• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

انسانی تاریخ میں ارتقا کا ہر مرحلہ ایک غالب خیال سے تشکیل پاتا ہے۔ 18ویں صدی روشن خیالی سے عبارت تھی۔ 19ویں صدی صنعتی انقلاب، نو آبادیاتی نظام اورسرمایہ داری کے خلاف ردعمل کا دور تھا۔ بیسویں صدی شروع ہوئی تو دنیا میں ایک بھی ایسا ملک نہیں تھا جسے آج کے بین الاقوامی معیارات کے مطابق جمہوری کہا جا سکے۔ آج دو سو آزاد ممالک میں قریب دس فیصد ممالک میں مکمل جمہوری بندوبست قائم ہو چکا ہے۔ متعدد ممالک میں جمہوری بندوبست ناقص ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جمہوریت سے مکمل طور پر عاری ممالک کی تعداد اقلیت میں ہے۔ لمحہ موجود میں جمہوریت کو مقبولیت پسند سرمایہ داری سے ٹھیک اسی طرح خطرہ لاحق ہے جیسے ایک صدی قبل دنیا پر فسطائیت کے بادل منڈلا رہے تھے ۔ حالیہ تاریخ سے ایک سبق سیکھنا ضروری ہے کہ اپنے زمانے کے غالب دھارے سے انحراف کرنے والی قومیں حتمی تجزیے میں ناکام میں رہتی ہیں۔ گزشتہ صدی میں اٹلی ، روس ، جرمنی اور جاپان سمیت جمہوریت دشمن اور جنگ پسند طاقتیں بظاہر ناقابل تسخیر نظر آتی تھیں لیکن دوسری عالمی جنگ میں اتحادی کامیاب رہے۔ اگرچہ روس جنگ جیتنے والے ممالک میں شامل تھا لیکن جنگ کے فوراً بعد سرد جنگ شروع ہو گئی جو قریب نصف صدی بعد سوویت یونین کے انہدام پر ختم ہوئی۔ اس دوران عالمی جنگ میں شکست خوردہ قوموں کی تعمیر نو اور فاسد خیالات کی تطہیر کے ضمن میں معروف مؤرخ John W. Dower کی کتاب Defeat Embracing کو سند کی حیثیت حاصل ہے۔ جاپان کو ایک صدی تک جنگجوئی اور قوم پرستی کا درس پڑھایا گیا تھا۔ اگست 1945 سے اپریل 1952 تک قریب چھ سال میں جاپان کا دستور مرتب کیا گیا، جمہوری بندوبست اختیار کیا گیا۔ نصاب تبدیل کیا گیا ۔ فوج تحلیل کی گئی اور جنگ کی بجائے پیداواری راستہ اختیار کیا گیا۔ نتیجہ یہ کہ 1990 میں معدنی وسائل سے محروم جاپان امریکا کے بعد دنیا کی دوسری بڑی معیشت بن چکا تھا۔ جرمنی میں نازی فلسفے کی تطہیر کا عمل دیکھنا ہو تو چانسلر ایڈنائر کی سیاست اور نوبل انعام یافتہ گنٹرگراس کی تصانیف دیکھ لیجیے۔ قومو ں کے لیے اپنا فرسودہ بیانیہ تبدیل کرنا آسان نہیں ہوتا۔ اس کے لیے سیاسی تدبر اور اجتماعی بصیرت کی ضرورت پیش آتی ہے۔ پاکستان کے موجودہ سیاسی بندوبست میں بھلے کلیدی معاشی اشاریوں میں کسی قدر استحکام نظر آرہا ہے لیکن جمہوری ثقافت کی روح مفقود ہے۔ بنیادی سبب یہ ہے کہ اجتماعی بیانیے پر نظرثانی کیے بغیر شکستہ عمارت پر کھوکھلے نعروں کے رنگ و روغن سے کام چلانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ زیر نظر تحریر کا عنوان اس نسل کے لیے ہرگز اجنبی نہیں جس نے ستر کی دہائی میں افغان جہاد کاکارِ زیاں دیکھ رکھا ہے۔ اقبال کا یہ مصرع ایک معروف اخبار کی پیشانی پر دہائیوں تک بلاناغہ چھپتا رہا۔ اس دوران افغان پالیسی کی مخالفت کرنے والے زیر عتاب رہے کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو عالمی طاقتوں کی کشمکش میں محض اس لیے دھکیلا جا رہا ہے کہ ضیا آمریت کو طول دیا جا سکے۔ روس کے پاکستان پر حملہ آور ہونے کا دور دور تک کوئی امکان نہیں تھا۔ گرم پانیوں تک رسائی کا تزویراتی ہدف بحیرہ اسود پر سیوسٹاپول کی بندرگاہ سے زار روس کے عہد ہی میں حاصل کیا جا چکا تھا۔ جیسا کہ اس طرح کے بے بنیاد نظریات میں ہوا کرتا ہے ۔افغان جنگ میں امریکی اور سعودی مدد سمیت سرمایہ دار دنیا کی بھرپور حمایت نے مذہبی تشخص حاصل کر لیا۔ گویا افغان جہاد سیاسی مؤقف کی بجائے مذہبی تقاضا قرار پایا۔ اس میں پاکستان میں مذہب کے نام پر سیاست کرنے والوں نے مفادات کی بھرپور فصل کاٹی۔ جنیوا معاہدے کے بعد بھی یہ مشورہ قبول نہیں کیا گیا کہ افغانستان کو اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے۔ طالبان کا پودا بھی ان لوگوں نے کاشت کیا جن کی تربیت ہی اجتماعی پالیسی مرتب کرنے کی نہیں ہوتی۔ طالبان ہر طرح کی سرپرستی کے باوجود ڈیورنڈ لائن کے قضیے سے دستبردار نہیں ہوئے۔ نائن الیون کے بعد خوش قسمتی سے امریکا اور نیٹو نے دہشت گردی کے اعصابی مرکز کی بجائے افغانستان پر حملہ کیا۔ باخبر صحافی اور دانشور بار بار نشان دہی کرتے رہے کہ پاکستان میں مشرف آمریت اپنی طوالت کے لیے طالبان کی درپردہ مدد کر رہی ہے۔ چین اور بھارت کے درمیان واقع پاکستان اپنے محل وقوع کے باعث انتشار کا متحمل نہیں ہو سکتا تھا چنانچہ عالمی رائے عامہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں دوہری پالیسی سے واقف ہونے کے باوجود حقائق سے چشم پوشی کرتی رہی۔ اگست 2021میں امریکی انخلا کے فوراً بعد طالبان نے دوحا معاہدہ روندتے ہوئے کابل پر قبضہ کر لیا اور یہ دلچسپ نقطہ نظر اختیار کیا کہ تحریک طالبان پاکستان تو پاکستان کا داخلی معاملہ ہے اور افغانستان کی سرزمین سے پاکستان پر حملہ آور ہونے والے دہشت گردوں کا افغان حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔ آئے روز پاکستان کے بیٹے ان مذہبی دہشت گردوں کے حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں جو پاکستان پر اپنا تصورِ عالم مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ نصف صدی پرانی افغان جنگ میں یہ پاکستان کے بیانیے کی تیسری شکست ہے۔ طرفہ تماشا یہ ہے کہ کابل کے ہوٹل میں چائے کو لذیذ قرار دینے والے خود پاکستان میں اقتدار کے اتار چڑھاؤ کا شکار ہو چکے ہیں۔ یہ وہی عناصر ہیں جن کی کم عقلی کے باعث پاکستانی معیشت پندرہ سال سے جمود کا شکار ہے اور سیاسی عمل مفلوج ہو چکا ہے۔ ہم آج بھی اپنے اجتماعی بیانیے کے ان زاویوں کی درست نشان دہی نہیں کر رہے جنہیں بدلنے کی ضرورت ہے۔ جن صحافیوں کو کل تک کھلی سرپرستی میں رائے عامہ کو گمراہ کرنے کا منصب سونپا گیا تھا۔ آج ذرائع ابلاغ پر ان کی زباں بندی سے مسئلہ حل نہیں ہو سکتا۔ جمہوریت میں رائے عامہ کھلے مکالمے کی روشنی میں اپنا راستہ تلاش کرتی ہے۔ اگر کسی صحافی نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے تو اس کے لیے عدالت کا راستہ موجود ہے۔ صحافی کی رائے پر پابندی ایسی ہی نقصان دہ ہے جیسے صحافت کو لے پالک صحافیوں کے سپرد کرنا۔ ممکن ہے کہ صاحبان اختیار اس وقت یہ نکتہ سمجھنے سے قاصر ہوں لیکن انہیں گزشتہ عشروں میں اپنے فیصلوں پر ایک نظر ڈال کر سوچنا چاہیے کہ ان کی کامیابی اور ناکامی میں کیا تناسب پایا جاتا ہے؟

تازہ ترین