• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کو 29 سال بعد بین الاقوامی کرکٹ مقابلوں کی میزبانی کا موقع ملا تو قومی سطح پر نہایت جوش و خروش کیساتھ یہ توقعات قائم کی گئیں کہ دفاعی چیمپئن کی حیثیت سے قومی ٹیم نہایت معیاری کھیل کا مظاہرہ کریگی اور اپنا اعزاز برقرار رکھنے میں کامیاب ہوگی۔ کرکٹ بورڈ کے سربراہ سے لیکر سلیکشن کے ذمے داروں، ماہرین اور تجزیہ کاروں سب نے فتح وکامرانی کے بلند باگ دعوے کرکے اہل وطن کی خوش گمانیوں کو آسمان تک پہنچانے میں بھرپور کردار ادا کیا، لیکن فلک بوس امیدوں کے یہ محل پہلے ہی مقابلے میں شکست و ریخت کا شکار ہونا شروع ہوگئے جبکہ نیوزی لینڈ کے بعد گزشتہ روز بھارت سے بھی قومی ٹیم نہ صرف ہار گئی بلکہ کسی بھی حوالے سے اپنی اہلیت ثابت نہیں کرسکی۔ بھارتی ٹیم نے کھیل کے ہر شعبے میں پاکستانی ٹیم کی نسبت کہیں بہتر کھیل کا مظاہرہ کیا جبکہ قومی ٹیم کی بیٹنگ، بولنگ اور فیلڈنگ سب نہایت مایوس کن رہی۔ نتیجہ یہ کہ آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی میں پاکستان کے ٹورنامنٹ کے سیمی فائنل میں پہنچنے کی امیدیں تقریباً دم توڑ گئی ہیں جبکہ بھارت نے سیمی فائنل میں رسائی حاصل کرلی ہے۔ سیمی فائنل تک پہنچنے کا ہمارا خواب اب اسی صورت میں حقیقت بن سکتا ہے کہ نیوزی لینڈ بقیہ دونوں میچ ہار جائے اور پاکستان بنگلہ دیش کو بھاری مارجن سے شکست دینے میں کامیاب ہو جائے، لیکن اس ہفت خواں کا طے ہونا کتنا دشوار ہے، یہ بات کسی وضاحت کی محتاج نہیں۔ کرکٹ بلاشبہ اتفاقات کا کھیل ہے لیکن آخر بیشتر مواقع پر حسن اتقاق دوسروں کا اور سوئے اتفاق ہمارا مقدر کیوں بنتا ہے؟ قومی ٹیم کی ناقص کارکردگی کا معمول بن جانا اور اچھے کھیل کا بہت کم ہی ثبوت دینا، قومی کرکٹ کے تمام معاملات کی سنجیدگی سے چھان پھٹک کا متقاضی ہے۔ ان شکستوں کی ذمے داری ٹیم کی تشکیل اور تربیت سے متعلق شخصیات پر عائد ہوتی ہے لہٰذا یہ کام اب میرٹ کی بنیاد پر منتخب کئے گئے اہل تر افراد کے سپرد کیا جانا چاہئے۔

تازہ ترین