• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1863میں چٹانی تیل وگیس یا پیٹرولیم بننے کے حوالے سے یہ حقیقت سامنے آچکی تھی کہ اس کی جزوترکیبی میں کاربن اکثریت میں اور ہائیڈروجن اقلیت میں موجود ہوتا ہے جب کہ نائیٹروجن، آکسیجن اور سلفر کی شمولیت بھی ہوتی ہے۔ ان معلومات کو1932میں جب سائنسی حلقوں کی جانب سے تائید حاصل ہوئی تو بین الاقوامی طور پر اس کی اہمیت دوچند ہوگئی۔ 

جب کہ دورِ حاضر میں ہونے والی تحقیقات نے حتمی طور پر اس حقیقت کو ثابت کردیا ہے کہ اس کے بننے میں ایسے مرکبات نے حصہ لیا ،جس میں کاربن اور ہائیڈروجن لازمی جز کے طوپر پر موجود ہوتے ہیں۔ یہ نامیاتی اشیاء ہوتے ہیں اور ’’ ہائیڈروجن کاربن‘‘ کہلاتے ہیں جو انواع واقسام کے جانداروں میں پائے جاتے ہیں ۔مثلاً :پیرافین اور میتھین وغیرہ یہ دونوں ہائیڈروجن کے اہم ذیلی شاخ سے منسلک ہوتے ہیں ،جس کے ہر ایک زنجیر میں موجود کاربن کے سالمات ہائیڈروجن کو جوڑے رکھتا ہے۔ 

چناں چہ یہ ہائیڈروجن اور اس سے تعلق رکھنے والے دیگر مرکبات کی مقدار تمام نامیوں میںپائے جاتے ہیں۔ یعنی الجی سے چٹانی تیل وگیس میں اس قسم کے مرکبات کی موجودگی ان حقائق کی تصدیق کرتے ہیں کہ یہ حیاتی زندگی کے محاصل سے ملکر بنے ہیں جو دراصل ماضی کی باقیات ہوتے ہیں جو ہزاروں فٹ چٹانوں کی موٹی موٹی تہوں کے درمیان بروقت گلنے سڑنے سے پہلے قید ہوگئے اور رسوب میں ایک لمبی مدت( ملین سال) اور پیچیدہ حیاتی کیمیائی تعامل کے توسط سے تبدیل ہوتے گئے، جس کی وجہ سے تمام ہائیڈروکاربن کے باقیات سیاہ رنگ کے ایک گاڑھے مائع اور مخصوص بوکی حاصل گیس میں زیر زمین ذخیرے میں تبدیل ہوگئے۔ آج اس مائع اور مخصوص بووالی گیس کو پیٹرولیم یا خام چٹانی تیل وگیس کہتے ہیں جو پیٹرول حاصل کرنے کا ایک اہم ترین ذریعہ ہے۔

یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ کروڑوں سال پہلے نامیاتی اشیاء یعنی ہائیڈروکاربن مرکبات کو خام تیل وگیس کی صورت میں تبدیل ہونے کے لئے جس مقام اور ماحول میںدرکار ہوتی تھیں وہ آج بھی اپنی جگہ مسلم ہے ،جس میں کئی ابتدائی پہلوؤں کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ،جس میں نامیوں کی کثیر پیداواریت کے مقام کا تعین اور نامیاتی باقیات کا تحفظ شامل ہے۔

جہاں تک ہائیڈروکاربن کی پیداواریت کا تعلق ہے تو حیاتی زندگی وہاں کثرت سے پائے جاتے ہیں جہاں سورج موجود ہوتا ہے کہ حرارت اور توانائی حاصل ہوتی رہتی ہے۔ اس حوالے سے سمندر، جھیل اور ڈیلٹائی زوب میں نامیاتی پیداواریت کی کثرت ہوتی ہے ،کیوںکہ یہاں سورج کی روشنی اور درجہ ٔحرارت کی وجہ سے’’ ضیائی تالیف‘‘ کا عمل ہوتا رہتا ہے۔ یہ فوٹو زون کہلاتا ہے۔

1940-1950تک ساحلی زون(جہاں خشکی اور پانی کا باہم ملاپ ہوتا ہے) سے لیکر آگے کھلے سمندر میں بر اعظمی تختہ(Continental shelf)گہرائی 0-200میٹر تک اور براعظمی ڈھلوانContinental Slope)200-900میٹر کی گہرائی کے درمیان علاقوں سے نمونوں کا تجزیہ کیا گیا تو یہ بات سامنے آئی کہ زیادہ ترنامیاتی اشیاء ’’ براعظمی ڈھلوان‘‘ سے وابطہ ہوتا ہے، کیوں کہ سمندر کی اس گہرائی سے غذائیت کی بھاری مقدار دوبارہ چکر سے گردش کرتے ہوئے اوپر ’’ براعظمی تختہ ‘‘ تک رسائی حاصل کرتی رہتی ہے۔ 

یہ غذائیت سمندری نامیوں سے وقوع پذیر ہوتے ہیں۔ غذائیت عام طور پر نائیٹریٹ فاسفیٹ نوعیت کے ہوتے ہیں جو پانی کے مسلسل سپلائی کی وجہ سے جاری ہوتے ہیں۔ پرسکون سمندر بلند پیداواریت کے حامل نہیں ہوتے ۔جہاں بڑے اور کئی دریا سمندر سے ملتے ہیں اور جہاں پہ ساحلی مشرقی عمل شب وروزجاری رہتا ہے۔

موجودہ دور کے رسوب پر گلف آف میکسیکو میں کافی ریسرچ کی جارہی ہے ،جس میں سے یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ سمندر کے قریب علاقوں میں نامیاتی زندگی مثلاً :سمندری تیراکے ( زوپلانگٹن اور فائی نگٹن) ڈایٹمز اور ریوڈیولیرین سمندر میں نامیاتی اشیاء کے ایک اہم تخلیق کار ہوتے ہیں جن کی وجہ سے قدیم اور جدید قسم کے چٹانوں میں نامیاتی باقیات پائے جاتے ہیں جو ایک سیاہ تا بھورا نامیاتی محاذ ہوتا ہے جو باریک دانے شیل جیسی چٹان میں پیوست ہوتا ہے جسے گرم کرنے یا کسر کشیدگی کرنے پر مائع خام تیل کا اخراج ہوتا ہے۔ 

اس وجہ سے اسے ’’ آئل شیل(Oil Shale) یا کیروجن کہتے ہیں جوتیل وگیس کے بننے کے حوالے سے ابتدائی ماخذ (Source Material)ہوتا ہے۔ سب سے معیاری قسم کا ’’آئل شیل ‘‘ گرین دریا فارمیشن امریکا میں پایا جاتا ہے جو مجموعی طور پر40,000اسکوائر کلومیٹر کے رقبے کا احاطہ کرتا ہے، جس میں مچھلی کے رکاندلی ڈھانچے اور دیگر نامیاتی اجزاء الجی اور دوسرے نامیوں کے توسط سے شامل ہوئے جنکی افزائش ’’ ایوسین‘‘(Eocene)دور کے جھیل میں ہوئی تھی۔ 

پاکستان میں بھی بالائی انڈس طاس فارمیشن میں آئل شیل کی موجودگی کی مناسبت سے ابتدائی ماخذ مواد کے طور پر تسلیم کیا گیا ہے، جس میں کل نامیاتی اجزاء کی مقدار30فی صد اور اس سے20فی صدتیل کی دستیابی ممکن ہے۔ لیکن یہ ابتدائی ماخذ مواد اس وقت بنتا ہے جب پیداواریت اور نامیاتی باقیات کے درمیان تکسیدی اور تحقیقی ماحول میں توازن برقرار ہو۔ 

تکسیدی ماحول میں آئل شیل کی ابتدائی تحلیل کا عمل خورد حیاتیاتی سرگرمیوں کی مدد سے ہوتا ہے ،جس میں فنجی، پروٹوزوا اور خاص طور پر آکسیجن کی موجودگی میں افزائش پانے والا بیکیٹریا ملوث ہوتے ہیں جس کو ’’ تنفیسی بیکیٹریا‘‘(Aerobic Bacteria)کہتے ہیں۔ تکسیدی ماحول میں تیزی کے ساتھ ہونے والی زوال پذیری انہی بیکیٹریا کے نشوونما ہونے کی وجہ سے ہوتی ہے۔ 

تکسیدی ماحول میں یہ تمام نامیے بہت فعال ہوتے ہیں، خاص طور پر موٹے دار داریت میں جہاں آکسیجن5-20سینٹی میٹر تک سرائیت ہوسکتی ہے جب کہ باریک دانے دار شیل اور کاربونیٹ مڈ کے مسام اتنے باریک ہوتے ہیں کہ پانی کی گردش اور نفوذیت متاثر کن نہیں ہوتی کہ وہ مزید آکسیجن کو شامل کرسکے جب کہ اصل آکسجین جومسام میں پہلے سے موجود ہوتے ہیں وہ سب کے سب استعمال ہوجاتے ہیں۔ 

اس طرح رسوب کا ہر مسام بند اور ادنیٰ آکسجین سسٹم میں داخل ہوجاتا ہے جہاں اوپر تلے رسوب کے بار بار جمع ہونے کی وجہ سے تحلیل ہوتا ہوا کیروجن گلنے سڑنے سے تحفظ حاصل کرلیتا ہے کیونکہ وہ ایسے ماحول میں چلا جاتا ہے جہاں’’ غیر تنفسی بیکیٹریا جنم لیتا ہے جو آزاد فضا میں زندہ نہیں رہ سکتا۔ 

ان کی نشوونما آکسیجن کی غیر موجودگی اور رسوبات کی دھیر ازائی (Diagenesis) کے دوران ایم تخفیفی عامل بن جاتا ہے اور رسوبات میں دب جانے کے باوجود کافی حد تک عمل کرتا رہتا ہے ،کیوںکہ سطح سمندر کے نیچے آکسیجن کی فراہمی منقطع ہوجاتی ہے۔ اس صورت حال میں آئل شیل کو تیل وگیس میں تبدیل ہونے کے لئے درجۂ حرارت ، دباؤ اور ایک لمبی مدر درکار ہوتی ہے۔ 

عام طور پر50-70ڈگری سی  (زیرزمین) اور1-2کلو میٹر دباؤ (گہرائی) میں کیروجن بہت سست رفتاری سے مائع گیس ہائیڈروکاربن میں تبدیل ہوتا ہے جب کہ 130-80ڈگری سی اور3-4کلو میٹر تیل وگیس بننے کے حوالے سے مثالی ہوتا ہے، جس کی وجہ سے آئل شیل یا کیروجن پختگی کے مرحلہ میں داخل ہوجاتا ہے جب کیروجن پختگی کے مرحلے کو مکمل کرلیتا ہے تو اس کی ساختی اجزاء یعنی فیٹی ایسڈ اور پروٹین وغیرہ آزاد ہوکرمائع گیس میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ 

اس تبدیلی کے دوران پانی اور کثیر آکسیجن والے مرکبات آزاد ہوتے ہیں۔ اس کے بعد ہائیڈروجن والے مرکبات یعنی ہائیڈروکاربنز اس صورت حال میں کیروجن کاربن میں خود کفیل ہوجاتا ہے۔ جب کہ باقیاتی کیروجن کا رنگ پیلے سے نارنجی، بھورا اور آخرکار سیاہ رنگ غالب آجاتا ہے۔ اس باقیاتی کیروجن کی تبدیلی کا انحصار ارضیاتی عمر پربھی ہوتا ہے۔

مثلاً ایک باقیاتی کیروجن 90ڈگری سی پر50ملین سال تک کا عرصہ گزارتا ہے تو وہ زیادہ پختہ ہوجائے گا۔ نسبتاً اسی درجۂ حرارت پر10ملین سال کا عرصہ گزارنے والے کیروجن کے مقابلے میں کیونکہ جتنا زیادہ عرصہ یہ ماخذ مواد تخفیفی ماحول سے گزرےگا اتنا ہی زیادہ معیاری تیل وگیس تیار ہوگا جو نیلے شعلے کے ساتھ جاتا ہے۔ 

خام تیل گیس بننے کی ابتدا اسی قسم کے ماخذ مواد سے ہوتی ہے جو شیل جیسی ماخذ چٹان(Sorce Rock)میں مربوط ہوتی ہے لیکن اس کی تکمیل ذخیرہ اندوز چٹانوں میں ہوتی ہے، کیونکہ یہ منسلک مسام اور نفوذ پذیری کی حامل ہوتی ہیں۔ 

مثلاً ریت پتھریا پھر دراڑزدہ چونا پتھر۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا بھر میں60فی صد تیل وگیس کے ذخائر ریت پتھر سے حاصل کیا جارہا ہے جب کہ40فی صد کاربونیٹ ذخیرہ چٹانوں سے حاصل کیا جارہا ہے۔ یہ وہ مخصوص چٹانیں ہوتی ہیں جو ماخذ چٹان سے مختلف ہوتی ہیں ،کیوںکہ ماخذ چٹان جذب تو کرتی ہیں لیکن نفوذ نہیں کرتیں جب کہ ذخیرہ اندوز چٹان جذب بھی کرتیں ہیں اور نفوذ بھی۔ 

اس کا مطلب تو یہ ہے کہ ماخذ چٹان سے تخلیق پانے والا سیاہ سیال ہجرت کرکے ذخیرہ اندوز چٹان میں خام تیل وگیس کی صورت میں ذخیرہ ہوا۔ اسے بڑی حد تک درست بھی تسلیم کیا جاتا، کیوںکہ جب ماخذ چٹان میں کیروجن کی تخلیق ہوتی ہے تو ہائیڈروکاربن مرکبات سیال کی صورت میں آخرکار پھیل جاتا ہے یا پھر کثیر نامیاتی تہہ کی شکل میں مرکوز ہوجاتا ہے۔

یہ تیل گیس بننے کی پہلی منزل ہوتی ہے جو ماخذ چٹان میں فعال ہوکر حجم میں اضافہ کرتا ہے جو مساوی دباؤ(Pore Pressure)اوپری دباؤ تیل وگیس کے نیچے موجود رکازی پانی(Fossil Watar)کی قوت اچھال اور درجہ ٔحرارت کی شدت سے پانی کے پھیلاؤ کے نتیجے میں پانی کے سالمات گرم ہوکر پھیلتے ہیں، جس کی وجہ سے ہائیڈروکاربنز قطروں کی شکل میں مساموں سے باہر نکلتا ہے، جس کا رحجان زیادہ دباؤ سے کم دباؤ والے زون کی طرف ہوتا ہے۔ اسی دوران دباؤ کی شدت کی وجہ سے چٹان میں دراڑیں نمودار ہوجاتی ہیں جو تیل وگیس کی منتقلی میں مدد گار ثابت ہوتی ہیں۔ 

چناں چہ جب ماخذ چٹان کے مسام اور دراڑ میں پوری طرح مائع گیس سے سیر شدہ ہوجاتی ہیں تو یہ ذخیرہ اندوز چٹان کی تلاش میں سرگرداں ہوجاتے ہیں لیکن اس کے ہجرت کرنے مسافت کا انحصار ایک ذخیرہ اندوز چٹان کی موجودگی پر ہوتا ہے جو ایک خطہ سے دوسرے خطہ ایک ریاست سے دوسرے ریاست یا پھر ایک براعظم سے دوسرے براعظم تک ہوسکتا ہے، تاوقت یہ کہ کوئی مکمل ذخیرہ اندوز چٹان مدمقابل نا آجائے۔ 

مکمل ذخیرہ اندوز چٹان سے مراد نفوذ پزیری کی شرح 10فی صد سے زیادہ اور موٹائی بھی10فی صد سے زیادہ جب کہ ساخت کے حوالے سے خمیدہ (Folded) ہو، جس کے انتہائی بالائی جانب (کرسٹ) ایک حفاظتی غلاف(Cap Rock)کی موجودگی انتہائی اہمیت کی حامل ہوتی ہے۔ مثلاً: شیل چیسپم کیونکہ یہ غیر نفوذ پذیر ہونے کی وجہ سے تیل وگیس کی بالائی ہجرت کوروک دیتا ہے اور تیل وگیس پوری ذخیرہ اندوز چٹان میں مرکوز (کثافت کی بنیاد پر) ہوکر معاشی طور پر سود مند ذخائر کی تشکیل کرتے ہیں۔

اگر کسی بھی وجہ سے حفاظتی تہہ غیر موجود ہو، تسرف زدہ ہوتو خام تیل وگیس سطح زمیں پرایک تالاب کی صورت میں بہتا ہوا نظر آتا ہے جیسا کہ پاکستان کے شہر میانوالی سے کئی کلومیٹر دور ’’ کندل‘‘ کے مقام پر عملی طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

آج سے تقریباً ایک صدی قبل ماہرین نے زمین کھود کر(ڈرلنگ) نہ صرف تیل گیس نکالنےکا ہنر دریافت کیا بلکہ اس کوصاف کرکے اس میں موجود پیٹرول، موم اور اسفالٹ ، کیروین تیل اور ؟؟جیسے کار آمد اجزا کو انفرادی طورپر الگ کرنے کا میگنیزم بھی سیکھ لیا۔ آج تیل وگیس کے بغیر دنیا کا کوئی بھی کارخانہ، گاڑیاں اور صنعتیں نہیں چل سکتیں۔ 

اسی وجہ سے پیٹرولیم کے مستقبل کوتابناک اور تحفظ فراہم کرتا اشد ضروری ہے اور اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے جب نئے ذخائر کی دریافت عمل میں آئے اور ریاست میں امن و استحکام موجود ہو لیکن بعض اوقات نئی دریافت بھی بین الاقوامی حالت کے نظر ہوجاتی ہیں۔

سائنس اینڈ ٹیکنالوجی سے مزید
ٹیکنالوجی سے مزید