• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مصنوعی ذہانت والے ہما ری صحافت، عدلیہ اور کارِ حکومت پہ ایسے قابض ہوئے ہیں کہ میں چھ دن پہلے کراچی گئی، تب بھی یہی ججوں کو لگانے، نکالنے،نئے گریڈ اورنئی تعیناتی کے نام پر ہر روز اول خبر میڈیا پریہی چلتی تھی۔ کراچی سے واپس آنے کے بعد بھی وہی سب کچھ ہے ہے۔ ایسا ماحول اور ایسی ترقیاں! مسلسل پوسٹنگز ٹرانسفر کے نقارے بجےجا رہے ہیں۔ ان مخمصوں میں کتنے لوگوں کے مقدمات التوا میں پڑے رہے، کتنوں کو نمٹا دیا گیا کہ سینکڑوں اور ہزاروں کی فہرست، روز اخبار میں آتی ہے۔ اس وقت روز سڑکیں بند ہوتی ہیں۔ مظاہرے ہو رہے ہیں۔ گھنٹوں گاڑی رکی رہے، کتنا پٹرول فالتو ضائع ہو رہا ہے۔ یہ بات ابھی فیصلہ طلب رہے گی کہ وکیل جج بننا چاہتے ہیں۔ جیسے بے چارے جج دوسرے صوبے میں جانے سے گریز کر رہے ہیں۔ یہ طویل بحث کیا رنگ دکھائے گی کہ اُدھر ٹرمپ صاحب عہدہ سنبھالنے کےپہلے دن کے بعد، تابڑ توڑ، چھوٹے ملکوں پر پابندیاں لگانے کا محضر نامہ روز جاری کر رہے ہیں۔ یہ کہانی الگ ہے، ہر روز کشتیوں کے ڈوبنے، پاکستانی مزدورں کی لاشیں ملنے اور ان کے خاندان کی دولت سے انسانی اسمگلروں کے گھروں میں چراغاں اور مزدور مرنے والوں کے گھروں میں آیتِ کریمہ کے ختم صبح، شام جاری ہے۔ انسانی اسمگلنگ کا سلسلہ اُس دن سے عام ہے جب بھٹو صاحب نے، لیبر مشرقِ وسطیٰ میں بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ پھر اس تجارت نے ایسا عروج پاپا کہ نوجوان غائب ہوکر سمندر کے کنارے والے ملکوں میں ڈالر کمانے کا سوچ کر، پورے خاندان کی کمر توڑ کے، ڈوب جاتے ہیں۔

میر ی یہ نوحہ گری، بیچ میں ٹوٹ گئی کہ ایئر ہوسٹس نے کراچی پہنچنے کا اعلان کیا۔ مجھے فوراً ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی پرخاش یاد آئی۔ ان کا کہنا کہ پندرہ سال سے ایک پارٹی حکومت میں ہے اور کراچی کو گڑھستان بنایا ہوا۔ واپسی پر میں نے شہر میں سے ہو کر چلنے اور سڑکوں کی حالت دیکھنے کی ضد کی۔ میرے بھانجے نے وارننگ دی کہ پھر آپ شکایت مت کیجئے گا کہ میری کمر میں ان گڑھوں نے درد بھر دیا ہے۔

نقشہ یہ تھا کہ ہر سڑک پر مرمت کے حوالے سے بورڈ لگا تھا۔ جگہ جگہ رستہ بدل کر چلنا پڑ رہا تھا۔ کہیں انڈر پاس بن رہے تھے، کہیں سڑک، تو پھر گزرا کیسے جائے؟ میں نے پوچھا یہ حالت کب سے ہے پتہ چلا 2022ء کے سیلاب میں سڑکیں بہہ گئی تھیں۔ ٹینڈر اب کھلے ہیں۔ اب کام شروع ہو رہا ہے۔ اسلئے، ان گڑھوں میں روز موٹر سائیکلیں، دس پندرہ لاشوں میں بدل کر لوگوں کو سڑکوں پر جنازے رکھ کر ماتم کرتے میڈیا دکھاتا ہے۔ کراچی تو ویسے ہی کچی آبادیوں سے بھرا ہے، جس کا بھی جس جگہ جی چاہتا ہے دو کمروں کا گھر ڈال لیتا ہے۔ عدالتوں میں ایسے چیف جسٹس بھی آئے کہ سات منزلہ بنی بنائی عمارت کو یہ کہہ کر منہدم کر نےکاحکم نامہ جاری کردیاکہ یہ بلڈنگ قانون کے مطابق نہیں بنی ہے۔ جن لوگوں نے اپنی خون پسینے کی کمائی سے چھت حاصل کی تھی، وہ روتے بلکتے سڑکوں پر آجاتے ہیں کہ عدلیہ کا حکم ٹالا نہیں جا سکتا ہے۔ ویسے بھی جو گھر پاکستان بننے کے بعد بنائے گئے تھے انکی حالت دیکھ کر ڈر لگتا ہے کہ یہ کسی بھی دن گر سکتے ہیں اور ایسے منظر آئے دن کراچی میں دیکھنے کے لوگ عادی ہو گئے ہیں۔ لوہے کی ٹوئی جالی پر بچوں کے پوتڑے سوکھ رہے ہوتے ہیں۔ جگہ جگہ نیم ٹوٹے فلیٹوں کی سیڑھیاں بھی آخری دنوں پر نظر آتی ہیں۔

کراچی کا نام بمبئی، دلی اور کلکتہ کے ساتھ شاندار عمارتی نقشوں اور روز دھلنے والی سڑکوں کے لیے مشہور تھا۔ سارے مشہور ہوٹل پہلے سینماؤں میں ڈھلے، پھر پراپرٹی ڈیلروں نے دو، دو مرلے کے مکانوں میں بدل دیا ۔ وہ بھی ستر سال میں صرف پیوندوں کی شکل میں پوری قوم کی رعونت کو آشکار کر رہی ہے کہ پاکستان کے ہر شہر میں رہائشی اسکیموں کے نام پر کسی کے پیسے ڈوبے، کسی کو گھر ملا کسی کو نہیں۔ ویسے حیدرآباد ہو کہ سکھر کہ وزیر آباد ہر علاقے کو نیو ٹاؤن میں بدل دیا گیا ہے۔ آخر ڈالر کمانے والوں نے گھروں پر ماشاء اللہ لکھ کر، اولاد کو موٹر سائیکلیں دیکر اور گھر میں گوشت پکا کر ایسی صحت بنائی ہے کہ ہیلتھ سینٹر اور بنگالی بابا کلینک کی بن آئی ہے۔ ساتھ ساتھ کراچی کی شہرت سمندر کے کنارے آبادیوں اور شاموں کو بچوں بڑے سب لوگوں کو بمبئی کی طرح چاٹ کھانے والوں کا زور ہوتا ہے۔ سمندر نظر نہیں آتا، جگہ جگہ پلاسٹک اور کاغذ کے تھیلے پورے ساحل پر قابض نظر آتے ہیں۔ اڑتی اڑتی خبر ہے کہ ساحلوں کی زمین پر بھی گھربن رہے ہیں۔ جاپان، کوریا اور سنگاپور نے بھی سمندر کو شاندار سڑکوں میں لپیٹ لیا ہے تو پھر ہم کسی سے کم کیوں ہوں۔ ویسے اب ہم نے بارہ ہزار چھوٹی نوکریوں کو ختم کر کے، مصنوعی ذہانت گلے لگانے کو آگے بڑھ رہے ہیں۔

گوادر میں ایک زمانے میں میرا بھی جانا ہوا کرتا تھااور بہت سے سفید پوش جہاز میں نظر آتے۔ میں خود بھی پوچھ لیتی، زمینیں خریدنے جا رہے ہیں۔ اور وہ ہنس کر کہتے ’’دیکھیے قسمت میں کیا ہے‘‘۔ گوادر میں ہر زمین کا ٹوٹا گزشتہ 20برسوں میں کئی کئی بار فروخت ہوا ہے۔ ابھی تک گھر موجود نہیں ہیں۔ ماہی گیروں کے گھر بھی وہی خستہ ہیں۔ بڑے لوگ آکر بڑے ہوٹل میں ٹھہرتے اور سودا طے کرکے چلے جاتے ہیں۔ اب یہ حال ہے کہ گوادر بندرگاہ چین اور عرب ممالک کے سرمائے سے بنائی گئی۔ ابھی ہمارے مزدوروں کو ایسے ایسے اوزار، مشینیں چلانے اور اٹھانے کا تجربہ نہیں ہے۔ یہاں بھی سی پیک کی طرح غیر ممالک کے تجربہ کار لوگوں کو کام میں لگایا جاتا ہے۔

حد ہو گئی، جس کام کیلئے کراچی گئی تھی، اُسکا ذکر ہی نہیں آیا دراصل او یو پی کی سالانہ ادبی کانفرنس میں یہ سب مسائل ادب، موسیقی تبدیلیاں اور پاکستانی ادب کے تراجم اور دوسرے ملکوں کے ادب کے تراجم، یہ سب اہم موضوعات تھے کہ جس میں غیر ممالک کے مصنفین نے بھی شرکت کی۔ یہاں میری کتاب ’’آئینہ دیکھا نہیں جاتا‘‘ بھی شامل تھی۔ میں نے وہی دکھڑا لکھا ہے جو کراچی اور سارے ملک میں بغیر کسی نقشے کے، چھت ڈال لی جاتی ہے۔ پھر بھی اسکول اور اسپتال اور وہ بھی غریبوں کے لئے، کبھی کبھی ڈاکٹروں کے کیمپ لگتے ہیں۔ کچھ بھلا ہو جاتا ہے۔

تازہ ترین