• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اعتدال پسند معتبر تجزیہ کار اور اینکر پرسن سہیل وڑائچ کے مطابق ’’سچ کڑوا ہوتا ہے لیکن جوڑتا ہے۔ جھوٹ کا اثر زہر آلود ہوتا ہے۔ حب الوطنی اور سچ سے ایک کے انتخاب کی صورت میں فیصلہ سچ کے حق میں ہونا چاہئے۔ سچ چھپانے والی ریاستیں ٹوٹ جاتی ہیں۔‘‘ اور افواج پاکستان کے معاملے میں ان کی حب الوطنی، شجاعت، قربانیاں اور خدمات ایک تسلیم شدہ سچائی ہے۔ عساکر پاکستان کے ایمان و یقین پر پاکستانی قوم کا ایمان و یقین کبھی انہیں ڈھلمل نہیں ہونےدیتا۔وقت کے کسی بھی اترتے لمحے اور مرحلے پر قوم ان بہادروں، جنگجوئوں ، جانبازوں ، ملک و قوم کے خدمت گزاروں، دھرتی کے شہیدوںاوروطن کے جانثار پروانوں کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ پاکستانیوں کے اس عمل میں کبھی، کہیں بھی، کسی بھی حالت میں ایک ثانیے کو بھی کسی ذہنی اضمحلال، فکری انتشار یا قلبی اعراض کی نشاندہی نہیں کی جاسکتی۔ 6مئی 2014 کی اس تاریخ تک افواج پاکستان کے ساتھ پاکستانیوں کی یہ لازوال کمٹ منٹ تب و تاب جاوداں کے سنگھاسن پر فروزاں ہے،انشا اللہ ایسا ہی رہے گا۔ مگر ایک دوسراسچ اس عہدساز فوجی تاریخ کے ساتھ چپکا ہوا ہے۔ فوج کا کردار اس کے چپکنے سے دھندلا سا گیا ہے۔ یہ دوسری سچائی کیا ہے؟ یہ کہ چند طالع آزمافوجی جرنیلوں کے ہاتھو ں قومی سیاست اور منتخب حکمرانی کے جمہوری تسلسل کو معطل اور منسوخ کرنے کی تاریخ نے افواج پاکستان کے روشن چہرے کو اس دھند کے آسیب کا قیدی بنا دیا۔ افواج پاکستان اور اس کے خفیہ اداروں کے لئے عالم اسلام کی مایہ ناز خاتون رہنما بی بی بینظیر بھٹو شہید کے الفاظ کا یہ مفہوم آج بھی عوم کے ذہنوں پر ایک صدمہ انگیز دستک دے رہاہے۔ ’’پاکستان میں جمہوری نظام چلانے کے لئے ہمیں خفیہ فوجی اداروں کوباقاعدہ ایک ریاستی جز کے طور پر منتخب قیادت کے ساتھ شامل کرلیناچاہئے‘‘ کسی ملک کی سب سے بڑی قومی قائد کا ملک و قوم کے مستقبل کو بچانے کی خاطر ایک ریاستی ادارے کو عوام کےووٹوں سے حاصل کردہ حق حکمرانی میں حصہ دار بنانے پر مجبور ہو جانے کا ذہنی عمل یقیناً ہمارے سمیت کسی بھی پاکستانی کے نزدیک باعث توقیر نہیں کہلایا جاسکتا۔ہمیں مگر عساکر پاکستان کو موضوع بناتے ہوئے ان کی اجتماعی قومی عظمت کے لہو کو اپنی قلم یازبان درازیوں کی انتہا پسندی کا طوق پہنانے کے قومی جرم سے بھی باز رہنا چاہئے۔ ہمیں ان لوگوں کو بے حد وحساب احتساب اور لعنت کے سیلاب میں غرق کردینا چاہئے تھا جنہوں نےگزشتہ دنوں ہماری عساکر کے شہیدوں کے لہو کی نفی سے اپنی مقدس حسیات کے مذہبی کھلواڑ کی تسکین کا سامان کیا۔
بعینہٖ عساکر پاکستان کے حوالے سے خواجہ آصف، خواجہ سعد رفیق اور احسن اقبال کے انداز ِگفتگو پر پاکستان کے ہر کونے سے شدید ترین تنقید کی آوازیں ساتویں آسمان کی پہنائیوں تک جانی چاہئیں تھیں۔ انہوں نےاپنے نقطہ ٔ نظر کے اظہار میں کسی حجاب یا لحاظ کی رتی بھر بھی ضرورت محسوس نہیں کی تھی۔ بات طالع آزما جرنیلوں سے وابستہ حقائق کی نہیں مکمل سچائی کے اعتراف کی تھی اور مکمل سچائی یہ ہے کہ یہ تینوں چاہے کسی پرانی تقریر میں، چاہے پرویز مشرف کے ردعمل میں،طالع آزمائی کے چند حقائق کے ساتھ ساتھ ان سینکڑوں، ہزاروں شہیدوںاور معذوروں کی درخشندہ تابانیوںکا بھی تذکرہ کرتے نہ کہ افواج پاکستان کے تناظر میں پاکستانیوں کے قومی جذبات کی توہین کی جاتی۔ ’’فوج کسی کی ذاتی جاگیر نہیں‘‘احسن اقبال کو یہ جملہ کہنے کی کیسے جسارت ہوئی؟ کسی عام پاکستانی نے کب اپنی افواج کو کسی کی ذاتی جاگیر سمجھا یا قبول کیا ہے؟ سو ایک سچ ایسے لوگوں کو قومی قیادت کے کسی بھی منصب سے بزور قوت ہٹا دینے ہی میں پوشیدہ ہے جو اپنے انفرادی واقعات کی بنا پر قوموں کی اجتماعی عزت و حرمت کی چادرتار تار کردینے میں بھی کوئی عارمحسوس نہ کرتے ہوں! حسرت انہیںاور ان کی لیڈرشپ کو ذوالفقار علی بھٹواور اس کی جماعت سے مقابلہ کرنے کی ہے۔ انا للہ واناالہ راجعون!
ایک اور سچ جنگ گروپ کے جیو ٹی وی سے وابستہ شخصیات کے اعتراف کا بھی ہے۔ نجم سیٹھی اور ڈاکٹر عامر لیاقت دونوں صاحبان نے حامد میر کے واقعہ پرڈی جی آئی ایس آئی کی تصویر باربار دکھانے پرواضح طور پر کم از کم تین بارٹی وی اسکرین پرآکے معذرت خواہی کی..... لیکن اس مہم میں متعدد چھوٹی چھوٹی مچھلیوں نے خود کو وھیل مچھلی کے برابر ثابت کرنے لئے اپنی آوازیں اسی جیسی نکالنے کا شور و غوغا برپا کر رکھا ہے۔ ان لوگوں نے جنگ گروپ کو حب الوطنی کے عنوان سے اپنے حاسدانہ گورکھ دھندے میں پھنسانے کی کوشش میں اخلاق باختگی کے کنگروں کو چھو لیا ہے۔ ایک انگریزی معاصر نے اس ساری مہم کے اس نتیجے کی طرف توجہ دلانے کی کوشش کی ہے جو لفظ کی آزادی کے خواب کا اختتامیہ ہوسکتا ہے۔ اس کا کہنا ہے:’’بعض اخبار نویسوں کی ذاتی چپقلشوں سے تشکیل پائے ہوئے اس گورکھ دھندے نے آزادی ٔ اظہار کی متوقع موت کا سندیسہ بھیجنا شروع کردیا ہے۔ اس طرز ِعمل کے باعث میڈیا کے ازخود اپنے آپ کو نقصان پہنچانے کے نئے عنصر نے جنم لے لیا ہے۔ حامد میر پر حملے کے بعد متحارب میڈیا مالکان کے متصادم مفادات اور اپنے اخبارات و چینل کے ادارتی اور خبری مواد پر بڑھتے ہوئے کنٹرول نے ایک پریشان کن تباہی کی جنگ شروع کرادی ہے۔ آپ گزشتہ دہائی میں اخباری خبروں کے لینڈسکیپ پر چھائے ہوئے انداز ِ صحافت سے اس کا قیاس کرسکتے ہیں۔ اس صورتحال کے سائے ہمیں آزادی ٔ صحافت کے سلسلے میں ناقابل واپسی انجام سے دوچارکرسکتے ہیں۔‘‘
جنگ گروپ کی مخالفت میں پورے ملک کو مذہبی اصطلاحات اور حب الوطنی کے مفہوم کی ایکسپلائٹیشن کی حد درجہ متشدد تقاریر اورجلوسوں کے ذریعے زندگی و موت کی کشمکش کے دو راہے پر لاکھڑا کیا گیاہے۔ ’’حب الوطنی اور غداری‘‘، ’’بھارت اور امن‘‘، ’’افغانستان اور جہاد‘‘، ’’طالبان او راسلام‘‘ ، ’’نظریہ پاکستان‘‘ اور ’’اقبالؒ و قائداعظمؒ‘‘ ایسے موضوعات یا ایسے ایشوز ہیں جن کے حوالے سے پاکستان کے کسی بھی محب وطن ترین مسلمان کو عدم آباد کی سیر کرائی جاسکتی ہے۔ آج بھی تاریخ خود کو دہرا رہی ہے۔ جن قوتوں کو طویل عرصے سے دائیں بازو سے ہی دائیں بازو کی ایک ایسی علامت درکار تھی جسے وہ ’’اینٹی نوازشریف ڈوز‘‘ کےطور پر استعمال کرسکیں شاید وہ کسی نہ کسی شکل میں ان کے ہاتھ آگئی ہے۔ بہرحال جنگ گروپ کافی حد تک نیلے پانیوں اور فتنہ گروں کےمابین بسمل کی طرح تڑپ رہا ہے۔ حامد میر نے ایسی حالت مبارزت میں ایک بار پھر سچ ہی بولا ہے۔ نجم سیٹھی کے دانش و تدبر اور ملک و قوم کے بارے میں ان کے وژن کوخاطر میں نہیں لایا گیا۔ یہ علیحدہ بات ہے وقت نجم سیٹھی کی اس پیش گوئی پر ہی شاید صداقت کی مہر لگادے کہ ’’جنگ گروپ کے متعلق کوئی انتہائی کارروائی ان فورسز کے حق میں نہیں جائےگی جو ہمارے Step back کے اعلانات کے باوجود خود Step back پر جانےکو تیار نہیں ہیںجبکہ قومی مفاد دونوں کے اپنی پوزیشنوں میں میانہ روی پیدا کرنے سے ہے‘‘ لکھا گیا ہے عمران خان نے حامد میر کی ابھی تک عیادت نہیں کی۔ عمران خان زندہ سلامت رہیں وہ کوئی ’’مجدد ِ امت‘‘ نہیں جس کا عیادت کو جانا کسی مسلمان کے لئے سرمایہ ٔ حیات ہو۔ حامد میر کے لئے لاکھوں انسا ن دعاگو رہے، دعاگو ہیں، مجھے تو سیاستدان عمران خان کےبارے میں آپ کو اپنے برادر محترم کا یہ جملہ سنانا ہے ’’وہ بالآخر قومی سیاست کا اصغر خان ہوگا‘‘باقی اللہ بہتر جانتاہے۔
تازہ ترین