• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جذام: متاثرہ افراد کو علاج کے ساتھ ہمدردی و احترام کی بھی ضرورت ہے

اللہ تعالیٰ مختلف آزمائشوں کے ذریعے اپنے بندوں کا امتحان لیتا ہے۔ اس ضمن میں قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’اور ہم اچّھے اور بُرے حالات میں ڈال کر تم سب کی آزمائش کر رہے ہیں۔ آخرکار، تمہیں ہماری ہی طرف پلٹنا ہے۔‘‘(سورۃ الانبیاء: 35) یعنی آزمائش چاہے کتنی ہی بڑی کیوں نہ ہو، اللہ کی رحمت اس سے زیادہ وسیع ہے اور ہر بیماری کے ساتھ شفا کا وعدہ بھی کیا گیا ہے۔ صحت و بیماری، تنگ دستی وخوش حالی، سختی و نرمی یہ سب اللہ کی جانب سے امتحان ہیں، جو انسان کی استقامت اور توکّل علی اللہ کا ذریعہ بنتے ہیں۔

انہی آزمائشوں میں ’’جذام‘‘ نامی بیماری بھی شامل ہے، جسے عام زبان میں ’’کوڑھ‘‘ کہا جاتا ہے۔ یہ ایک قدیم اور پیچیدہ مرض ہے، جو جِلد اوراعصابی نظام کو متاثر کرتا ہے۔ جذام کا بنیادی سبب ’’مائکروبیکٹیریم لیپری‘‘ نامی جرثوما ہے، جو قوّتِ مدافعت کم ہونے کے باعث جسم پر حملہ آور ہوتا ہے۔ اس بیماری میں جلد پر دھبّے پڑنے کے ساتھ اعصابی کم زوری اور دیگر پیچیدگیاں لاحق ہوجاتی ہیں،جن کا بروقت علاج نہ کیا جائے، تو یہ مُہلک بھی ثابت ہوسکتی ہیں۔ 

بہرکیف، اس مرض سے متعلق شعور اجاگر کرنے ہی کے ضمن میں ہر سال ماہِ جنوری کے آخری اتوار کو ’’جذام کا عالمی دن‘‘ منایا جاتا ہے اور رواں سال آج یعنی 26 جنوری کو یہ یوم منایا جارہا ہے۔ یہ دن منانے کا مقصد بیماری کی علامات، تشخیص اور علاج کے حوالے سے آگہی فراہم کرنا اور مریضوں سے متعلق معاشرتی رویّوں میں مثبت تبدیلی لانا ہے، لہٰذا مختلف مہمّات اور پروگرامز کے ذریعے عوام کو یہ پیغام دیا جاتا ہے کہ ’’جذام قابلِ علاج بیماری ہے اور اس بیماری سے متاثرہ افراد کے ساتھ ہم دردی کا مظاہرہ کیا جائے۔‘‘ نیز، یہ مرض لاعلاج نہیں، تو اس کےشکار افراد کو تنہا چھوڑنے کی بجائے اُن کی مدد کی جائے، تاکہ وہ جلد صحت یاب ہوسکیں۔

جذام کی ابتدائی علامات میں جِلد پرسفید یا سُرخی مائل دھبّے نمودار ہونا شامل ہیں، جن میں خارش یا چُھونے پرکوئی احساس نہیں ہوتا۔ اگر یہ دھّبے کسی عام مرہم یا دوا کے استعمال کے باوجود بھی کئی ہفتوں تک برقرار رہیں، تو فوری طور پر کسی اسکن اسپیشلسٹ سے رجوع کرنا چاہیے۔ طبّی ماہرین کے مطابق جذام کے بروقت علاج سے نہ صرف مریض کی حالت بہتر ہو سکتی ہے بلکہ مزید پیچیدگیوں سے بھی بچا جاسکتا ہے۔ 

تاہم، اس مرض کے شکار افراد کے علاج میں اکثر تاخیر ہو ہی جاتی ہے، جس کی عمومی وجہ ہمارے معاشرتی رویّے اور لاعلمی ہے۔ بیماری کےابتدائی مرحلے میں اینٹی بائیوٹکس کے ذریعے اس کا مؤثر علاج ممکن ہے، لیکن اس کے ساتھ ہی صاف سُتھرا ماحول، متوازن غذا اور صاف پانی کا استعمال بھی ضروری ہے۔

یاد رہے، ماضی میں پاکستان میں جذام کے مریضوں کی حالتِ زار ناگفتہ بہ تھی۔ 1960ء کی دہائی میں جب دُنیا بَھر ہی میں جذام کے مریضوں کے لیے ہم دردی کا فقدان تھا، تو پاکستان میں یہ بیماری لاعلاج سمجھی جاتی تھی اور اس کے شکارافراد کونفرت و تضحیک آمیز رویّوں کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ حتیٰ کہ ان کے اہلِ خانہ اور قریبی رشتے دار بھی ان سے کنارہ کشی اختیار کرلیتے تھے۔ 

ڈاکٹر رُتھ فاؤ - فائل فوٹو
ڈاکٹر رُتھ فاؤ - فائل فوٹو

دوسری جانب علاج معالجے کا بندوبست نہ ہونے کے سبب اُن کی زندگی ایک ڈرائونا خواب بن کے رہ جاتی تھی۔ ایسے میں ایک جرمن نژاد خاتون، ڈاکٹر رُتھ فاؤ کو قدرت نے اُن کا مسیحا بنا کر پاکستان بھیجا۔ ڈاکٹر رُتھ فاؤ نے کراچی میں اپنی خدمات کا آغاز ایک چھوٹے سے مرکزِ صحت سے کیا، جو موجودہ آئی آئی چندریگر روڈ کے قریب واقع ہے۔ 

انہوں نے نہ صرف جذام کے مریضوں کا علاج کیا بلکہ اُنہیں قیدِ تنہائی سے بھی نکال کرعزّت و وقار سے نوازا۔ جرمن مسیحا نے اچھوت سمجھے جانے والے اُن مریضوں کے زخم اپنے ہاتھوں سے صاف کیے، انہیں دوا دی اور اُن میں جینے کی رمق پیدا کی۔ 

یہی وجہ ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ڈاکٹر رُتھ فائو نے پاکستان بَھر میں جذام کے مریضوں کے علاج کے 150 سے زاید مراکز قائم کردیئے اور ان کی شبانہ روز محنت اور قربانیوں ہی کی بدولت 1996ء میں پاکستان کو عالمی ادارۂ صحت نے ’’جذام پر قابو پانے والا مُلک‘‘ قرار دیا، جو ایک تاریخی کام یابی تھی۔

حالیہ اعداد و شمار کے مطابق، وطنِ عزیز میں جذام کے نئےمریضوں کی شرح ایک لاکھ افراد میں ایک فی صد سے بھی کم ہے۔ اس ضمن میں ’’میری ایڈی لیڈ لیپروسی سینٹر‘‘ کا کہنا ہے کہ 2023-24ء میں جذام کے کیسز میں مزید کمی دیکھی گئی، بالخصوص اس بیماری کے سبب بچّوں کی معذوری کی شرح صفر تک پہنچ چُکی ہے اور اس کام یابی کا تمام تر سہرا ڈاکٹر رُتھ فاؤ، ملٹی ڈرگ تھراپی کے مؤثر استعمال اور عوامی شعور بیدار کرنے کی مہمّات کے سَر ہے۔ 

نیز، یہ تمام تر پیش رفت ڈاکٹر رُتھ فاؤ کی قیادت میں کیے گئے انقلابی اقدامات اور اُن کے قائم کردہ سینٹرز کے فعال کردار ہی کا نتیجہ ہے، جو آج بھی پورے پاکستان میں جذام کے علاج سمیت صحت کی دیگر سہولتیں فراہم کر رہے ہیں۔

ڈاکٹر رُتھ فاؤ کی زندگی انسانیت سے محبّت اور قربانی کے جذبے سے معمور تھی۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے پاکستان میں جذام کے مریضوں کی فلاح و بہبود کے لیے اپنی پوری زندگی وقف کردی۔ تب ہی حکومتِ پاکستان نے اُن کی ان بےمثال خدمات کے اعتراف میں اُنہیں ہلالِ پاکستان، ستارۂ قائدِاعظم، ہلالِ امتیاز اور جناح ایوارڈ جیسے اعلیٰ قومی اعزازات سے نوازا۔ 

عظیم خاتون مسیحا خُود تو 2017ء میں 88سال کی عُمر میں اس دُنیا سے رخصت ہوگئیں، لیکن ان کا مِشن آج بھی ’’میری ایڈی لیڈ لیپروسی سینٹر‘‘ اور دیگر اداروں کے ذریعے جاری ہے، جو پاکستان بھر میں جذام اور دیگر امراض کے خلاف سرگرمِ عمل ہیں۔ 

ڈاکٹر رُتھ فاؤ نے اپنے طرزِعمل سے آنے والی نسلوں کو یہ سبق بھی دیا کہ خدمتِ انسانیت کسی مخصوص مذہب، قوم یا سرحد کی محتاج نہیں۔ نیز، اُن کی زندگی ہمیں یہ بھی بتاتی ہے کہ جذام کا خاتمہ صرف دوا سے ممکن نہیں بلکہ اِس کے لیے معاشرتی رویّوں میں تبدیلی لانا، مریضوں کے ساتھ ہم دردی اور ان کی فلاح و بہبود بھی ازحد ضروری ہے۔