مصنّف: علی حسن ساجد
صفحات: 167، قیمت: 1500 روپے
ناشر: الحسن اکیڈمی، کراچی۔
فون نمبر: 2130552 - 0333
علی حسن ساجد ممتاز براڈ کاسٹر، بچّوں کے ادیب اور ایک محقّق کے طور پر نمایاں حیثیت کے حامل ہیں۔ بچّوں سے متعلق ان کی کئی کتب ایوارڈز جیت چُکی ہیں، جب کہ خود اُنھیں بھی دو سو سے زاید ایوارڈز سے نوازا جاچُکا ہے۔ ریڈیو اور ٹی وی پر نیوز کاسٹر اور کمپیئر کے طور پر بھرپور کیرئیر رہا، جس کے دَوران اَن گنت ڈرامے لکھنے کے ساتھ، پروگرامز کے اسکرپٹس بھی لکھے۔کئی ممالک میں منعقدہ عالمی کانفرنسز میں مقالے پیش کر چُکے ہیں۔
کراچی اُن کی تحقیق کا ایک خاص موضوع ہے اور اِس سلسلے میں روزنامہ ’’جنگ‘‘ سمیت کئی اخبارات میں سیکڑوں مضامین تحریر کر چُکے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اِن دنوں بلدیہ عظمیٰ کراچی سے سینئر ڈائریکٹر اطلاعات و طباعت / میڈیا مینجمنٹ کی حیثیت سے وابستہ ہیں۔
علی حسن ساجد نے زیرِ نظر کتاب میں سرکاری عمارات، تعلیمی مراکز، طبّی مراکز، سماجی مراکز، کاروباری مراکز، معلوماتی مراکز/عجائب گھر، تفریحی مراکز، مذہبی مراکز، عدالتی مراکز، نشریاتی مراکز اور مواصلاتی مراکز کے عنوانات کے تحت کراچی کی43 قدیم عمارات کا تعارف پیش کیا ہے۔
اِس ضمن میں اُن کا کہنا ہے کہ’’ یہ عمارات وہ نشانیاں ہیں، جو کراچی کے بدلتے ہوئے دَور کی کہانیاں سُناتی ہیں اور اِس شہر کے مختلف پہلوؤں کو اجاگر کرتی ہیں۔
اگرچہ کراچی میں پانچ سو سے زاید رہائشی، تجارتی، تعلیمی اور ثقافتی مقاصد کے لیے بنائی گئی عمارات موجود ہیں، جو قیامِ پاکستان سے قبل تعمیر کی گئیں، تاہم اِس کتاب میں صرف اُن عمارات کو شامل کیا گیا ہے، جو نہ صرف تاریخی اہمیت کی حامل ہیں، بلکہ کراچی کے منظرنامے کا لازمی جزو بھی بن چُکی ہیں۔
قارئین کی سہولت کے لیے کتاب میں اِن عمارتوں کو، ان کے استعمال کے مطابق مختلف کیٹگریز میں تقسیم کیا گیا ہے اور پھر ان کیٹگریز میں سنِ تعمیر کے مطابق ترتیب وار شامل کیا گیا ہے۔‘‘
عقیل عباس جعفری نے’’نو آبادیاتی دَور کی تعمیرات‘‘ کے عنوان سے کراچی پر تحریر کردہ کتب کا ایک جائزہ پیش کیا ہے اور اِس سلسلے میں علی حسن ساجد کی اِس کتاب کو نہایت اہمیت کا حامل قرار دیا ہے۔ اقبال عزیز کی رائے ہے کہ’’مصنّف نے نہایت خُوب صُورتی اور باریک بینی سے شہر کے مختلف گوشوں میں موجود تاریخی عمارتوں کی تفصیلات جمع کی ہیں۔ اس میں ان عمارتوں کی تعمیر کا وقت، ان کے معمار، ماضی اور حال میں ان کے استعمال اور ان عمارتوں کی موجودہ حالت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
کراچی کے تاریخی وَرثے پر یہ کتاب نہ صرف ایک علمی ذخیرہ ہے بلکہ یہ ایک تحریک ہے، جو ہمیں اپنے شہر کے وَرثے کی حفاظت کی ترغیب دیتی ہے۔‘‘ چوں کہ مصنّف ایک کہنہ مشق لکھاری ہیں، تو اُنھوں نے اپنا مدعا بیان کرنے کے لیے جامعیت اور سادہ و عام فہم، لیکن دل چسپ اسلوب کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے، جس کے باعث عام افراد بھی اِس کتاب سے پوری طرح استفادہ کرسکتے ہیں۔
کراچی میں رہنے والوں، خاص طور پر نوجوان نسل کو اِس کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے تاکہ جگہ جگہ بکھرے ہیرے جواہرات اور اُن سے برتی جانے والی لاپروائی کا علم و ادراک ہوسکے۔ کتاب بڑے سائز میں اور نہایت سلیقے سے شایع کی گئی ہے۔