ہادیہ عبدالمالک
وہ آہستہ آہستہ قدم اُٹھاتے سیڑھیاں چڑھ رہی تھی۔ اُس کے قدموں کی لڑکھڑاہٹ واضح طور پر محسوس کی جا سکتی تھی۔ اُس کا رُخ چھت کی جانب تھا۔ آنکھیں وحشت زدہ اور چہرہ بے رونق تھا اور اُسے اپنا دَم گُھٹتا ہوا سا محسوس ہو رہا تھا۔ چھت کی طرف قدم بڑھاتے ہوئے بھی اُس کی سماعتوں سے لوگوں کے جُملے ٹکرا رہے تھے۔ ”کیسی بدنصیب لڑکی ہے‘‘، ’’کتنی منحوس لڑکی ہے‘‘، ’’اُف! اتنی بےحیا لڑکی‘‘، ’’اِس کا کردار ہی ٹھیک نہیں‘‘، ’’اِس لڑکی نے تو اپنے والدین کی عزّت خاک میں ملادی۔‘‘
اُس نے کانوں میں سرسراتی آوازوں سے تنگ آکر اپنا سَر زورسے جھٹکا اور چھت کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہونے کے بعد اُسے لاک کردیا۔ وہ عالمِ بےخودی میں چھت کی دوسری جانب بڑھ رہی تھی۔ چاروں طرف سنّاٹا تھا، صرف ہوا سے ہلتے پتّوں کی آواز سُنائی دے رہی تھی۔ اہلِ محلہ کی طرح اُس کے اہلِ خانہ بھی بےخبر سو رہے تھے، لیکن وہ رات کے اِس پہر اپنی زندگی کی بربادی کا ماتم منانے تنہا چھت پر چلی آئی تھی۔
چھت کے کنارے پہنچ کر وہ رُک گئی۔ نگاہیں اُٹھا کراوپردیکھا، تو چاند دکھائی دیا اور نہ تارے۔ پورا آسمان تاریکی میں لپٹا ہوا تھا۔ ”یہ آسمان بھی میرے نصیب کی طرح سیاہ ہے۔‘‘ اُس نے تلخی بَھری مُسکراہٹ کے ساتھ خُود کلامی کی اور پھر آسمان کو دیکھتے دیکھتے اُس کے سامنے ایک ہفتے پہلے کا سارا منظر نامہ جیسے کسی فلم کی طرح چلنے لگا۔
ایک ہفتہ قبل وہ کس قدر خُوش تھی کہ اُس کی زندگی کا ایک نیا باب جو شروع ہونے والا تھا۔ اُس کے ارمانوں کا شہزادہ اُس کا محرم بن کر اُس کی زندگی کا حصّہ بننے جارہا تھا۔ اُس کے ہاتھوں، پیروں میں خُوب منہدی رَچی ہوئی تھی اور وہ خُودکو ہواؤں میں اُڑتا محسوس کررہی تھی۔ اُس کے چہرے پر جھلکتی خوشی دیکھ کر اُس کی ماں کے منہ سے بس یہی دُعا نکل رہی تھی کہ ”میری بچّی کی خوشیاں سدا سلامت رہیں۔“ مگر شاید قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
بارات والے دن وہ سُرخ عروسی جوڑا پہنے شادی ہال میں اسٹیج پر بیٹھی تھی۔ منہدی کا رنگ خُوب گہرا آیا تھا، جسے دیکھ کر اُس کی سہیلیاں اُسے یہ کہہ کہہ کر چھیڑ رہی تھیں کہ ’’تمہیں بہت چاہنے والا شوہر ملا ہے، سسرال میں خُوب ناز اٹھائےجائیں گے۔“ وہ اُن کی باتیں سُن کر شرم سے سُرخ ہوئے جا رہی تھی۔ دفعتاً، ہال میں افراتفری سی پھیل گئی۔
اُس نے نگاہیں اُٹھائیں، تو اپنی ماں کا پھیکا، بےرونق چہرہ دیکھ کراُس کا دِل ڈُوب سا گیا۔ لوگوں کی نگاہیں اُسےاپنے چہرے پر چُھبتی محسوس ہونے لگیں۔ اُس نے اپنے پاس بیٹھی ایک سہیلی کو صُورتِ حال کا جائزہ لینے کے لیے دوڑایا، تو اسی اثنا لوگ اسٹیج کے گرد جمع ہوگئے۔
اُس نے گھبرا کر اپنی ماں کو پُکارا، جو دُور کھڑی دوپٹے کے پلّو سے اپنی بھیگی آنکھیں صاف کر رہی تھی، لیکن وہ اُس کی طرف متوجّہ نہ ہوئی اور پھر لوگوں کی آوازیں بلند ہونا شروع ہوگئیں۔ ”اُف! کیسی بےحیا لڑکی ہے، اپنے ماں باپ کی عزّت کا بھی پاس نہیں رکھا۔ افیئر کسی اور کے ساتھ چلاتی رہی اور شادی کسی اور سے کرنے جارہی ہے…اوبی بی! تمہارے سُسرال والوں نے بارات لے کر آنے سے انکار کردیا ہے۔ اُنہیں تم جیسی بےحیا لڑکی نہیں چاہیے… توبہ، توبہ کیا زمانہ آگیا ہے۔“
لوگوں کی عجیب وغریب باتیں سُن کر اُس کا سَرچکرانےلگا تھا۔ اُسے اپنی سماعتوں پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ اُس کا تو کسی لڑکے کے ساتھ کوئی افیئرنہیں تھا۔ وہ تیزی سےاُٹھی اور دیوانہ وار اپنی ماں کی طرف بھاگی، جہاں اُس کا باپ اور دونوں بھائی بھی موجود تھے۔ ”یہ سب جُھوٹ اور بہتان ہے۔ میرا دامن بالکل صاف ہے۔ میرا کسی لڑکے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔
یہ ضرور کسی کی سازش ہے۔ آپ دوبارہ کال کریں اُن لوگوں کو۔ مَیں اُن کےسامنےقسم اُٹھانے کو تیار ہوں۔ خدارا! میری زندگی برباد ہونے سے بچالیں۔‘‘ اُس نے منہدی سے رنگے ہاتھ جوڑ کر، اپنے سَر جُھکائے کھڑے ماں باپ سے فریاد کی، لیکن وہ قسمت کے مارے آنکھوں میں آنسو لیے بیٹی کو گلے لگا کر محض یہی تسلی دے پائے۔ ”بیٹا! اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ لڑکے والوں نے بارات لانے سے صاف انکار کردیا ہے۔
اللہ جانے یہ آگ کس نے اور کیوں لگائی ہے، شاید ہماری قسمت میں اپنی بیٹی کو عزت وآبرو سے رخصت کرنا لکھا ہی نہیں تھا۔‘‘ اُس کے باپ نے بہت تھکے ٹوٹے لہجے میں کہا، تو وہ جیسے وہیں ڈھیر ہوگئی۔ اُس کے ارمانوں کا اِس طرح خون ہوگا، اُس نے کبھی خواب و خیال میں بھی نہ سوچا تھا۔ اُسے یہ سب کسی بھیانک خواب کی مانند لگ رہا تھا۔
شادی کا گھر ماتم کدے میں تبدیل ہوچُکا تھا۔ لوگ مبارک باد دینے کی بجائے اُس کے والدین کے پاس اظہارِ افسوس کے لیے آرہے تھے اور ساتھ ہی دبے الفاظ میں اُسے ”بدنصیب‘‘ اور ’’منحوس“ جیسے القابات سے نواز کر بھی جارہے تھے اور وہ اپنے کمرے میں بیٹھی خُون کے آنسو پی رہی تھی۔
ایک ہفتے سے یہی سلسلہ چل رہا تھا۔ اب اُس کی ہمّت جواب دے چُکی تھی، تب ہی اُس نے یہ انتہائی قدم اُٹھانے کا فیصلہ کیا۔ وہ اپنے والدین کی مزید رسوائی برداشت نہیں کر سکتی تھی اور نہ ہی اُنہیں دیے جانے والے طعنوں کا بوجھ سہہ سکتی تھی۔
چاروں طرف سنّاٹا تھا۔ کوئی اُسے دیکھنے والا نہ تھا اوراُس کی منزل آنکھوں کے سامنے تھی۔ اُس نے ایک قدم آگے بڑھایا، لیکن پھر یک دَم رُک گئی اور خُود سے گویا ہوئی۔ ”مَیں کیوں یہ انتہائی قدم اُٹھا رہی ہوں؟ جب میرا کوئی قصور ہی نہیں۔ میرا دامن بالکل صاف ہے، تو پھر مَیں خُود کو سزا کیوں دُوں؟ مَیں کیوں لوگوں کی بہتان تراشی کو سچ ثابت کر کے اپنے ماں باپ کو مزید تکلیف میں مبتلا کروں؟ نہیں۔
مَیں ہرگز ایسا نہیں کر سکتی۔ مَیں اپنے غلط فیصلے سے اپنے گھر والوں کو مزید مشکلات میں نہیں ڈال سکتی۔ اُن کم ظرف لوگوں پر دنیا ختم تو نہیں ہوجاتی۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ میرے لائق ہی نہیں تھے، جنہوں نے ایک جھوٹی کہانی پرآنکھیں بند کرکے اعتبار کیا یا پھر خُود ہی یہ رشتہ ختم کرنے کے لیے ایک بہانہ تراشا۔
مَیں، اُن کی خاطر، زندگی جیسی نعمت سے کیوں منہ موڑوں، کیوں رب کی ناشُکری کروں، اپنے لیے ایک حرام موت کا انتخاب کروں۔ نہیں، مَیں آج ہی سے ایک نئی زندگی شروع کروں گی۔‘‘ اُس نے دل ہی دل میں عزمِ مصمّم کیا اور اپنے قدم پیچھے کرلیے۔
وہ چھت کے دروازے کا لاک کھول کر نیچے اُتری، تو لائونج میں اُس کے امّی اور ابّو تہجّد کی نماز ادا کر رہے تھے۔ وہ اُن کے پاس جاکر بیٹھ گئی۔ سلام پھیرتے ہی دونوں نے حیرت سے اسے دیکھا۔ ”بیٹا! تم اِس وقت چھت پر کیا کررہی تھی… خیریت تو ہےناں؟‘‘ ماں کا دل کانپ سا گیا۔ ”جی …سب ٹھیک ہے۔ بس کچھ گُھٹن سی محسوس ہو رہی تھی، تو کچھ دیر کے لیے چھت پر چلی گئی تھی۔‘‘
اُس نےنہایت اطمینان سے جواب دیا اور پھر کچھ توقّف کے بعد اپنے والدین کی طرف دیکھتے ہوئے بولی کہ ’’میرے ساتھ جو کچھ بھی ہوا، مَیں اُسے فراموش کر کے آگے بڑھنا چاہتی ہوں۔ مَیں اپنی زندگی کے نئے باب کا آغاز کرنا چاہتی ہوں۔ لوگوں کے زہریلے رویّوں سے میرا سینہ چھلنی ہے، لیکن مَیں نے اپنا معاملہ ربّ پر چھوڑ دیا ہے اور وہ مُجھے ایک روز ضرور سُرخ رُو کرے گا۔“ یہ کہتے ہوئے اُس نے اپنا سَر، اپنی ماں کی گود میں رکھا اور آنکھیں موند لیں۔ ”ہم تمہارے ساتھ ہیں بیٹا۔
تم اکیلی نہیں ہو۔ مُجھے معلوم ہے کہ میری بیٹی بہت بہادر ہے۔ تم اس مشکل وقت سے نکل جاؤگی ان شاء اللہ تعالیٰ۔ ہمیں اپنے اللہ پر اور اپنی بیٹی پر پورا بھروسا ہے۔“ ابّو نے اُس کے ماتھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے شفیق لہجے میں کہا، تو وہ دھیمی سی مسکراہٹ کے ساتھ دل ہی دل اللہ تعالیٰ کا شُکر ادا کرنے لگی کہ اُس پاک ذات نے اُسے بروقت خودکُشی جیسے حرام فعل سے بچا لیا اور اور اُسے آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔