• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’نقلِ کفر،کفر نا باشد‘‘ والی بات ۔ بحوالہ حامد حسین قادری عرضِ تحریر کہ ’’اسلام سےقبل عربوں کے کاندھے پر حکومت کا بار نہ تھا ۔ انکے پیروں میں تہذیب کی زنجیریں نہ تھیں گردنوں میں تعلیم کے پھندے نہ تھے، آزادی سے جو محاسن ومصائب کسی قوم میں پیدا ہو سکتے ہیں۔ وہ سب ان میں بدرجۂ اتم موجود تھے۔

بے جاخودی، غرور اور خود پر فخر و مباہات رگ و ریشے میں اس قدر سرایت کر چکا کہ اسوقت پاکستان میں ہر مہینے کم از کم 40 لاشیں کسی بھی شہر، بندر گاہ سے واپس لوٹائی جاتی ہیں کہ انسانی اسمگلنگ کرنے والوں نے ہر ایک سےلاکھوں کروڑوں لیکر دوسرے ممالک میں مال کمانے کی حسرت بھردی اور، کشتی میں ضرورت سے زائد افرادبھرنے کے باعث کشتی ڈوب جاتی اور وہ بھوکے پیا سے کروڑوں کی زمینیں بیچ کر بہت کچھ کے خواب لیے ، ڈوب جاتے ہیں۔

حکومت بعد ازاں، کمیشن بناتی ، فتنہ گروں کو تلاش کرتی، دوچار پرہاتھ ڈال لیتی ۔ قوم کو تسلی دیتی ہےکہ فکر مت کرو، باقی سارے انسانی اسمگلنگ کرنے والے اپنے انجام کو پہنچیں گے۔ یہی کچھ ان سب منشیات فروشوں اور بد قماش لوگوں کے بارےمیں کہا جاتا رہا ہے جو پاکستان کے قیام سے اب تک اسکی بنیاد کو کھوکھلا اور قوم کو بے حس بنا رہے ہیں۔ اسوقت مشرق وسطیٰ کے ملکوں میں سینکڑوں اور ہزاروں پاکستانی قید میں ہیں ۔ کوئی انکی گواہی دینے یاانہیں چھڑانے پر آمادہ نہیں ۔ حکومت بظاہر وعدے کرتی ہے ۔ نئے سے نئے آرڈیننس پاس کرتی، اپنے بیانیے پرفخر کرتی، جب بات پرانی ہو جائے تو چہرے بدل دیے جاتے ہیں۔ اب تو سرکاری ملازم جو کسی تربیتی کورس کیلئے باہر بھیجے جاتے ہیں۔ اس میں پائلٹ اور ڈاکٹرز بھی شامل ہیں ،واپس نہیں آتے۔ سوال اٹھائیں توکہا جاتا ہے کہ یہاں تنخواہیں بہت کم ہیں۔ اسلئے باہر رہ جاتے ہیں۔ یہی بہانہ اب اسمبلیوں کے ممبران کیلئےہے۔ افسروںکیلئے گا ڑیاں منگوانے کیلئے بھی یہی عذر ہے۔ ہرچند کہ ڈیڑھ لاکھ لوگوں کی پوسٹیں خالی کرکے، حکومت اپنے لیے فخر کی بات سمجھ رہی۔ ان ساری سردیوں میں کہیں بھی بارش نہیں ہوئی ۔ اسکے باعث بارانی فصلیں پیداوارنہیں دے سکیں۔میں بار بار مونگ پھلیوں کے ڈبے نہ آنے کا گلہ کرتی تو سارے اٹک کے علاقے کے لوگ اپنا رونا لے کر بیٹھ جاتے۔ کمال یہ ہے کہ موسمیاتی وزارت بھی خاموش ہے اور کوئی بھی مریم بی بی کی طرح نہیں کہہ رہا کہ مصنوعی بارش کے ذریعے فصلیں اُگائی جاسکتی ہیں۔ اگر چین اور سعودی حکومتیں ہماری مدد نہ کرتیں تو گوادر ایئرپورٹ نہ بن سکتا۔ ہم جگہ جگہ چینی کارکنوں کے کام کی تعریف کرتے ہیں اور ا نکی روز کی شکایات کہ پولیس تک ہم سے پیسے مانگتی ہے ۔ ہم ایک کان سے سن کر دوسرے سے نکال دیتے ہیں۔

پیکا آرڈینس ایک دفعہ نہیں کئی دفعہ کئی نئی شقوں کے ساتھ پیش کیا گیا، پاس کیا گیا پھر تبدیل کیا گیا۔ پھر کئی بار سامنے لایا گیا ہے وہ صحافی جو اصل میں اس کی روح کو سمجھتے ہیں وہ شور مچاتے رہے۔ انہی روزروز کی تبدیلیوں کے باعث پیمرا بھی بے معنی ہوگیا ہے۔ اس طرح بلاسود قرضوں کی اسکیموں کا ہر دور حکومت میں اعلان بھی کیا گیا اورقرضے دیئے بھی گئے۔ مگر کوئی خاطر خواہ فرق معیشت پر نہیں پڑا۔ کسی نے تجزیہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ قرضوں کی تقسیم سیاسی مفادات کے تحت ہوتی ہے۔ میرٹ سے زیادہ، ایم این ایز اور ایم پی ایز کی سفارشیں کام آتی ہیں۔ یاد رکھیں پیلی ٹیکسی اسکیم ایک حکومت نے چلائی پھر وہ غائب ہوگئی۔ بڑے گروپس جو قرض لیتے ہیں وہ تو چوہدری ظہورالٰہی کے زمانے سے کوئی حساب ہی نہیں ہوتا رہا ہے۔ پاکستان میں آج تک کوئی ایسی مثال نہیں کہ چھوٹے قرضے والوں نے فلاں کاروبار کو فروغ دیا۔ اس دفعہ بھی پرانی اسکیموں کو نئے ناموں کے ساتھ سامنے لایا گیا ہے۔

اطلاعات ہیں کہ لگژری گاڑیاں بھی منگوائی جارہی ہیں۔ یاد کریں عمران کے زمانے کی گاڑیاں کس طرح اونے پونے داموں بیچی گئیں۔ خدا کیلئے اس قوم کو اعداد وشمار کے چکر سے نجات دیں۔ فی الوقت حکومتی وزرا اپنے اتحادیوںکیلئے فنڈ جاری کرنے میں تیزی دکھا رہےہیں ۔ سارے ممبران جن کی تنخواہیں بڑھائی گئی ہیں کیا وہ متوسط طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ شمار کرکے بتائیں، ہر ایک کی کتنی زمینیں، فیکٹریاں ہیں اور کتنا ٹیکس دیتے ہیں۔ یہ چند لاکھ بھی انکی عمارت میں زیر و برابر ہونگے۔ کالا دھن رکھنے والوںکیلئے فوراً ہی ہمدردیاں چاروں طرف سے آنے لگتی ہیں۔ یاد کریں کہ ایک پولیس ورکر کے گھر سے کروڑوں روپے، ڈھیروں سونا اور چاندی نکلی تھی پھر کیا ہوا۔ معاملہ گول ۔ہر جگہ یہی ہوتا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ گزشتہ چالیس سال سے ایک شخص کا سکہ چل رہا ہے۔ پاکستان کے ہر شہر خاص کر کراچی ،اسلام آباد، لاہور کے علاوہ ملتان اور دیگر شہروں میں نئے شہر اس شخص نے بسائے ہیں، جس کے پاس اس نے خود بتایا کہ بیٹی کی دوائی کیلئے پیسے نہیں تھے۔ آج وہ بتائیگا کتنے افسروں اور کتنے رشوت خوروں کو اس نے پالا۔ ہر حکومت کے دور میں شور مچتا ہے کہ اس سے پوچھو کتنوں کو کھلایا۔ اس عرصے میں دوسری حکومت آجاتی ہےاب تودبئی میں شہر بسا رہا ہے۔ وہاں کے شہنشاہ سے کون ہمت کرکے پوچھے گا۔ بولنے کی آزادی ختم کرنے کو پیکا آرڈیننس موجود ہے۔ ویسے بھی ادیبوں یا صحافیوں کو بولنے کی سزائیں بہت مل چکی ہیں۔ کوئی سزا باقی ہے تو کہاں ہے ارشد شریف یا طور یا پھر عمران ریاض، حامد میر تو سزا یافتہ ہے ہی۔ اب کون فرہاد رہ جائے گا۔ میدان کھلا ہے کون ہے دل گردے والا۔ جو حکومت اور وہ بھی اسٹیبلشمنٹ کو آنکھ دکھائے۔ یہ بھی سنئے نیوگنی راجو کے نام کا کوئی گائوں نہیں مگر لاکھوں روپے کی گرانٹ دی جاتی ہے۔

تازہ ترین