• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

چند دن پرانی بات ہے، ایک ضروری کام کے لئے شہر جانے کا اتفاق ہوا۔کام نمٹانے کے بعد حسب معمول بشکو ٹی اسٹال پہنچ کر ایک کپ چائے اور آدھا پاؤ حلوے کا آرڈر دیا۔ وہاں بیٹھے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ مجھے محسوس ہوا میرے برابر والی میز پر بیٹھا چھوٹے قد کا ایک درمیانی عمر کا شخص مجھے مسلسل گھور رہا ہے۔ ایک لمحہ کے لئے مجھے پریشانی سی لاحق ہوئی مگر اگلے ہی لمحے اس شخص نے اپنا ہینڈ بیگ جو میز پر رکھا ہوا تھا، اٹھایا اور میرے سامنا آکے بیٹھ گیا۔ السلام علیکم، ناچیز کو اسلم کہتے ہیں، اسلم انصاری۔ جناب کا تعارف؟ میرا خیال ہے شاید ہماری کہیں ملاقات ہوئی ہے؟ ایک خوشگوار مسکراہٹ کے ساتھ اس نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا۔ میں اس شخص کو نہیں جانتا تھا۔ جی میرا نہیں خیال کہ ہم ایک دوسرے کو جانتے ہیں، میں نے اپنا نام بتاتے ہوئے کہا۔اچھا اچھا قیصرانی صاحب۔ میں بھی کہوں کہیں دیکھا ہے آپ کو ۔آپ کے کئی عزیز ہمارے کلائنٹ ہیں۔ کل ہی آپ کے پھوپھی زاد سے ملاقات ہوئی اورکافی دیر تک آپ کا ذکر خیر چلتا رہا۔ معذرت میں بتانا بھول گیا تھا کہ میں یہاں انشورنس کمپنی کا مقامی منیجر ہوں۔ مجھے حیرت کاایک جھٹکا سا لگا کہ آج تک دادی اماں نے اپنی بیٹی یعنی ہماری پھوپھی کی ہوا تک بھی ہمیں نہیں لگنے دی۔

’’سر کتنے بچے ہیں آپ کے اور ان کی عمریں کیا ہیں؟ ویسے ہمارے پاس ہر عمر کے بڑے اور بچے کےلئے پالیسی موجود ہے۔ اس سے پہلے کہ میں کبھی نہ پیدا ہونے والی پھوپھی کو ڈھونڈتا انصاری صاحب ہینڈ بیگ سے ڈائری اور بال پوائنٹ نکال چکے تھے۔

انصاری صاحب میں نے کوئی پالیسی نہیں لینی، آپ کی بڑی مہربانی۔ دراصل میرے پاس پالیسی لینے کےلئے کچھ ہے ہی نہیں۔ اسی لمحے مجھے شک ہوا کہ میری جیب میں موجود رقم شائد چائے کے بل سے کچھ کم نہ ہو۔ سر آپ بالکل فکر نہ کریں۔ جیسا کہ میں نے پہلے کہا ہمارے پاس ہر شخص کے لئے کوئی نہ کوئی پالیسی موجود ہے۔ آپ کے بچے ابھی اسکول میں ہی ہوں گے ناں؟ اگر آپ تھوڑی سی رقم ہر مہینےجمع کراتے جائیں تو دس سال بعد جب آپ کے بچے یونیورسٹی میں داخل ہوں گے تو وہاں کی لاکھوں روپے کی فیس ہمارے ذمے ہو گی۔ ماشاء اللہ آپ کی ایک بیٹی بھی ہے۔ بیٹیاں تو خدا کی رحمت ہوتی ہیں ناں۔ اگر آج آپ بیٹی کی شادی کی پالیسی لیں گے تو کل کو اس کی شادی کے موقع پر تمام خرچہ کمپنی کے ذمے ہو گا۔ اسی طرح بیمہ ڈاکٹر کی پالیسی بھی ہمارے پاس موجود ہے۔ جس طرح ابھی بیٹھے بیٹھے خدانخواستہ آپ کو کوئی تکلیف ہو جائے اور آپ کی جیب اور گھر میں ایک روپیہ بھی نہ ہو تو اسپتال کا تمام خرچہ ہمارے ذمہ ہو گا۔ سچ بتاؤں تومجھے اب بیٹھے بیٹھے چکر سے آنا شروع ہو گئے تھے اور مجھے لگا کہ میں کرسی سے گر ہی نہ جاؤں۔ انصاری صاحب میں ایک غریب آدمی ہوں، خدا کی قسم میرے پاس کچھ بھی نہیں ہے۔ حتیٰ کہ شائد اس چائے کے بل کے پورے پیسے بھی میرے پاس نہ ہوں۔ میں نے تقریباً التجا کرتے ہوئے کہا۔ ’’سر آپ کیوں پریشان ہوتے ہیں ۔آپ بالکل بے فکر ہو جائیں۔ میری صرف ایک گزارش سن لیں اس کے بعد آپ بے شک پالیسی نہ لیں۔‘‘ مجھے لگا کہ شائد اب جان چھوٹنے والی ہے۔ جی بتائیں انصاری صاحب۔ ’’سر دیکھیں اس ملک میں کوئی سوشل ویلفیئر پالیسی تو ہے نہیں، خدانخواستہ کچھ ہوجائے تو ہر خاندان کو اپنا بوجھ خود اٹھانا پڑتا ہے۔ انصاری صاحب نے گلا صاف کرتے ہوئے کہا۔ کیا مطلب؟ کیا کچھ ہوجائے ؟ میں نے اس کی بات صحیح طریقے سے سمجھی نہیں تھی۔ دیکھیں ہم مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ جو بھی اس دنیا میں آیا ہے اس نے پلٹ کر واپس جانا ہے۔ میرا مطلب اگر پالیسی لے کر کوئی بندہ فوت ہو جائے تو نہ صرف اگلی تمام قسطیں معاف کر دی جاتی ہیں۔ بلکہ ہمارا نمائندہ جنازے کے فوراً بعد رقم پہنچانے خود گھر پہنچتا ہے۔ کریم بخش صاحب کو تو جانتے ہی ہوں گے، آپ کے محلے میں رہتے تھے۔ چند دن پہلے بیچارے جوانی میں ہی چلے گئے۔ ادھر تدفین مکمل نہیں ہوئی تھی کہ میں خود رقم لے کر ان کے گھر پہنچ گیا تھا۔ اس کے بعد مجھے کوئی اندازہ نہیں کہ انصاری صاحب کیا بولتے رہے۔ میں جلدی جلدی وہاں سے اٹھا اور کاؤنٹر پر بل کی رقم پوچھے بغیر جتنے پیسے میری جیب میں تھے بغیر گنے وہاں پھینک کر باہر نکل گیا۔ دس روپے کم ہیں بھائی! پیچھے سے آنے والی آواز کو ان سنی کرتے ہوئے آگے چلتا گیا۔ تھوڑی دیر بعد میرے اوسان کچھ بحال ہونا شروع ہوئے۔ ’قیصرانی صاحب.....‘ بس اسٹینڈ کے قریب پہنچ کے مجھے لگا جیسے کسی نے پیچھے سے آواز دی ہو۔ میں نے رک کر پیچھے دیکھا ، انصاری صاحب کھڑے تھے۔ سر آپ پالیسی نہ لیں مگر میری ایک گزارش تو سن لیں.....!! میرے صبر کا پیمانہ اب لبریز ہوچکا تھا۔ ’’معاف کر دو مجھے‘‘ میں نے آگے بڑھ کر اپنے دونوں ہاتھوں سے اسے پیچھے کی طرف دھکیلتے ہوئے کہا۔ پاؤں پھسلنے سے وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکے اور لڑھک کر نالی میں جا گرے۔ جب وہ اٹھے تو ان کے ماتھے پر ہلکا سا خون کا نشان تھا اور کپڑے کیچڑ سے لت پت تھے۔ خوف کی ایک لہر بجلی کی طرح میری رگ رگ سے گزر گئی اور چشم تصور میں میں نے دیکھا کہ ضرر کے مقدمے میں ہتھکڑی لگائے ایک تھانیدار مجسٹریٹ سے میرے پانچ دن کے ریمانڈ کی استدعا کر رہا ہے۔ انصاری صاحب تھوڑا آگے بڑھے اور دھیمے انداز میں بولے، دھکا دیا ہے، اب تو بیمہ کرا لو۔

تازہ ترین