چکے ہیں، عورتیں خود کو محفوظ نہیں سمجھتیں، کاروبار کے یکساں مواقع یہاں نہیں ہیں، سیکورٹی کی صورتحال بہت خراب ہے لہٰذا اِن حالات میں نوجوانوں کے پاس سوائے اِس کے اور کوئی چارہ نہیں کہ وہ ملک چھوڑ دیں۔ چلیے کوئی بات نہیں، اگر کوئی شخص بہتر مستقبل کی تلاش میں ہِجرت کرنا چاہتا ہے تو یہ اُس کا ذاتی فیصلہ ہونا چاہیے لیکن اِس ملک میں بھی مستقبل بہتر بنایا جا سکتا ہے، شرط صرف یہ ہے کہ کوئی کتابی طریقے سے رہنمائی کرنے کی بجائے اِس ملک میں رہنے کا درست طریقہ سمجھا دے سو وہ طریقہ آج یہ فقیر آپ کو سمجھا دے گا۔
ویسے تو ہمارے ملک کے حالات کبھی بھی مثالی نہیں رہے لیکن گزشتہ چند برسوں کی کساد بازاری نے عام آدمی تو کیا اچھے خاصے متمول بندے کی بھی کمر توڑ کر رکھ دی ہے، اب شکر ہے کہ حالات کچھ بہتر ہیں، پہلے لوگ صبح اٹھتے تھے تو انہیں پتا چلتا تھا کہ ڈالر بیس روپے مہنگا ہوگیا ہے جس سے اُن کی تنخواہ بیٹھے بٹھائے گھٹ جاتی تھی۔ لیکن جیسا کہ میں نے کہا ہمارا موضوع پاکستان کے معاشی مسائل یا اُن کا حل نہیں ہے بلکہ ہمارا موضوع ہے کہ اِن مسائل کی موجودگی میں آج کا نوجوان کیا کرے؟کیا اُس کے پاس کوئی شریفانہ راستہ ہے ؟ اگر ہے تو کیا ہے اور اگر نہیں ہے تو ملک سے باہر جانے، شادی کرنے اور خودکشی کرنے کے علاوہ اُس کے پاس کیا آپشن ہے؟ میرے خیال میں آج کے نوجوان کو مایوسی، کمزوری، سستی یا سرعت...اوہ معافی چاہتا ہوں میں کسی اور طرف نکل گیا، میں یہ کہنا چاہ رہا تھا کہ آج کانوجوان کچھ زیادہ ہی مایوس ہے، حالات چاہے جتنے بھی خراب ہوں، اندھیری رات بالآخر کٹ جاتی ہےاور سپیدہ سحر نمودار ضرور ہوتا ہے ، سیانے کہہ گئے ہیں کہ کہیں دور جب دن ڈھل جائے، سانجھ کی دلہن بدن چرائے، چپکے سے آئے...لہٰذا میرے عزیز نوجوانو گھبرانا نہیں ہے، تمہاری دلہن بھی چپکے سے آئےگی لیکن اُس سے پہلےتم نے اپنا کیرئیر بنانا ہے ورنہ دلہن چپکے سے واپس بھی جا سکتی ہے ،اور فی زمانہ کیرئیر بنانے کا سب سےآسان طریقہ یہ ہے کہ تم سرکاری نوکری حاصل کرلو، ہاں ہاں، میں جانتا ہوں ،یہ کوئی آسان کام نہیں ،لیکن نوجوانوایک مرتبہ اگر تم یہ کام کرلو گے تو یاد رکھنا کہ ساری عمر تمہیں کوئی کام نہیں کرنا پڑے گا۔اور یہ جو لفظ نوکری ہے اِس سے کوئی غلط مطلب مت نکالنا، اِس سے مراد اصل میں افسری ہے۔ لیکن اَڑچَن یہ ہے کہ سرکاری افسر بننے کیلئے ایک مشکل سا امتحان دینا پڑتا ہے جو خاصا جوکھم کا کام ، اِس میں وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور جوئے کی طرح اِس کے نتیجے کا بھی کچھ پتا نہیں چلتا، پاس ہونے پہ آئے تو کوئی بھنگی چرسی بھی پاس ہوجاتا ہے اور فیل ہونے پہ آئے تو اچھا خاصا بیدار مغز شخص بھی فیل ہوجاتا ہے۔آج کل ویسے بھنگیوں کی اکثریت ہے۔اسی لیے میں نے تم لوگوں کیلئے ایک اور کیرئیر بھی سوچ رکھا ہے اور وہ ہے صحافت۔
دیکھو اب یہ مت کہنا کہ یہ کام بھی مشکل ہے، سچ پوچھو تو اِس سے آسان کام اپنے ملک میں کوئی نہیں ۔ یہ واحد شعبہ ہے جس میں داخل ہونےکیلئے کوئی سند یا تجربہ درکار نہیں ۔ہاں ہاں، کچھ اخبار اور ٹی وی چینل والے ایم ایس سی ماس کمیونیکیشن مانگتے ہیں ،مگر ڈگری کوئی نہیں دیکھتا، پھربھی اگر نوکری ملنے میں مشکل پیش آئے تو کسی بھی چینل کو کہنا کہ تمہیں بغیر تنخواہ کے رپورٹر بھرتی کرلے ، چھ ماہ تک یہ کڑوا گھونٹ پینا پڑے گا اُس کے بعد تم کسی سکوٹر کی طرح سیلف سٹارٹ ہو جاؤ گے۔اگر چینل والوں نے تنخواہ لگا دی تو بہت اچھے اور اگر نہ لگائی تو بھی کوئی مسئلہ نہیں ، جیسے کہ میں نے کہا یہ ایک منفرد فیلڈ ہے ،یہاں بغیر تنخواہ کے بھی گزارا ہوجاتا ہے۔ ٹی وی چینل کا دُم چھلا صرف چند ماہ کیلئے چاہیے اُس کے بعد تم اپنا یوٹیوب چینل بناؤ اور اُس پر جو دل کرے وہ خبر چلا دو، سچ جھوٹ کی پروا کیے بغیر۔ تمہاری خبروں میں ایسی سنسنی خیزی ہونی چاہیے کہ لوگوں کو اگر پتہ بھی ہو کہ تم کذّاب ہو تو بھی وہ روزانہ تمہارے ’’تھمب نیل‘‘ پر کلک کرنے پر مجبور ہوں گے۔ خیال رہے کہ یوٹیوب چینل کیلئے صرف تھمب نیل ہی کافی نہیں بلکہ تمہارا منہ پھٹ اور بد لحاظ ہونا بھی ضروری ہے، تم نے صرف منہ بگاڑ کرگفتگو کرنی ہے، لوگوں کی پگڑیاں اچھالنی ہیں اور بد زبانی کی نئے ریکارڈ قائم کرنے ہیں، اُس کے بعد دیکھنا کیسے دنوں میں تم مقبول ہوجاؤگے، لوگ تمہیں دانشور کہیں گے، تمہارے سامنے آنے سے کترائیں گے، چینل کے مالکان تمہیں سر آنکھوں پر بٹھائیں گے اور تمہیں منہ مانگی قیمت دے کر تمہارا ضمیر خریدیں گے۔گھبرانا نہیں ، بے فکر ہوکر ضمیر بیچنا، ضمیر کی پروا بالکل نہ کرنا، اِس ضمیر نے تمہارا کچن نہیں چلانا۔
نوجوانو! میں نے پوری نیک نیتی کے ساتھ آج تک لوگوں کو اپنا مستقبل سنوارنے کے دو طریقے بتائے ہیں، اگر تم کسی ایک پر بھی عمل کرلوگے تو یقین کرو امر ہوجاؤ گے اور ساری عمر مجھے دعائیں دو گے۔ لیکن مجھے تمہاری دعاؤں کی ضرورت نہیں، البتہ اگر تمہیں اِن شعبوں میں کامیاب ہونے کیلئے کسی تعویذ کی ضرورت ہے تو میرے نام پانچ ہزار روپے کا پے آرڈر ارسال کرو ، میں تمہیں Customisedتعویذ بھیجوں گا ۔ یاد رہے کہ مجھے روپے پیسے کی طمع نہیں ، میں یہ کام فی سبیل اللہ کرتا ہوں، تمہارے بھیجے گئے پیسے میں بیواؤں اور جواں سال مسکین عورتوں کی بہبود پر خرچ کروں گا، اور جو بچ جائیں گے اُن سے کنیڈا کی امیگریشن حاصل کروں گا کیونکہ ’’اب پاکستان میں کچھ نہیں رکھا!‘‘