ہمارا مارچ 2003ء میں معروف شاعر، پروفیسرعنایت علی خان سے دُبئی میں تعارف ہوا۔گرچہ اِس سے پہلے ٹیلی ویژن پر اُن کا کلام سُننے کا موقع با رہا ملا۔ ہوا یوں کہ دُبئی کی پاکستانی ایسوسی ایشن نے ایک مزاحیہ مشاعرے کا انعقاد کیا، جس میں عنایت علی خان بھی مدعو کیے گئے اور وہ مشاعرے میں شرکت کے لیے حیدرآباد (سندھ) سے دُبئی آئے۔ اِس سے قبل وہ پاکستانی اسکول ابوظبی میں کچھ ذمّے داریوں کی ادائی کے سلسلے میں چھے ماہ قیام کر چُکے تھے اور وہاں اُن کے نوجوان نیاز مندوں کی اچھی خاصی تعداد تھی۔
پروگرام کچھ اِس طرح بنایا گیا تھا کہ اگر کوئی شاعر، مشاعرے کے بعد دُبئی میں مزید ٹھہرنا چاہے، تو اُسے اپنی رہائش کا بندوبست خود کرنا پڑتا تھا، تاہم مشاعرے کے منتظمین عنایت علی خان کی میزبانی مشاعرے کے اگلے دن تک انجام دینے کے خواہش مند تھے اور وہ میزبانوں کے خرچے پر ہوٹل میں قیام کرسکتے تھے۔
اِس مشاعرے میں ابوظبی سے اُن کے چاہنے والے آئے ہوئے تھے، تو وہ گروپ اُنہیں نصف شب کے بعد’’اغوا‘‘ کر کے لے گیا۔ وہاں جا کر اُنہیں دُبئی میں اپنے چند عزیزوں سے ملنے کا خیال آیا، تو نگاہِ انتخاب اِس عاجز پر پڑی، جو دُبئی میں اُن کی میزبانی کرسکتا تھا۔ مَیں اُن دنوں ملازمت کے سلسلے میں وہاں مقیم تھا۔ عنایت صاحب تین یا چار دن ہمارے مہمان رہے۔ بہت سادہ اور آسان زندگی گزارتے تھے۔ صحت کے مسائل(خاص طور پر پیچش) کی بنا پر کھانے پینے میں بہت محتاط رہتے۔
عُمر میں ہم سے پندرہ، سولہ سال بڑے تھے، لیکن اپنی بزرگی کو کسی پر سوار نہیں کرتے تھے۔ بڑی بے تکلّفی سے پیش آتے اور بات بات پر لطیفے تخلیق کرتے۔ کبھی ہمارے منہ سے ہذیان نکل جاتا، تو بڑے پیار سے سمجھاتے کہ اس سے باز آجایئے، لیکن دل اپنا پرانا پاپی ہے، برسوں میں راہِ راست پر نہ آسکا اور وہ زبانی شیریں بیانی بدستور جاری ہے۔
ایک دن اُن کے ہاتھ میں ڈائری دیکھی، تو ہم نے استفسار کیا۔ بولے۔’’ایک خاتون نے دی ہے، جن کے شوہر دُبئی کے مشاعروں میں بڑے سرگرم تھے، اِس میں اُن کی بڑی بہن کی مشقِ سخن کی تفصیل ہے اور خاتون نے اس پر نظرِثانی کی درخواست کی ہے۔‘‘وہ خاتون اُس وقت اندازاً پچاس کی عُمر کے قریب تھیں اور اِتنی عمر تک بھی شادی بیاہ سے دُور تھیں۔
حیدرآباد میں کسی کالج یا اسکول میں تدریسی فرائض انجام دے رہی تھیں۔ ایک دو مرتبہ اُنہوں نے نظرِ ثانی کی بات کی، تو اِس خاکسار نے کہا’’عنایت صاحب! ذرا محتاط رہیے، کہیں نظرِ ثانی، عقدِ ثانی کا محرّک نہ بن جائے۔‘‘ اِس پر تو ہنسی کا فوّارہ چُھوٹ پڑا۔
اِس قدر ہنسے کہ ہمیں حیرت ہوئی۔ کہنے لگے’’آپ کے اِس لطیفے پر تو مَیں دس، بارہ سال اور جی لوں گا۔‘‘پھر بتایا کہ دس، بارہ سال پہلے بھی ایک ایسا ہی واقعہ ہوا تھا، تو مَیں نے یہی کہا تھا کہ’’ اِس پر تو دس، بارہ سال اور جی لوں گا۔‘‘پھر اُس واقعے کی تفصیل بتائی کہ ایک شاگرد کافی عرصے بعد ملا،(عنایت صاحب نے تدریس کا آغاز اسکول سے کیا، پھر کالج میں ذمّے داری سنبھالی اور جب ریٹائر ہوئے، تو کالج کے پرنسپل تھے)، اُس نے صحت سے متعلق پوچھا، خاص طور پر پیچش کے بارے میں، جس کے وہ پرانے مریض تھے۔ اس پر عنایت صاحب نے جواب دیا کہ’’اس سے ہمارا بقائے باہمی کا معاہدہ طے پایا ہے کہ نہ مَیں بد پرہیزی کروں گا اور نہ وہ(پیچش) اپنی کارکردگی دِکھائے گی۔‘‘
شاگرد نے کہا’’ ذرا محتاط ہی رہیے، کہیں یہ بقائے باہمی کا معاہدہ’’قضائے باہمی‘‘ کا پیش خیمہ نہ بن جائے۔‘‘ اس پر بقول اُن کے، وہ اِسی طرح ہنسے اور کہا کہ’’ اِس بات پر تو دس، بارہ سال اور جی لوں گا۔‘‘ایک موقعے پر ایک اور لطیفہ سنایا کہ’’ایک صاحب تھے، جن کی بیگم بہت موٹی تگڑی تھیں۔ اُن کے گھر رات کے وقت ایک چور آگیا۔کھٹکا ہوا تو بیگم اُٹھ بیٹھیں۔
چور کو پکڑ کر گرایا اور اُس پر بیٹھ گئیں۔ میاں کو کہا’’جائو، پولیس کو بُلا کرلاؤ۔‘‘چور خاتون کے وزن سے ادھ مَوا ہوا جا رہا تھا۔ دوسری طرف میاں اِدھر اُدھر گھوم رہے تھے۔ بیگم نے گُھرکا’’جا کیوں نہیں رہے ہو؟‘‘صاحب نے جواب دیا’’جوتا نہیں مِل رہا ہے۔‘‘چور، جو بیگم صاحبہ کے وزن سے جاں بلب تھا، کراہتے ہوئے بولا’’او بھائی! میری پہن کر چلا جا۔‘‘
یہ عنایت علی خان کی شخصیت کا ایک پہلو تھا۔ اِس سے ہٹ کر وہ ایک عالمِ دین بھی تھے۔ ہم نے ٹھیک گیارہ سال پہلے اپنے بیٹے کے نکاح پر اُنہیں شرکت کی زحمت دی اور اُنھوں نے خطبۂ نکاح دیا، جسے آج بھی لوگ یاد کرتے ہیں۔اُنہوں نے خطبے کا ترجمہ بیان کیا، قرآن و حدیث میں نکاح کی اہمیت اور اس سے متعلق احکامات بیان کیے۔
دل چسپ بات یہ کہ ساری بات آٹھ منٹ میں مکمل ہوگئی۔ یہ نکاح مسجد میں تھا اور اِس کی ریکارڈنگ نہیں کی جاسکی۔ اِس قدر ضعیفی کے باوجود تقریب میں شرکت کی۔ ہم نے ٹرانسپورٹ کا بندوبست کردیا تھا، وہ حیدرآباد سے نکاح پڑھانے کراچی آئے اور رات ہی میں واپس چلے گئے۔
تین سال قبل خبر سُنی کہ وہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ ؎حق مغفرت کرے، عجب آزاد مرد تھا۔اِن جیسی عبقری شخصیات سے متعلق یہی کہا جاسکتا ہے ؎’’وے صورتیں الٰہی کس دیس بستیاں ہیں…اب جن کے دیکھنے کو آنکھیں ترستیاں ہیں۔‘‘ سُنتے ہیں، کسی شاعر کا ایک شعر بھی زبان زدِ عام ہو جائے، تو وہ مستند شاعر سمجھا جاتا ہے۔
یہاں سیکڑوں نہیں، ہزاروں ایسے شعراء گزرے ہیں، جن کا ایک مصرع بھی قابلِ اعتنا نہیں ٹھہرا، مگر عنایت صاحب کے تو اَن گنت اشعار مقبولِ عام ہوئے، خصوصاً اُن کا یہ شعر تو شاید روزِ حشر تک اُنھیں ادبی دنیا میں زندہ رکھے گا؎’’حادثے سے بڑا سانحہ یہ ہوا…لوگ ٹھہرے نہیں، حادثہ دیکھ کر۔‘‘