(گزشتہ سے پیوستہ)
ہر حکومت پیکا ایکٹ میں اپنی ضروریات و مجبوریوں کو پیش نظر رکھ کر اس قانون میں تبدیلیاں لائی لیکن تا حال سوشل میڈیا پر ہونے والی ’’دہشت گردی‘‘ پر قابو نہیں پا سکی۔ حکومت سوشل میڈیا پر ہونے والی ’’دہشت گردی‘‘ سے عاجز تھی ہی لیکن اس نے اس کی آڑ میں الیکٹرانک میڈیا کو بھی لپیٹ میں لینے کی شعوری کوشش کی ہے جس کی وجہ سے صحافتی تنظیموں کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔ سوشل میڈیا کو اپنے مذموم مقاصدکیلئے استعمال کرنے والے با آسانی قانون کی گرفت میں نہیں آتےکہ ان کی ایک بڑی تعدادبیرون ملک فرار ہو گئی ہے اور آزاد فضاؤں جہاں ان کو کھلی چھٹی ہے پاکستان میں اپنے اہداف کیخلاف سوشل میڈیا کا بھرپور استعمال کرتے ہیں سرکاری ذرائع کے مطابق اب تک سائبر کرائم میں 169افراد کو سزا دلوائی جا سکی ہے، اس قانون کی گرفت میں آنے والے بیشتر ملزمان کو سزا نہ مل سکی وہ کسی نہ کسی بہانے قانون کی گرفت سے بچ جانے میں کامیاب ہوتے رہے ہیں پچھلے پانچ سال میں ہرروزسائبرکرائم کے بارے میں 1561افراد کی شکایات موصول ہو رہی ہیں یعنی ہر ایک گھنٹے میں اوسطاً 65درخواستیں دائر کی جاتی ہیں سائبر کرائم میں کم و بیش 11ہزار افراد کو گرفتار کیا گیا جن میں صرف گنتی کے افراد ہی سزا پا سکے ہیں سائبر کرائم میں مالیاتی فراڈ بھی شامل ہے اب تک 600ارب روپے کے مالیاتی فراڈز کے بارے میں ایف آئی اے کو ساڑھے چار لاکھ درخواستیں موصول ہوئی ہیں لیکن بہت کم لوگوں کو انصاف ملا ۔ پاکستان میں پچھلے پانچ سال میں سات لاکھ درخواستیں جھوٹی خبروں، توہین مذہب و توہین رسالت کے حوالوں سے دائر کی گئیں لاکھوں کی تعداد میں درخواستیں موصول ہوتی ہیں لیکن تحقیقات کیلئے ایف آئی کے پاس صرف 391افراد پر مشتمل عملہ ہے جس میں 21افسران ہیں جو انکوائری کرنے کی صلاحیت ہی سے محرو م ہیں پچھلے 5سال کے دوران درخواستوں پر 73ہزار انکوائریاں ہوئیں 5200مقدمات درج کئے گئے لیکن نتیجہ صفر رہا 2024میں ایک اعشاریہ 2فیصد یعنی صرف 22ملزمان کو سزا دلوائی جا سکی اس مقصد کیلئے عدالتیں ہی قائم نہیں ہو سکی ہیں۔ پی ٹی اے نے سوشل میڈیا کے اداروں کو 13لاکھ پوسٹس ہٹانے کیلئے کہا جن میں سے ایک لاکھ توہین مذہب اور 2لاکھ ریاستی اداروں کے خلاف ہیں لیکن اس کی11فیصد درخواستوں کو قبولیت حاصل ہوئی ہے۔
پیکا ایکٹ میں راتوں رات ترامیم کرکے ملک میں ایک ہیجان کی کیفیت پیدا کر دی گئی کہا جاتا ہے کہ جب یہ بل قومی اسمبلی میں ٹیبل کیا گیا اس وقت تک وفاقی حکومت کے متعلقہ وزراء کو اس قانون کی تفصیلات کا ہی علم نہیں تھاچونکہ حکومت کو پیکا ایکٹ میں ترامیم کا ٹاسک دیا گیا تھااس میں ’’زیر، زبر، فل اسٹاپ اور کامہ‘‘ تک تبدیل کرنے کی اجازت نہیں تھی لہٰذا بل کو کچھ دیر کیلئے موخر کرنے کی بجائے عجلت میں قومی اسمبلی اور سینیٹ سے منظور کرا لیا گیا صحافتی تنظیموں کو اعتماد میں نہ لینے سے آج ملک بھر میں ایجی ٹیشن کا ماحول پیدا ہو گیا ہے پورے ملک میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔
پیکا ایکٹ میں کی گئی ترامیم کے مطابق میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی قائم کی جائے گی جس کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہو گا صوبائی دار الحکومتوں میں بھی دفاتر قائم کئے جائیں گے ریگولیٹری اتھارٹی لوگوں کی آن لائن سیفٹی کو یقینی بنائے گی ملک میں غیر قانونی اور جارحانہ مواد کو ریگولیٹ کرے گی اور ملک میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو رجسٹر، توسیع، معطل یا رجسٹریشن منسوخ کرنے کی مجاز ہو گی۔ اس بل پر عمل نہ کرنے کی صورت میں اتھارٹی سوشل میڈیا کو وقتی طور پر یا مستقل طور پر بلاک کر سکے گی سوشل میڈیا کانٹینٹ سے متعلق ہدایات دینا اور معیار مقرر کرنا بھی اس اتھارٹی کے اختیارات اور ذمہ داریوں میں شامل ہے خلاف ورزی کرنے کی صورت میں قید و جرمانہ کی سزا تجویز کرنا بھی اس اتھارٹی کا کام ہو گا غیر قانونی مواد کو بلاک کرنے کے لئے یہ اتھارٹی متعلقہ اتھارٹیز کو ہدایات دے سکے گی کانٹینٹ بلاک کرنے کی مدت 30یوم ہو سکتی ہے اس میں تیس دن کا اضافہ بھی کیا جاسکتاہے آن لائن سیفٹی کو یقینی بنانے کے لئے یہ اتھارٹی دیگر بین الا قوامی ایجنسیز کے ساتھ کام کر سکے گی اس طرح ریگولیٹری اتھارٹی کو بے پناہ اختیارات دے دئیے گئے ہیںواٹس ایپ پر کوئی پیغام، فیس بک پر لگائی کوئی تصویر یا انسٹا گرام پر شیئر کی گئی معلومات کسی شخص کو جیل بھجوا سکتی ہیں۔ فیک نیوز کی کوئی تشریح نہیں کی گئی ہے ۔سوال یہ ہے کہ ’’فیک نیوز‘‘ کی تشریح کون کر ے گا اس کا اختیار کس کو دیا جا رہا؟ کیا نئی ریگولیٹری اتھارٹی کو اس بات کا اختیار دیا جا رہا ہے جس کے ارکان کا صحافت سے دور دور تک کا واسطہ نہیں۔ اس اتھارٹی میں اسٹیک ہولڈرز کی کوئی نمائندگی نہیں در اصل حکومت فیک نیوز کی تشریح کئے بغیر اظہار رائے کی آزادی کو ختم کرنا چاہتی ہے۔ حکومت ترمیم شدہ قانون کی آڑ میں میڈیا کو اپنے انتقام کا نشانہ بنا سکتی ہے۔ ہر وقت الیکٹرانک میڈیا کے سر پر پیکا کی تلوار لٹکتی رہے گی۔ ملک میں فیک نیوز اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے جھوٹا پروپیگنڈا روکنے کیلئے موثر قانون سازی وقت کی ضرورت ہے لیکن اس کی آڑ میں آزادی صحافت پر قدغن لگانے کی کوشش نہ کی جائے۔ پاکستان میں آج بھی ملک کا نظام 1861ء میں بنائے گئے قوانین کے تحت چل رہا ہے لیکن حکومت کی توجہ ان قوانین کو اپ ڈیٹ کرنے کی بجائے میڈیا کو لگام دینے کے قوانین پر مرکوز ہے۔
ترمیم شدہ قانون کے تحت ضروری نہیں کہ قابل گرفت خبر کسی شخص کے بارے میں ہو کسی ادارے، تنظیم یا کمپنی کیخلاف خبر ہو تو وہ اس کے خلا ف کارروائی کے لئے درخواست دے سکتا ہے بلکہ کچھ صورتوں میں غلط خبر یا معلومات کے خلاف کوئی تیسرا شخص بھی درخواست دے سکتا ہے۔ اس قانون کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ فیک نیوز کی تشریح نہیں کی گئی اس قانون میں یہ بھی وضاحت نہیں کی گئی کہ فیک نیوز کا تعین کون کرے گا ممکن ہے جس خبر کو حکومت فیک نیوز کے زمرے میں ڈال رہی ہو وہ خبر دینے والے کی نظر میں درست ہو۔ دراصل شروع دن سےیہ قانون من مرضی کی بنا پر نافذ کیا گیا تھا تاکہ اس کی آڑ میں آزادی صحافت پر قدغن لگائی جا سکے۔ سو پیکا ایکٹ میں ترامیم بھی اسی سوچ کا مظہر ہیں ملک میں ہتک عزت کا قانون پہلے سے ہی موجود ہے سوال یہ ہے ملک میں ہتک عزت کے قانون کی موجودگی میں ایک نئے قانون کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ پاکستان میں عدالتی نظام اس حد تک کمزور ہے کہ ہتک عزت کے مقدمات کا سالہا سال کے فیصلے نہیں کر پاتا اس نظام کو بہتر بنانے کی بجائے ایک نیا قانون بنانے کا کوئی جواز نہیں۔ ہتک عزت کے قانون کے تحت عدالت کی کارروائی مکمل ہونے تک ملزم کے خلاف کارروائی کی اجازت نہیں لیکن اب ہتک عزت کو فوجداری قوانین میں شامل کر لیا گیا ہے۔ (جاری ہے)