• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا وفد ایک ہفتے کیلئے پاکستان کے دورے پر ہے۔ یہ وفد چھ شعبوں کی کڑی نگرانی کرے گا کہ کیسے یہ بدعنوانی کے خاتمے کیلئے کام کر رہے ہیں۔یہ وفد مالیاتی گورننس، سینٹرل بینک گورننس اینڈ آپریشنز، مالیاتی شعبے پر نظر رکھے گا، مارکیٹ ریگولیشن کا جائزہ لے گا اور پاکستان میں قانون کی حکمرانی اور اینٹی منی لانڈرنگ جیسے اقدامات کا جائزہ لے گا۔اس وفد نے اعلیٰ عدلیہ، اسٹیٹ بینک، الیکشن کمیشن، فنانس، ریونیو اور ایس ای سی پی سمیت وفاقی محکموں کے سیکریٹریز اور دیگر شعبوں کےحکام سے ملاقاتیں کی ہیں۔ آئی ایم ایف کے حالیہ جائزے کے مطابق پاکستان کی معیشت میں کچھ بہتری کے اشارے ضرور مل رہے ہیں۔ معیشت میں بہتری کیلئے کئی اقدامات کیے گئے ہیں، مگر ان میں سے زیادہ تر کا فوکس رئیل اسٹیٹ سیکٹر پر رہا ہے۔ حالیہ دنوں میں اس شعبے میں کئی مراعات کا اعلان کیا گیا، مگر سرمایہ کاری زیادہ تر بیرونِ ملک جا رہی ہے، جبکہ صنعتی ترقی وہ رفتار نہیں پکڑ سکی جو کسی بھی ملک کی معیشت کو مضبوط بنانے کیلئے ضروری ہوتی ہے۔ اگر پاکستان کو ایک مستحکم اور خودکفیل معیشت بنانا ہے، تو صنعتوں اور برآمدات پر خاص توجہ دینا ہو گی۔ پائیدار ترقی اور استحکام کیلئے ابھی بہت سے بنیادی مسائل حل کرنا باقی ہیں۔ مالیاتی ادارے ملک کی پالیسیوں اور اصلاحات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور ان کی رپورٹس میں خاص طور پر گورننس، حکومتی معاملات میںکرپشن، قانون کی حکمرانی اور معیشت کے مختلف شعبوں میں پیش رفت کو جانچا جاتا ہے۔ اگرچہ حکومت اپنی بساط کے مطابق بہتری کیلئے کوشاں ہے، مگر سیاسی عدم استحکام اور بعض انتظامی مسائل کی وجہ سے متوقع نتائج حاصل نہیں ہو پا رہے۔ کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اس کی اچھی حکمرانی اور قانون کی بالادستی پر ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان اس معاملے میں ابھی تک وہ معیار حاصل نہیں کر سکا جو ترقی یافتہ یا تیزی سے ترقی پذیر ممالک میں دیکھا جاتا ہے۔ گورننس کے شعبے میں بہتری کے کئی منصوبے ضرور بنائے گئے، مگر ان پر عمل درآمد میں مشکلات کا سامنا رہا۔ ادارہ جاتی کارکردگی میں عدم تسلسل اور بیوروکریسی کی پیچیدگیاں اصلاحات کے عمل کو مزید سست کر دیتی ہیں۔ ایک بڑا چیلنج یہ ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ مختلف محکمے اور ادارے تو وجود میں آتے رہے مگر ان کی کارکردگی میں نمایاں بہتری دیکھنے میں نہیں آئی۔ مثال کے طور پر ماضی میں پولیس تمام گاڑیوں کے کاغذات اور حالت کی جانچ کرتی تھی، مگر اب ایکسائز، انسدادِ منشیات اور ماحولیات جیسے محکموں میں انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ بنائے گئے ہیں جو ان معاملات کو دیکھ رہے ہیں لیکن اس کے باوجود عوام کی شکایات کم ہونے کے بجائے بڑھ گئی ہیں۔ کسی بھی ملک کی ترقی میں تعلیم بنیادی ستون کا درجہ رکھتی ہے۔ پاکستان میں سرکاری تعلیمی اداروں کی حالت زار کسی سے پوشیدہ نہیں۔ سب سے اہم مسئلہ یہ ہے کہ سرکاری افسران اور حکومتی اشرافیہ اپنے بچوں کو مہنگے نجی اسکولوں میں بھیجتے ہیں، جبکہ سرکاری اسکولوں میں تعلیمی معیار بلند کرنے پر زیادہ توجہ نہیں دی جاتی۔ اگر تعلیمی نظام کو مضبوط اور مؤثر نہ بنایا گیا تو مستقبل میں ہمارے نوجوان عالمی معیار کا مقابلہ کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ اسی لیے تعلیمی نظام کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جب تک ہم اپنی نوجوان نسل کو معیاری تعلیم اور ہنر فراہم نہیں کریں گے، تب تک ہم بین الاقوامی مارکیٹ میں مسابقتی حیثیت حاصل نہیں کر سکتے۔ اس کے ساتھ ساتھ ٹیکنالوجی اور ڈیجیٹل معیشت کے فروغ پر بھی توجہ دینا ہوگی تاکہ پاکستان گلوبل سپلائی چین کا مؤثر حصہ بن سکے۔ اس وقت دنیا میں وہی ممالک ترقی کر رہے ہیں جو صنعتی و تجارتی ترقی کے ساتھ ساتھ تحقیق و ترقی (R&D) میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں۔ پاکستان کو بھی ایسی پالیسیاں اپنانا ہوں گی جو تحقیق، اختراع اور پیداواری صلاحیت میں اضافے کو ترجیح دیں۔ جامعات اور صنعتوں کے درمیان روابط کو مضبوط کرنا ہو گا تاکہ نئی ایجادات اور اختراعات مقامی سطح پر فروغ پا سکیں۔ سرکاری اخراجات میں کمی، غیر ضروری مراعات کا خاتمہ اور بدعنوانی کے خلاف سخت اقدامات کیے بغیر معیشت کو درست ڈگر پر نہیں چلایا جا سکتا۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں سرکاری افسران اور پالیسی ساز کفایت شعاری کو ترجیح دیتے ہیں، جبکہ ہمارے ہاں سرکاری پروٹوکول اور بھاری مراعات پر خطیر رقوم خرچ کی جاتی ہیں۔ حال ہی میں نئی امریکی انتظامیہ نے سرکاری محکموں سے لاکھوں غیر ضروری اراکین کو فارغ کرنے کے احکامات جاری کیے ہیں جو انکی کفایت شعار پالیسی کاایک اشارہ ہے۔ اس کلچر میں تبدیلی لا کر عوامی فنڈز کو زیادہ مفید مقاصد کیلئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے بیرونِ ملک سفارت خانے اور تجارتی مشنز بھی ایک اہم موضوع ہیں۔ بھاری تنخواہوں اور مراعات کے باوجود اکثر سفارت کاروں اور تجارتی مشنز کے افسران کی کارکردگی عوام کے سامنے نہیں آتی۔ کیا کبھی کسی نے ان سے یہ سوال کیا کہ انکی موجودگی سے پاکستان کی برآمدات میں کیا بہتری آئی اور محکمہ اطلاعات کے بیرون ملک تعینات افسران اپنے فرائض منصبی صحیح طریقے سے انجام دے رہے ہیں یا نہیں؟ اکثر ایسا دیکھنے میں آیا ہے کہ سفارت خانے صرف طاقتور شخصیات کے پروٹوکول میں مصروف رہتے ہیں جبکہ حقیقی سفارتی اور تجارتی مقاصد پسِ پشت چلے جاتے ہیں۔ حکومت یقینی طور پر بہتری کیلئے کوشاں ہے، مگر معاشی ترقی اور گورننس کیلئے طویل مدتی اور پائیدار حکمت عملی اپنانا ضروری ہے۔ خاص طور پر ایسے اقدامات کیے جائیں جو بیرونی امداد اور قرضوں پر انحصار کم کر کے معیشت کو خود مختار بنائیں۔ آئی ایم ایف کے قرضے وقتی سہارا دے سکتے ہیں مگر مستقل حل تبھی ممکن ہے جب ہم اپنی برآمدات میں اضافہ کریں۔ معاشی خودمختاری کیلئےپاکستان کو اپنی پالیسیوں کو حقیقت پسندانہ بنیادوں پر استوار کرنا ہو گا۔ سب سے پہلے برآمدی صنعتوں کو فروغ دینے کیلئے سہولیات فراہم کرنا ہوں گی تاکہ ملک میں غیر ملکی زرمبادلہ میں اضافہ ہو۔ دوسرا زرعی شعبے میں جدید ٹیکنالوجی اور تحقیق کے ذریعے پیداوار میں بہتری لائی جائے اس سےزراعت پر انحصار کرنے والی آبادی کی آمدن میں اضافہ ہو گا۔ تیسرا مقامی صنعت کی ترقی اور روزگار کے مواقع کیلئے چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباروں کو مزید مراعات دی جائیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کو اپنی معیشت کے ان شعبوں پر بھی نظر ڈالنی ہوگی جہاں غیر ضروری درآمدات پر انحصار کیا جا رہا ہے۔ اگر ہم مقامی سطح پر پیداوار کو فروغ دیں، تو درآمدی بل کم کیا جا سکتا ہے، جو ہمارے مالیاتی خسارے کو کم کرنے میں مدد دے گا۔ معیشت کی مضبوطی کیلئے مالیاتی شفافیت بھی انتہائی ضروری ہے۔ مزید برآں توانائی کے بحران پر قابو پانے کیلئے طویل المدتی منصوبے بنانے کی ضرورت ہے، کیونکہ بجلی اور گیس کی عدم دستیابی یا مہنگائی صنعتوں کے فروغ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دنیا میں وہی ممالک آگے بڑھتے ہیں جو اپنے وسائل کا مؤثر استعمال کرتے ہیں اور فیصلے خود مختاری کے ساتھ کرتے ہیں۔ پاکستان کو اب یہ طے کرنا ہوگا کہ آیا وہ محض عارضی سہولتوں پر انحصار کرے گا یا ایک ایسے مضبوط نظام کی بنیاد رکھے گا جو آنے والے وقت میں ملک کو مکمل خود کفیل اور ترقی یافتہ بنانے میں مدد دے۔ اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی پالیسیاں درست سمت میں لے کر جائیں، طویل مدتی حکمت عملی اپنائیں اور گورننس، قانون کی حکمرانی، تعلیم، صنعت، زراعت اور برآمدات کے شعبے میں ایسی اصلاحات کریں جو ملک کو حقیقی معنوں میں ایک خود مختار اور خوشحال ریاست میں تبدیل کر سکیں۔

( صاحبِ مضمون سابق وزیر اطلاعات پنجاب ہیں)

تازہ ترین