(گزشتہ سے پیوستہ)
جو پاکستان آپ آج دیکھ رہے ہیں میں نے اس سے بالکل مختلف پاکستان بھی دیکھا ہے۔ یہ جو زندگی میں آج گزار رہا ہوں میں نے اس سے مختلف زندگیاں بھی گزاری ہیں۔رند اور واعظ دونوں کے ساتھ دوستی رہی ہے ایک دلچسپ بات آپ کو بتائوں کہ جامعہ اشرفیہ کے سالانہ جلسے کے موقع پر ٹانگے پر لائوڈ سپیکر لگا کر جلسے کا اعلان کیا جاتا تھا ایک دفعہ یہ خدمت میں نے بھی انجام دی تھی اگلی سیٹ پر بیٹھا مائیک ہاتھ میں لئے لاہور کی سڑکوں پر اعلان کر رہا تھا کہ’’ حضرات جامعہ اشرفیہ کا سالانہ جلسہ فلاں تاریخ کو منعقد ہو رہا ہے جس میں ملک بھر کے جید علماء خطاب فرمائیں گے‘‘ میں یہ اعلان کر رہا تھا کہ مجھے محسوس ہوا کہ گھوڑے کو گیس کی شکایت ہے اور وہ بآواز بلند اس کا اظہار بھی کر رہا ہے میں نے مائیک بند کر دیا اور یوں آوازیں زیادہ دور تک نہ جاسکیں۔ میں نے جو چند ایک زندگیاں گزاریں ان میں لیکچرر شپ ،کالم نگاری، ٹی وی کیلئے ڈرامے جن میں خواجہ اینڈ سن بہت مقبول ہوا پی ٹی وی نے اپنے بارہ بیسٹ ڈراموں میں شامل کیا ہے، الحمرا آرٹس کونسل کا چیئرمین رہا ۔پی ٹی وی کا چیئرمین بننے کی نوبت بھی آئی ناروے اور تھائی لینڈ میں پاکستان کا سفیر بھی رہا اس کے علاوہ ایک طویل عرصہ ماڈل ٹائون میں رہا پھر اچھرے کی ایک کوٹھی کی بالائی منزل میں بطور کرایہ دار رہائش اختیار کی اس دوران ادیبوں کو پلاٹ دینے کا پلان بنایا گیا دو سو روپے رجسٹرڈ ہونے کی فیس تھی جو میں نے بھی جمع کروائی تھی ایک روز میںآفس سیکرٹری حبیب کیفوی جو فخرزمان کے سسر تھے ،کے پاس گیا۔ چونکہ بہت عرصہ گزرنے کے باوجود سوسائٹی کے کوئی آثار نظر نہ آئےتھے۔ میں حبیب صاحب سے کہا میرے دو سو روپے واپس کر دیں میں نے پلاٹ نہیں لینا اللہ مرحوم کو اس کا اجر دے، انہوںنے میری ضد کے باوجود یہ رقم واپس کرنے سے انکار کر دیا ،اس کے بعد ادیبوں کو بس میں بٹھا کر وہ علاقہ دکھانے لے گئے جو ان کیلئے الاٹ ہوا تھا وہاں بندہ نہ بندے کی ذات، ایک وسیع قطہ زمین تھی اور ہو کا عالم تھا ،یہ آج اقبال ٹائون تھا بہرحال بالآخر ہم یہاں آباد ہوئے، دس مرلے کا گھر کیسے بنایا یہ بہت ’’دردناک‘‘ داستان ہے بیشتر لوگوں نے اپنے پلاٹ اونے پونے بیچ دیئے میرے برابر والے دو پلاٹ ابن انشاء اور ممتاز مفتی کے تھے انہوں نے بھی بیچ ڈالے۔
اس طرح میں نے زندگی کے چند سال سائیکل پر گزارا کیا پھر موٹر سائیکل پر آیا اس کے بعد ایک چھوٹی کار سے ہوتا ہوا مرسڈیز تک پہنچا یہ صرف شوق پورا کرنے کیلئے تھی کچھ عرصے بعد بیچ دی اور یہ جو پاکستان آپ آج دیکھ رہے ہیں میں نے اس سے بالکل مختلف پاکستان بھی دیکھا ۔رمضان کے مہینے میں کھانے پینے کی سب دکانیں کھلی ہوتی تھیں بس سامنے پر دہ تان دیا جاتا تھا بڑے شہروں میں یورپ کی طرح کے نائٹ کلب ہوتے تھے لاہور میں بھی ایک نائٹ کلب مال روڈ پر تھا جس میں برہنہ ڈانس ہوتے تھے اس کے علاوہ مال روڈ کی ایک بلڈنگ میں ایک امریکی لڑکی ڈانس کیاکرتی تھی ،بڑے ہوٹلوں میں شراب خانے ہوتے تھے میں جب فورتھ ایئر کا طالب علم تھا ایک بزرگ ہم نوجوانوں سے بہت پیار کرتے تھے چنانچہ ہم ان کے پاس جاتے اور ان کی حکیمانہ باتیں سنتے ایک دن کہنےلگے آئو آج تم لوگوں کو سیر کرائوں ہم تین ان کی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئے اور بزرگ اگلی سیٹ پر تشریف فرما ہوئے بزرگوں نے ڈرائیور کو ریگل کے قریب بریک لگانے کےلئے کہا بریک لگانے کے کچھ دیر بعد اس کے ہاتھ میں اخبار میں لپٹی ہوئی کوئی چیز تھی اس کے بعد دوبارہ گاڑی چل پڑی اور ایک بازار میں داخل ہوئی جہاں سے گانے بجانے کی آوازیں آ رہی تھیں کچھ گھروں کے دروازے کھلے تھے اور ان میں بنی سنوری عورتیں بیٹھی تھیں اور وہاں مختلف قسم کے ساز بھی دھرے تھے ہمیں سمجھ آ گئی تھی کہ ہم کہا ں آئے ہیں۔ ایک گھر کے قریب بزرگوں نے گاڑی رکوائی اور ایک مکان کی سیڑھیاں چڑھ کر مکان کے ڈرائنگ روم میں آ گئے وہاں ایک ادھیڑ عمر عورت نے ان کا بھرپور استقبال کیا اور کہا کہ آپ بہت دنوں بعد آئے ہیں بزرگ نے کہا چلو آ تو گئے ہیں ،اب ان لڑکوں کو خوش کرو کچھ دیر بعد تین خوبصورت لڑکیاں آئیں اور انہوں نے مجرا شروع کر دیا مجرے کے بعد وہ ہمارے ساتھ آکر بیٹھ گئیں، بزرگ نے ہم سے پوچھا کیا ارادہ ہے، میرا دل سخت گھبرا رہا تھا میں نے کہا نہیں اب چلتے ہیں اتنے میں کھانے آ گئے میں نے بمشکل ایک لقمہ چکھا میرا یہ کھانا کھانے کو جی ہی نہیں چاہ رہا تھا بہرحال ہم اٹھے اور وہ نائیکہ ہمیں دروازے تک چھوڑنے آئی۔ میں نے قیام امریکہ کے دوران بھی مختلف زندگیاں گزاریں میں نے ایک فیکٹری میں بطور مزدورانتہائی تھکا دینے والی نوکری بھی کی ایک ہسپتال میں بطور بلڈ ٹیکنیشن بھی کام کیا ایک ریستوران کا مینجر رہا اور آخر میں ہوٹل کا ڈائریکٹر فوڈ بھی رہا یہاں سوٹ بوٹ میں ملبوس رہنا ہوتا تھا کام یہ تھا کہ چیک کرنا ہے کہ فوڈ اور اس سے متعلق دوسری چیزیں ضرورت کے مطابق موجود ہیں، دوسرا کام یہ چیک کرنا کہ سٹاف پورا ہے کون آج اون ڈیوٹی اور کون آف ڈیوٹی ہے اگر کسٹمر زیادہ آ جائیں تو فون کرکے ضرورت کے مطابق سٹاف بلا لینا ہے اس ملازمت کے دوران جس بینک میں میرا اکائونٹ تھا اس کی کیشئر کی جگہ ایک اور لڑکی آ گئی وہ بہت خوبصورت اور بہت نفیس عادات کی حامل تھی اس سے دوستانہ تعلقات قائم ہوتے چلے گئے اور یہ تعلقات بہت پاکیزہ نوعیت کے تھے وہ میرے گھر آجاتی گھریلو کاموں میں میری مدد کرتی ایک آدھ دفعہ فلم دیکھنے بھی گئے اس دوران میں نے واپس پاکستان جانے کا ارادہ کر لیا تھا جانے سے چند دن پہلے میں نے اسے بتایا میں واپس پاکستان جا رہا ہوں، یہ سن کر اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا پوچھا کیوں جا رہے ہو میں نے جواب دیا اسلئے کہ وہ میرا وطن ہے میرے ماں باپ اور بہن بھائی وہاں رہتے ہیں کہنے لگی میں کون ہوں میں نے کہا میری بہت خوبصورت دوست یہ سن کر اس نے مجھے ہگ کیا ،جاتے ہوئے ایک بار مڑ کر دیکھا اور پھر آگے بڑھ گئی۔ (جاری ہے)