آج سے تین سال پہلے، ہم نے جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ (JWST) کی شاندار لانچنگ کا مشاہدہ کیا، جو انسانیت کی جانب سے خلا میں بھیجی گئی سب سے بڑی اور طاقتور ٹیلی اسکوپ ہے۔ تیس سال کی محنت کے بعد بنی یہ ٹیلی اسکوپ صرف تین سالوں میں ہماری کائنات کے بارے میں سمجھ بوجھ کو انقلاب دے چکی ہے۔
یہ ہمارے نظام شمسی کی تحقیق کرچکی ہے، دور دراز سیاروں کی فضا کا مطالعہ کیا، تاکہ زندگی کے آثار ڈھونڈے جا سکیںاور ان گہرائیوں تک پہنچ چکی ہے۔ جہاں کائنات کی ابتدائی ستارے اور کہکشائیں وجود میں آئیں۔ یہاں وہ سب کچھ ہے جو جیمز ویب ٹیلی اسکوپ نے کائنات کے ابتدائی دور کے بارے میں ہمیں سکھایا ہے اور وہ نئے اسرار جو اس نے ظاہر کیے ہیں۔
ستاروں اور کہکشاؤں کی تشکیل کا مطالعہ
جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کی ایک اہم کامیابی ستاروں اور کہکشاؤں کی تشکیل کے پیچیدہ عمل کو سمجھنا ہے۔ یہ دوربین کائنات کے ابتدائی دور میں جھانک کر ان عوامل کا تجزیہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے جنہوں نے کہکشاؤں، ستاروں، اور سیاروں کی تخلیق میں اہم کردار ادا کیا۔ اس عظیم دوربین نے اپنی جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ابتدائی کہکشاؤں میں موجود دھول اور گیس کے کلاؤڈز کا مشاہدہ کیا ہے، جو ستاروں کی پیدائش کا گہوارہ ہیں۔
ان مشاہدات سے معلوم ہوا کہ کہکشاؤں کے ابتدائی مراحل میں ستارے بننے کی شرح آج کے مقابلے میں کہیں زیادہ تھی۔ یہ دریافت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ ابتدائی کائنات میں توانائی اور مادّے کی دستیابی زیادہ تھی، جس کی وجہ سے ستاروں کی پیدائش تیزی سے ہوئی۔ اس کے علاوہ جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ نےکہکشانی مرکزوں میں موجود سپرماسو بلیک ہولز اور ان کے گرد گھومتے ہوئے ستاروں اور گیس کے ڈسکوں کا بھی مطالعہ کیا۔
ان مشاہدات نے یہ واضح کیا کہ بلیک ہولز نے کہکشاؤں کی ساخت اور ارتقا میں اہم کردار ادا کیا۔ ستاروں کی تخلیق کے علاوہ، یہ دوربین ان دھماکوں کا بھی مشاہدہ کر سکتی ہے جو سپرنووا کے نتیجے میں ہوتے ہیں۔ سپرنووا وہ عمل ہے، جس میں ایک ستارہ اپنی زندگی کے اختتام پر پھٹتا ہے اور بھاری عناصر، جیسے لوہا اور آکسیجن، خلا میں بکھرتے ہیں۔
یہ عناصر نئی کہکشاؤں اور ستاروں کی تشکیل کے لیے ضروری ہیں۔ اس دوربین کے ان مشاہدات نے سائنس دانوں کو ستاروں اور کہکشاؤں کی پیدائش اور ارتقا کے عمل کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دی ہے۔ یہ معلومات اس بات کا پتہ لگانے میں بھی اہم ہیں کہ کائنات میں زندگی کے لیے موزوں ماحول کیسے وجود میں آیا۔
سیاروں کی فضا کا تجزیہ
جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ نے سیاروں کی فضا کے تجزیے میں ایک نئے باب کا آغاز کیا ہے۔ یہ دوربین، دیگر کہکشاؤں اور نظام شمسی سے باہر موجود سیاروں، جنہیں ’’ایگزوپلانیٹس ‘‘کہا جاتا ہے، کی فضا کا مطالعہ کرنے کے لیے بہترین ہے۔ اس نے اپنے اسپیکٹرواسکوپی آلات کی مدد سے کئی ایگزوپلانیٹس کی فضا میں موجود عناصر کا تجزیہ کیا ہے۔ یہ مشاہدات اس بات کا تعین کرنے میں مدد دیتے ہیں کہ آیا کسی سیارے کی فضا زندگی کے لیے موزوں ہو سکتی ہے یا نہیں۔
مثال کے طور پر، اگر کسی سیارے کی فضا میں آکسیجن، میتھین اور پانی کے بخارات موجود ہوں، تو یہ اس بات کا اشارہ ہو سکتا ہے کہ وہاں زندگی کے آثار موجود ہیں۔ ایک اہم دریافت یہ تھی کہ جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ نے ایک ایگزوپلانیٹ کی فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی کے بخارات کے آثار دیکھے، جو وہاں زندگی کے امکانات کی نشاندہی کرتے ہیں۔
مزید برآں، اس دوربین نے زہریلے عناصر، جیسے کاربن مونو آکسائیڈ اور سلفر ڈائی آکسائیڈ، کی موجودگی کا بھی پتہ لگایا، جو کسی سیارے کو زندگی کے لیے غیر موزوں بنا سکتے ہیں۔
اس دوربین نے نہ صرف سیاروں کی فضا بلکہ ان کے موسمی حالات، حرارت کی تقسیم اور سطح کی ساخت کے بارے میں بھی معلومات فراہم کی ہیں۔ یہ تمام مشاہدات اس بات کا تعین کرنے میں مدد دیتے ہیں کہ کائنات میں زندگی کے لیے موزوں حالات کہاں پائے جا سکتے ہیں۔ یہ تحقیق ہماری کائناتی سمجھ بوجھ کو وسیع کرنے کے ساتھ ساتھ انسانوں کے دوسرے سیاروں پر زندگی کی تلاش کے مشن کو بھی تقویت دیتی ہے۔
بلیک ہولز کے رازوں کی نقاب کشائی
بلیک ہولز کائنات کے سب سے پُراسرار اجسام میں سے ہیں اور جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ نے ان کے بارے میں کئی نئے راز دریافت کیے ہیں۔ یہ دوربین بلیک ہولز کے گرد موجود مادّے اور روشنی کے تعامل کا مشاہدہ کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے، جو ان کے طرز عمل کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔جیمس ویب دوربین نے کئی کہکشاؤں کے مرکز میں موجود سپرماسو بلیک ہولز کا مطالعہ کیا ہے۔
ان مشاہدات سے معلوم ہوا کہ بلیک ہولز نہ صرف مادّے کو نگلتے ہیں بلکہ اپنے ارد گرد توانائی کی بہت بڑی مقدار خارج بھی کرتے ہیں۔ یہ توانائی، جسے ’’ایکریشن ڈسک‘‘کہا جاتا ہے، کہکشاؤں کی ساخت اور ستاروں کی تشکیل پر گہرے اثرات ڈالتی ہے۔
ایک اہم دریافت یہ تھی کہ کچھ بلیک ہولز کائنات کے ابتدائی دور میں موجود تھے، جب کہ سائنس دانوں کو یہ توقع تھی کہ وہ بعد میں بنے ہوں گے۔ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ بلیک ہولز اتنی تیزی سے کیسے بنے اور انہوں نے اپنی موجودہ شکل کیسے حاصل کی۔
مزید برآں، جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ نے بلیک ہولز کے گرد موجود گرد و غبار اور گیس کے کلاؤڈز کی تصاویر فراہم کی ہیں، جو ان کے طرز عمل کو سمجھنے میں مدد دیتی ہیں۔ یہ تصاویر بلیک ہولز کی کشش ثقل کی شدت اور ان کے مادّے کے اثرات کے بارے میں اہم معلومات فراہم کرتی ہیں۔ اس دوربین کے ان مشاہدات نے بلیک ہولز کی ساخت، ان کے ارتقااور ان کے ارد گرد موجود کہکشانی ماحول پر ان کے اثرات کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد دی ہے۔
پراسرار نیلے دیو
جیمز ویب ٹیلی اسکوپ نے کائنات کے ان گوشوں تک رسائی حاصل کی ہے جہاں ابتدائی ستارے اور کہکشائیں پائی جاتی ہیں۔ خلا میں اس کی جگہ اور انفرا ریڈ لائٹ کے ذریعے اس کا مشاہدہ ہماری زمین کی فضائی رکاوٹوں سے آزاد ہے۔اب تک سب سے دور کی کہکشاں، جو JWST نے دریافت کی ہے، اُس وقت کی ہے جب کائنات صرف 30 کروڑ سال پرانی تھی۔
حیرت انگیز طور پر، اس مختصر وقت میں اُس کہکشاں نے سورج کے مقابلے میں 40 کروڑ گنا زیادہ ماس پیدا کیا۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ابتدائی کائنات میں ستارے بننے کا عمل نہایت مؤثر تھا۔ اور یہ کہکشاں واحد نہیں ہے۔کہکشائیں جب بڑھتی ہیں تو ان کے ستارے دھماکے کرتے ہیں، جو گرد و غبار پیدا کرتے ہیں۔ لیکن جیمز ویب ٹیلی اسکوپ نے ان ابتدائی کہکشاؤں کو حیران کن حد تک روشن، وزنی اور نیلا دکھایا ہے، بغیر کسی گرد و غبار کے۔ یہ ایک حقیقی معمہ ہے۔
ابتدائی کہکشاؤں کی غیر معمولی کیمیاء
ابتدائی ستارے وہ بنیادی عنصر تھے جن سے زندگی ممکن ہوئی۔ کائنات نے صرف ہائیڈروجن، ہیلیم، اور تھوڑی مقدار میں لیتھیم کے ساتھ آغاز کیا تھا۔ تمام دیگر عناصر ان ستاروں کی گہرائیوں میں پیدا ہوئے۔
جیمز ویب ٹیلی اسکوپ نے دریافت کیا کہ ابتدائی کہکشائیں غیر معمولی کیمیکل خصوصیات رکھتی ہیں۔ ان میں نائٹروجن کی مقدار نمایاں طور پر زیادہ ہے، جب کہ دیگر دھاتیں کم مقدار میں موجود ہیں۔ یہ ظاہر کرتا ہے کہ ابتدائی کائنات میں ایسے عوامل کارفرما تھے جو آج تک ہماری سمجھ سے باہر ہیں۔
کاسمک ڈارک ایجز کا اختتام
جیمز ویب ٹیلی اسکوپ نے یہ بھی دکھایا ہے کہ چھوٹے کہکشائیں، توقع سے زیادہ توانائی والے فوٹون خارج کرتی ہیں۔ یہ اشارہ دیتا ہے کہ ان چھوٹی کہکشاؤں نے’’کاسمک ڈارک ایجز‘‘ کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا ہوگا۔
پراسرار سرخ نقطے
جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کی ابتدائی تصاویر نے ’’چھوٹے سرخ نقطے‘‘ دریافت کیے، جو انتہائی کمپیکٹ اور سرخ رنگ کے ہیں۔ ابتدائی طور پر یہ انتہائی گنجان کہکشائیں سمجھی گئیں، لیکن بعد کی تحقیق نے ان کے پراسرار اور متضاد خواص ظاہر کیے کہ یہ نقطے نہ صرف ستارے بلکہ شاید سپر ماسیو بلیک ہول بھی ہوسکتے ہیں، ایک نیا سوال اٹھاتا ہے۔
کائنات کی ابتدائی مردہ کہکشائیں
جیمز ویب ٹیلی اسکوپ نے ان کہکشاؤں کو بھی دریافت کیا جو اپنی زندگی کے ابتدائی دور میں ہی ’’مردہ‘‘ ہوچکی تھیں۔ یہ کہکشائیں نہایت وزنی تھیں اور کائنات کی تاریخ کے پہلے 70 کروڑ سالوں میں ہی وجود میں آئی تھیں۔یہ دریافتیں موجودہ کاسمولوجیکل ماڈلز کو چیلنج کرتی ہیں اور کائنات کی ابتدائی تاریخ کے بارے میں نئے سوالات اٹھاتی ہیں۔
آگے کا راستہ
جیمز ویب ٹیلی اسکوپ کے ابتدائی نتائج نے ہماری موجودہ ماڈلز میں موجود خامیوں کو ظاہر کیا ہے۔ لیکن سب سے دلچسپ وہ چیزیں ہیں جو ابھی تک ہماری نظروں سے اوجھل ہیں۔ کیا خلا کے گہرے اندھیروں میں کچھ اور بھی چھپا ہوا ہے؟
جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ اور زندگی کی تلاش
جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ کائنات میں زندگی کے آثار کی تلاش میں ایک اہم سنگ میل ہے۔ یہ دوربین نہ صرف ہماری کہکشاں بلکہ دیگر کہکشاؤں میں بھی ممکنہ زندگی کے لیے موزوں سیاروں اور ان کے ماحول کا تجزیہ کرنے میں مددگار ہے۔
کہکشاؤں کے جھرمٹ اور ان کے اثرات
اس دوربین نے کہکشاؤں کے جھرمٹ کا تجزیہ کیا ہے، جو کائنات کے سب سے بڑے ثقلی ڈھانچے ہیں۔ یہ جھرمٹ اربوں کہکشاؤں، گیس کے بادلوںاور تاریک مادّے پر مشتمل ہوتے ہیں۔ دوربین کے ذریعے حاصل کی گئی تصاویر نے دکھایا کہ کس طرح یہ جھرمٹ کائنات کے ارتقا میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
تاریک مادّے کی کھوج
اس نے کشش ثقل کے عدسے (Gravitational Lensing) کی مدد سے تاریک مادّے کے اثرات کا مطالعہ کیا۔ یہ وہ پراسرار مادّہ ہے جو روشنی کو منعکس یا خارج نہیں کرتا، لیکن کشش ثقل کے ذریعے قابلِ مشاہدہ ہوتا ہے۔ یہ تحقیق کائنات کی تشکیل اور ارتقا کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے۔
ستاروں کے ماحول میں تبدیلیاں
دوربین نے ستاروں کے گرد موجود سیاروں اور دیگر اجسام کے ماحول کا مطالعہ کیا ہے اور ان کے ارتقا کے ساتھ ستاروں کے ماحول میں ہونے والی تبدیلیوں کو ریکارڈ کیا ہے۔ یہ معلومات ستاروں کی زندگی کے دوران ہونے والی تابکاری کے اثرات اور سیاروں کی حالت میں ہونے والی تبدیلیوں کو بہتر طور پر سمجھنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔
کائناتی بگ بینگ: نئی تفصیلات
جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ نے بگ بینگ کے بعد کی ابتدائی کائنات کا مطالعہ کرنے کے لیے نئی تیکنیکیں فراہم کی ہیں، جن سے سائنسدانوں کو کائنات کے آغاز اور اس کی ابتدا کی نوعیت کے بارے میں بہتر معلومات حاصل ہوئی ہیں۔
کائنات کی ابتدائی حالت
دوربین نے بگ بینگ کے فوراً بعد کی ابتدائی کائنات کے آثار کی شناخت کی ہے۔ اس نے کائنات کے انتہائی ابتدائی مراحل میں موجود گلیکسیوں اور ستاروں کے نشانات کا پتہ لگایا ہے، جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ کائنات کیسے ارتقا پذیر ہوئی اور اس کی موجودہ حالت تک پہنچی۔
کائنات کی رفتار
اس دوربین نے یہ بھی پتہ چلایا ہے کہ کائنات کا پھیلاؤ کس رفتار سے ہوا۔ یہ تحقیق بگ بینگ کے فوراً بعد کے دور میں موجود مادّے کی تقسیم کو سمجھنے میں مدد دیتی ہے اور یہ اس بات کا تعین کرتی ہے کہ کائنات کا پھیلاؤ اب بھی جاری ہے۔
پانی اور دیگر کیمیائی اجزاء
دوربین نے ایگزوپلانیٹس کی فضاؤں میں پانی کے مالیکیولز، میتھین اور دیگر کیمیائی اجزاء کی موجودگی کا مشاہدہ کیا ہے۔ یہ اجزاء زندگی کے لیے ضروری ہوتے ہیں اور ان کا پتہ چلنا اس بات کا عندیہ دیتا ہے کہ ان سیاروں پر زندگی کی موجودگی ممکن ہو سکتی ہے۔
سیاہ توانائی کا پھیلاؤ
دوربین نے سیاہ توانائی کی موجودگی کا بھی پتہ چلایا ہے۔ سیاہ توانائی وہ قوت ہے جو کائنات کے پھیلاؤ کو تیز کرتی ہے۔ اس کی تحقیق نے کائناتی پھیلاؤ کی رفتار اور اس کے مستقبل کے بارے میں اہم معلومات بھی فراہم کی ہیں۔