انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ(آئی ایم ایف) کی ٹیم پھر ہمارا جائزہ لینے۔ ہمیں معیشت سکھانے اور اپنی شرائط ہم پر مسلط کرنے کیلئے موجود ہے۔ ایسی سر زمین، جس کی تہذیبی میراث پانچ سے دس ہزار سال پرانی ہے، جہاں ہمیشہ خوشحالی رہی ہے، جہاں کے حکمران، علماء ،فضلاء، خود اپنی معیشت کو مستحکم کرتے تھے۔ یہاں کی زمینیں کتنے ہزاریوں سے سونا اگلتی آ رہی ہیں۔ یہاں صدیوں سے آبادی میں اضافہ ہوتا آ رہا ہے مگر یہاں کی اراضی نے ہزاروں کیلئے گندم، مکئی، چاول، جوار، باجرہ ،کپاس، گنا پیدا کیا۔ پھر لاکھوں کیلئے۔ پھر کروڑوں کیلئے بھی۔ یہاں کا کسان کبھی مایوس نہیں ہوا۔
قائد اعظم کی قیادت میں جب ہم نے اپنے لیے ایک الگ خطہ ارض حاصل کیا۔ ایک طرف مشرقی پاکستان، ادھر مغربی پاکستان۔ اس وقت مغربی پاکستان نے بھی اناج کے ڈھیر پیدا کیے اور سنہرے بنگال نے پٹ سن، دھان کی دھوم مچائی۔ ہمارے اکابر میں اکنامسٹ بھی تھے ماہرین تعلیم بھی، خصوصی معالج بھی۔ پاکستان کے پہلے دس سال بلند خیالی، اولوالعزمی، جامع منصوبہ بندی کے سال ہیں۔ دونوں بازوئوں میں فصلیں لہلہاتی تھیں، ملوں کی چمنیوں سے دھواں نکلتا تھا، دھاگہ ظہور پذیر ہوتا تھا، کپڑا تھان پر تھان میسر تھا، ان ارادوں کو پہلے سویلین کی جگہ فوج کی حکمرانی سے دھچکا لگا۔ صنعتوں کا پھیلائو ہوا لیکن سیاسی قیادتیں اپنی صلاحیتیں بروئے کار نہ لا سکیں۔ پھر 1971میں سقوط مشرقی پاکستان نے تو معیشت کی پیش رفت، ذہانت کے میرٹ پر استعمال، مستقبل کی روڈ میپ کی منصوبہ بندی سب روک دیئے۔ ایک وقفہ 1971سے 1977 تک سویلین حکمرانی اور جمہوری سسٹم کیلئے آیا۔ پھر وہی طویل فوجی حکمرانی۔ 1985سے سیاسی اور فوجی قیادتوں کا باہمی شراکت۔ ڈالر 15روپے کا تھا، ٹیکسٹائل میں ہم کافی آگے تھے مگر پھر ڈالر کو جو اڑان ملی، پاکستانی روپے کو ڈھلوان۔ آج ہم جہاں کھڑے ہیں، وہاں 2.3 کی شرح نمو کو بھی فتح مندی قرار دیا گیا۔
اب ہم آئی ایم ایف کے مضبوط شکنجے میں ہیں۔ ہم اخلاقی طور پر اور سماجی انداز سے ایسی پستیوں میں تیزی سے پھسلتے جا رہے ہیں کہ اب حمیت نام تھا جس کا وہ ہمارے گھر سے جا چکی ہے۔ اب سیاست کے استحکام کا تصور معاشی استحکام کے بغیر ممکن ہی نہیں ہے۔ ہماری قومی سیاسی پارٹیوں کے پاس اکثر اپنا وزیر خزانہ ہی نہیں ہوتا۔ درآمد کرنا پڑتا ہے یا پھر عالمی بینک اپنے ملازموں کو بھیج دیتا ہے۔ وہ وزارت عظمیٰ کے مسند تک جا پہنچتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے موجودہ پاکستان کو زرعی دولت سے فراوانی سے نوازا ہے۔ ہمارے پاس ریکوڈک کی صورت میں سونے کا خزانہ موجود ہے، تانبا اور دوسری دھاتیں ہیں، یورینیم ہے، انتہائی قیمتی پتھر ہیں مگر کسی دَور میں بھی حکمرانوں نے صنعتکاروں، سرمایہ داروں، متوسط طبقے کو اپنے آپ پر انحصار کیلئے متحرک نہیں کیا۔ ہم نے اپنے سمندروں کی تہوں میں نہیں جھانکا۔ ہم نے اپنے میلوں میل لمبے دریائوں کی مٹی صاف نہیں کی۔ پانی سے جتنی بجلی تیار کی جاسکتی تھی۔ وہ نہیں کی۔
ہمارے پاس ایک سے ایک ذہین، تدبر اور بصیرت رکھنے والے ماہرین معیشت تھے۔ جو اپنی مٹی کو ہی سونا بنا سکتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں انتہائی اہم اور حساس محل وقوع بخشا۔ ایشیا اور یورپ کے سنگم کے نزدیک۔ مشرق بعید اور مشرق وسطیٰ کے درمیان راہداری۔ چین اور ایشیائی وسطی ریاستوں کی معیشتوں کے درمیان رابطہ۔ اسی قدیر اور کبیر نے ہمیں 60فی صد سے زیادہ توانا، ذہین نوجوان آبادی سے نوازا لیکن ہمارے جاگیردار، سردار، حکمرانوں، غیر منتخب قوتوں نے محل وقوع اور نوجوان آبادی کو قیمتی اثاثوں کی بجائے ایک بوجھ بنا دیا۔
کہاں تک سنو گے۔ کہاں تک سنائوں۔ہمارے حکمرانوں میں بصیرت تو نہیں ہے، مگر خبط بصیرت ہے۔
اخبارات، ٹی وی ٹاک شوز، انہیں خود کفالت کی طرف توجہ دلاتے ہیں۔ ماہرین معیشت، ماہرین تعلیم اپنے انٹرویوز میں بہت مستحکم اور معروضی مشورے دیتے ہیں۔ بعض محب وطن درد مند تحقیقی ادارے، اکثر اکنامسٹ تو باقاعدہ مبسوط دستاویزات بھی تیار کرتے ہیں۔ آئندہ پندرہ بیس سال کے روڈ میپ بھی بڑی عرق ریزی کے بعد مرتب کر کے پیش کرتے ہیں مگر ہمارے حکمران کہہ دیتے ہیں ہمیں سب علم ہے، ہمیں کسی کے مشورے کی ضرورت نہیں ہے۔
اس بے ترتیب حکمرانی بے بصیرت پالیسیوں کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ آئی ایم ایف، عالمی بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک بہت کڑی شرائط پر قرضے دیتے ہیں۔ بار بار جائزے بھی لیتے ہیں۔ کتنے شرم کی بات ہے کہ باقاعدہ اعلان کر کے آتے ہیں کہ کچھ شعبوں میں کرپشن کا معائنہ بھی کیا جائے گا۔ ایک خود مختار ریاست ایسی مداخلت کیوں برداشت کرتی ہے، ہمارے ہاں ایسی تاجر، صنعت کار برادریاں موجود ہیں، جو دوسرے ملکوں میں جا کر وہاں سرکردہ بزنس کمپنیاں بن جاتی ہیں، وہاں خوشحالی لے آتی ہیں۔ ہمارے کارکنوں، محنت کشوں نے کتنے نئے ممالک کو مثالی معیشتیں بنا دیا ہے۔
77 سال میں بار بار یہ واضح ہوا ہے کہ ہمارے ہاں ذہانت، تدبر، ٹیکنیکل علم اور مہارت، آگے بڑھنے کا جذبہ بھی ہے۔ اگر ہمارے حکمران اپنا قبلہ درست کر لیں، اپنے مالی ذخائر اور سمندر پار قیمتی املاک کی بجائے۔ اپنے وطن کی اکنامی کو فعال اور آگے بڑھتی معیشت بنائیں۔ تب وہ ملک کے اندر اور باہر جائز طریقوں سے بھی اپنی املاک بنا سکتے ہیں۔
منطق اور تاریخ ہمیشہ فعال رہتے ہیں اندرون ملک بھی اور عالمی سطح پر بھی ہمارے77سال کا معروضی جائزہ لیا گیا ہے۔ ہمارے اداروں کی غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔ ہمارے عوام بھی بہت ذہین، مخلص اور صاف گو ہیں مگر ہمارے ہاں ایسا کوئی نظام قائم نہیں کیا گیا ہے جس کے ذریعے عوام کی اکثریت کی رائے سے بھی آگاہی کی جائے۔ اس کا سنہری موقع عام انتخابات ہوتے ہیں لیکن آج تک کسی انتخاب کو منصفانہ، آزادانہ قرار نہیں دیا جاسکا۔
بلدیاتی ادارے اپنی جگہ اختیارات سے محرومی کا گلہ کرتے رہتے ہیں۔ صوبائی حکومتیں ان سے خاص طور پر مالی اختیارات چھین لیتی ہیں۔ صوبائی حکومتوں کو اگرچہ 18ویں ترمیم کے ذریعے بہت سے محکمے وفاق سے مل گئے ہیں۔ لیکن انہیں ان محکموں کو چلانے کی تربیت نہیں دی گئی ہے۔ صوبے وفاق کی نا انصافیوں کی شکایتیں کرتے رہتے ہیں۔ 77سال بعد اس عظیم مملکت میں جتنا مالی، انتظامی، سماجی استحکام ہونا چاہئے تھا ، بلا خوف تردید نہیں ہے۔ اب وفاق میں جو حکومت ہے اس کی قانونی حیثیت پر سوالات اٹھتے رہتے ہیں لیکن اسے اداروں کی طرف سے جتنا تعاون ملا ہے۔ اسکے نتیجے میں اسے اقتصادی طور پر بہت مضبوط ہونا چاہئے تھا، ریاست کی تحویل میں ادارے اس طرح اربوں روپے کھارہے ہیں، ذہانت کا انخلا ہورہا ہے، حکومت اور عوام میں فاصلے بڑھ رہے ہیں۔کیا اب وقت نہیں آگیا کہ ہم سب متحد ہو کر خود کفالت کی مہم شروع کریں، قرضوں سے نجات حاصل کریں۔
عارف حبیب۔ ذکا اشرف۔ ڈاکٹر امجد ثاقب۔ حفیظ پاشا۔ قیصر بنگالی آپ کو نتیجہ خیز مشورے دے سکتے ہیں۔ یہ جان لیں حقیقی آزادی اقتصادی آزادی ہے۔