دل میں ہر بات چُھپا کر بھی رَہا کرتے ہیں
جیسے ہر بات بُھلا کر بھی رہا کرتے ہیں
خار ہاتھوں میں پکڑ کر بھی نہیں درد ہوا
ایسے دُنیا کو دکھا کر بھی رہا کرتے ہیں
اپنے الزام لگا دیتے ہیں اَوروں کے سَر
خود کو نقصاں سے بچا کر بھی رہا کرتے ہیں
راستے بند کیا کرتے ہیں پہلے پھر وہ
نِت نئے خواب دکھا کر بھی رہا کرتے ہیں
جانتے بُوجھتے ہر کام کیا کرتے ہیں
نام قسمت پہ لگا کر بھی رہا کرتے ہیں
ویسے ہر بات چُھپاتے ہیں سبھی سے، لیکن
کچھ کو ہم راز بنا کر بھی رہا کرتے ہیں
(طوبیٰ بنتِ فاروق)
***********
تھے اجنبی تمام، شناسا کوئی نہ تھا
میری طرح زمانے میں تنہا کوئی نہ تھا
کرتے تھے لوگ تبصرے عنوان دیکھ کر
لکھا ہے کیا کتاب میں پڑھتا کوئی نہ تھا
سب نے کہا کہ درد کا مارا ہوا ہے یہ
میں تھا اُداس کس لیے سمجھا کوئی نہ تھا
میں کس طرح گزارتا اس میں تمام عُمر
خالی مکاں تھا، وہاں رہتا کوئی نہ تھا
سیفی تِرا فضول تھا گھر اپنے لوٹنا
جب کہ تِری تلاش میں نکلا کوئی نہ تھا
(سیفی سرونجی، بھارت)