• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

(گزشتہ سے پیوستہ)

اس نوع کی ایک اور وضعداری کی مثال یاد آرہی ہے قیام پاکستان سے قبل والد ماجد مولانا بہاءالحق قاسمی مجلس احرار سے وابستہ تھے ’زندگی‘ والے چودھری افضل حق مرحوم بھی مجلس احرار کے رہنمائوں میں سے تھے۔ ایک دفعہ چودھری صاحب مرحوم و مغفور کا ایک مضمون شائع ہوا جس میں اشتراکیت کی حمایت کا پہلو نکلتا تھا والد ماجد نے چودھری صاحب کے مضمون کی تردید میں ایک مضمون لکھا اور پھر ان دونوں بزرگوں کے درمیان اسلام اور اشتراکیت کے موضوع پر ایک زوردار بحث چھڑ گئی یہ بحث اس زمانے کے معروف روزنامہ ’’زم زم‘‘ میں شائع ہوتی تھی یہ بحث اتنی اہم تھی کہ ملک کے تمام علمی حلقے اس کی طرف متوجہ ہو گئے مگر آہستہ آہستہ اس بحث میں ذاتیات کا رنگ چھلکنے لگا اور یوں اس میں تلخی آتی چلی گئی اس پر ’’الفرقان‘‘ لکھنو کے ایڈیٹر اور ممتاز عالم دین مولانا منظور نعمانی نے درمیان میں پڑ کر یہ بحث بند کرا دی۔ قیام پاکستان کے بعد والد ماجد نے اپنے یہ مضامین اکٹھے کرکے ’’اسلام اور اشتراکیت‘‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع کر دیئے اور اس کے دیباچے میں لکھا کہ یہ مضامین ایک مرحوم دوست کے کچھ مضامین کے جواب میں لکھے گئے تھے۔ میں نے والد ماجد سے کہا کہ آپ نے مرحوم دوست لکھنے کی بجائے چودھری افضل حق مرحوم کا نام کیوں نہیں لکھا؟ کہنے لگے کہ کتاب کا نام چونکہ ’’اسلام اور اشتراکیت ہے‘‘ لہٰذا اس سے یہ شائبہ گزر گیا تھا کہ چودھری صاحب شاید اسلام کے مقابلے میں اشتراکیت کی حمایت کر رہے تھے جب کہ ایسا نہیں تھا چنانچہ میں نے اپنے مرحوم دوست کا نام لکھنا مناسب نہ سمجھا!والد ماجد کی تصنیف و تالیف کے حوالے سے یاد آیا کہ وہ جید عالم دین،سیاسی رہنما اور شعلہ بیان خطیب ہونے کے علاوہ صحافی بھی تھے وہ ’’ضیاء السلام‘‘ کے نام سے پندرہ روزہ جریدہ نکالتے تھے جس کی 1939ء کی فائل میرے پاس موجود ہے، اس کے مختلف شمارہ میں مولانا اشرف علی تھانوی، پیر صاحب گولڑہ شریف ،مولانا قاری محمد طیب، چودھری افضل حق، مولانا سید نذیر الحق میرٹھی، مولانا عبدالماجد دریا بادی اور دوسرے مشاہیر نے جس طرح والد ماجد کی ان کاوشوں کو سراہا ہے جو انہوں نے دین حق کی ترویج کیلئے کیں اس سے ان کی جولانی قلم کا بھی اندازہ ہوتا ہے۔ والد ماجد مولانا بہاءالحق قاسمی انتہائی خوبصورت نثر لکھتے تھے اور ان کی تحریر میں طنز کی کاٹ اس کے سوا تھی، جب شاہ سعود نے صحابہ کرام کے مزاروں پر بلڈوزر پھروا دیئے تاکہ ان کی پوجا نہ ہو سکے تو والد ماجد نے اس اقدام کے خلاف ایک زبردست پمفلٹ لکھا اور کہا یہ توحید نہیں توحید کا ہیضہ ہے۔ والد مکرم زبان کی صحت کا بہت خیال رکھتے تھے چنانچہ میرے کالم کی اشاعت پر مجھے اپنے پاس بلاتے اور زباں و بیان کے حوالے سے میری غلطیوں کی نشاندہی کرتے اسی طرح ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے خبریں سنتے ہوئے غلط تلفظ پر سخت بدمزہ ہوتے اس پر میں ہنستا اور کہتا ’’ابا جی! آپ تو اس معاملےمیں ’’اہل زبان‘‘ سے بھی زیادہ نازک مزاج ہیں کہتے تم ٹھیک کہتے ہو لیکن انسان جو زبان لکھے یا بولے اسے اس زبان کی بددعا نہیں لینی چاہئے۔

والد ماجد کی ایک بات جس نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا وہ ان کی طبیعت کا فطری انکسار تھا اپنے نام کے ساتھ کبھی مولانا نہیں لکھا چنانچہ انکی بیس کے قریب تصنیفات پر صرف پیرزادہ محمد بہاءالحق قاسمی درج ہے۔ ہمارے خاندان میں گزشتہ ایک ہزار سال سے رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری ہے مولانا کمال الدین سیالکوٹی متوفی (1017) ہمارے خاندان میں سے ہیں جن کے مشہور شاگردوں میں حضرت مجدد الف ثانی سرہندی، ملاعبدالحکیم سیالکوٹی اور نواب سعد اللہ خان وزیر، شاہ جہاں بادشاہ شامل ہیں انکے بعد بھی ہمارے خاندان کے بزرگوں کا فیض اس طرح رہا اور بیسیوں اولیا و صلحائے امت علم کے ان چشموں سے سیراب ہوتے رہے۔ والد ماجد چاہتے تو پیری مریدی کا سلسلہ شروع کر سکتے تھے مگر ہزاروں عقیدت مندوں کی خواہش کے باوجود آپ نے کسی کو بیعت نہیں کیا اور کہا کہ میں ننگ اسلاف ہوں اور یوں میں اس بھاری ذمہ داری کا اہل نہیں ہوں۔ طبیعت میں انکسار کا یہ عالم تھا کہ جب قومی تاریخ کا کوئی واقعہ بیان کرتے تو اس میں نمایاں کردار ادا کرنے کے باوجود خود کو اس میں نفی کر دیتے۔ ایک دن کہنے لگے کہ مولانا حسرت موہانی میں ایک تضاد بہت دلچسپ تھا میں نے پوچھا وہ کیا بولے ایک طرف تو مولانا سوشلزم کے زبردست حامی تھے اور دوسری طرف جیل میں بھی باقاعدگی سے گیارہویں کا ختم دیتے تھے، میں نے پوچھا آپ کو کیسے علم ہوا کہنے لگے میں اتفاق سے جیل میں انکے ساتھ رہ چکا ہوں۔ 1930ء کی تحریک آزادی کشمیر میں والد ماجد نے نمایاں کردار ادا کیا دو دفعہ جموں گئے اور جموں اسٹیشن سے باہر نکلے تو ایک سب انسپکٹر پولیس نے انکو جموں میں داخلے پر پابندی کا نوٹس دکھا کر شہر میں جانے سے روک دیا اور زبردستی ایک سرکاری گاڑی میں بٹھا کر انہیں سیالکوٹ پہنچا دیا دوسری دفعہ مظفر آباد اور سرینگر گئے تاکہ شیخ عبداللہ، مولانا یوسف شاہ، میر واعظ کشمیری اور مظفر آباد کے لیڈر پیر حسام الدین مرحوم کو اپنے ہمراہ لاہور لائیں تاکہ وہ کشمیر کے مسئلے پر احرار رہنمائوں سے تبادلہ خیال کریں ان میں سے شیخ عبداللہ تو سرینگر میں موجود نہ تھے چنانچہ والد ماجد انکے قائم مقام بخش غلام محمد، میر واعظ اور پیر حسام الدین کو کار میں لاہور لے آئے اور ان سے مذاکرات کئے والد ماجد تحریک آزادی کشمیر کا ذکر کرتے ہوئے اپنے حوالے سے صرف یہی کچھ بتاتے تھے حالانکہ اس کی بنیاد پر عظمتوں کے کتنے ہی محل تعمیر کئے جاسکتے ہیں وفات سے تین روز قبل اباجی نے مجھے اپنےپاس بلایا اور بیٹھ جانے کو کہا پھر کہنے لگے کہ بہو کو بھی بلائو چنانچہ شہناز بھی میرے برابر میں آکر بیٹھ گئی اس روز والد ماجد کی آواز میں بہت نقاہت تھی کمزور سی آواز میں کہا میرے بچو! میں تمام عمر کوئی نیک کام نہ کرسکا میری ساری زندگی گناہوں سے بھری ہوئی ہے مگر اتنا ہے کہ میں نے گناہ کو گناہ سمجھ کر ہی کیا۔ میرے بچو! میں نے تم سے یہ کہنا ہے کہ تم سے اگر زندگی میں گناہ سرزد ہو تو اسے گناہ سمجھ کر ہی کرنا اس گناہ کا جواز تلاش نہ کرنا پھر کہنے لگے مجھے ایک بات اور بھی کہنا تھی مگر وہ میں بھول گیا ہوں اور اسکے تین دن بعد وہ گہری نیند سو گئے۔(جاری ہے)

تازہ ترین