مصنّف: ڈاکٹر عبدالستار عبّاسی
صفحات: 243، قیمت: درج نہیں
ناشر: اِنوویٹیوووانٹرنیشنل پبلشنگ، 297 -جے، بحریہ آرچرڈ، لاہور۔
ڈاکٹر عبدالستار عبّاسی گزشتہ بارہ برس سے کامسیٹس یونی وَرسٹی، لاہور میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اِس سے قبل19برس تک صنعتی شعبے سے وابستہ رہے، جس کے دَوران اُنھیں قازقستان، تاجکستان، ازبکستان اور آذربائیجان میں رہنے کے مواقع میسّر آئے۔
زیرِ نظر سفرنامے کا بیش تر حصّہ اُسی زمانے کی یادداشتوں پر مشتمل ہے۔ نیز، اُنھیں دیگر ممالک کے اسفار کے بھی مواقع ملے، جن کا احوال بھی کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔ڈاکٹر عبّاسی کی اِس سے قبل بھی کئی کتب اور درجنوں مقالات شایع ہوچُکے ہیں۔
اِس سفرنامے کا بڑا حصّہ روزنامہ جنگ کے’’ سنڈے میگزین‘‘ میں قسط وار شایع ہوا، جسے قارئین کی جانب سے بھرپور پذیرائی حاصل ہوئی۔ اِس ضمن میں مصنّف کا کہنا ہے کہ ’’چھوٹے بھائی نے مشورہ دیا کہ اپنی تحریر جنگ، سنڈے میگزین میں بھیجیں۔مَیں ہچکچایا کہ شاید تحریر اِس قدر عُمدہ نہ ہو، مگر اُن کے اصرار پر ہچکچاتے ہچکچاتے سفرنامے کی دستاویز محترمہ نرجس ملک صاحبہ کو ارسال کردی۔
اُسی دن شام کو اُن کا پیغام موصول ہوا کہ سفرنامے کو بارہ اقساط کی صُورت میں ارسال کردیجیے، جس پر دل خوشی سے کِھل اُٹھا۔‘‘اِس سفرنامے کے مندرجات کو قارئین کی سہولت کے لیے چار حصّوں یا ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔
پہلا حصّہ’’وسطی ایشیا کا سفر‘‘ کے عنوان سے ہے، جس میں قازقستان، تاجکستان، ایران، افغانستان، ازبکستان اور آذربائیجان کی سفری یادداشتیں ہیں۔ پھر چین کا سفری احوال ہے۔ تیسرا حصّہ’’ مشرقِ بعید کے سفر‘‘ سے متعلق ہے، جس میں ملائیشیا، سنگاپور اور تھائی لینڈ کی باتیں ہیں، جب کہ آخری باب سفرِ انگلستان پر مشتمل ہے۔
مصنّف قوّتِ مشاہدہ سے مالا مال ہیں، تو دوسری طرف تجزیاتی شعور سے بھی آراستہ ہیں، پھر وسعتِ مطالعہ نے اِن صلاحیتوں میں مزید نکھار پیدا کیا ہے، یہی وجہ ہے کہ اِس سفرنامے میں جہاں ڈاکٹر عبّاسی کے ذاتی تجربات و مشاہدات قارئین کے علم میں اضافہ کرتے ہیں، وہیں اُن ممالک کی تاریخ، اہم مقامات، رسم و رواج، عام لوگوں کے حالات، عوامی مزاج اور سیاسی معاملات سے بھی آگہی ملتی ہے۔ اور کمال یہ ہے کہ مصنّف نے یہ سب کچھ بیان کرتے ہوئے سفرنامے کو گائیڈ بُک بننے سے بچایا ہے، تو بوجھل پن کا عیب بھی پیدا نہیں ہونے دیا۔کسی مشّاق لکھاری کی مانند غیر ضروری تفصیلات سے گریز کرتے ہوئے اسلوب سادہ اور رواں رکھا گیا ہے۔
ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ مصنّف کی’’ پاکستانیت‘‘ ہر جگہ نمایاں رہی اور اُنھوں نے بزنس کے ضمن میں(جس کا اُنھیں طویل تجربہ بھی ہے) نہایت مفید نکات قارئین کے ساتھ شئیر کیے ہیں۔ ہم حُکم رانوں کے ساتھ شئیر کرنے کی بات اِس لیے نہیں کرسکتے کہ ایسی باتوں پر کان دھرنے کی شاید اُنھیں فرصت ہی نہیں۔ بہرحال، یہ ایک ایسا سفرنامہ ہے، جسے ضرور پڑھا جانا چاہیے۔