حکومت نے رواں مالی سال کے بجٹ میں آئی ایم ایف کے مالیاتی پیکیج سے مشروط شرائط کو پورا کرنے کیلئے جہاں ایک طرف محصولات کی وصولی کے ہدف میں تقریباً 40فیصد سے زائد کا اضافہ کیا تھا وہیں برآمد کنندگان کو بھی کسی قسم کا ریلیف فراہم کرنے کی بجائے پہلے سے دستیاب سہولیات بھی واپس لے لی تھیں۔ اس حوالے سے پہلے ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز کو ایک فیصد فائنل ٹیکس رجیم (ایف ٹی آر) سے نکال کرکم از کم ٹیکس رجیم (ایم ٹی آر) میں شامل کیا گیا اور پھر ایکسپورٹ فنانس سکیم کے تحت لوکل سپلائیز پر زیرو ریٹنگ کی سہولت ختم کرکے 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کر دیا گیا تھا۔
ایف بی آر کی طرف سے 25فروری 2025کو جاری ہونے والے ایس آر او 204(1)/2025 کے مطابق ایکسپورٹ فیسیلی ٹیشن اسکیم میں جو تبدیلیاں کی گئی ہیں انکے مطابق درخواست کی وصولی، ریگولیٹری کلیکٹر و دیگر امور کیلئے 67دن کا وقت مقرر کیا گیا ہے جو انتہائی زیادہ ہے۔ یہ مدت 37دن سے زیادہ نہیں ہونی چاہیے اور اس میں بھی سات دن ریگولیٹری کلیکٹر کیلئے مختص ہونے چاہئیںجبکہ 30 دن میں آئی او سی او کا پراسس مکمل ہونے کے بعد اسے ویب بیسڈ ون کسٹم سسٹم میں فائنلائز ہو جانا چاہیے۔ اس سلسلے میں 25 فیصد کوٹے کیلئے بینک گارنٹی کی شرط بھی ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ایس آر او میں تمام کیٹیگریز کیلئے سالانہ بنیادوں پر آڈٹ کی جو شرط عائد کی گئی ہے وہ اس لحاظ سے قابل عمل نہیں کہ ہر کیٹیگری کی ری کنسائل اسٹیٹمنٹ جمع کروانے کی مدت الگ الگ ہے۔ اس کا حل یہ ہے کہ آڈٹ کو پہلے کی طرح ہر دو سال بعد کیا جائے تاکہ انڈسٹری کی کارکردگی متاثر نہ ہو۔ اسی طرح انڈسٹری کی طرف سے مقامی مارکیٹ میں مقررہ حد سے زیادہ مقدار میں ویسٹ کی فروخت پر سیلز ٹیکس کے علاوہ دیگر ڈیوٹیز اور ٹیکسز کے نفاذ کا کوئی جواز نہیں ہے۔ علاوہ ازیں ایکسپورٹ فیسیلی ٹیشن اسکیم کے تحت منگوائی گئی اشیاء کو 9 ماہ میں استعمال کرنے کی پابندی بھی اس لحاظ سے قابل عمل نہیں کہ بعض اشیاء انتہائی کم مقدار میں استعمال ہوتی ہیں۔ اس لئے ان کے استعمال کی میعاد پہلے کی طرح چار سال ہی رکھی جائے تاکہ برآمد کنندگان یکسو ہو کر برآمدات بڑھانے پر توجہ مرکوز رکھ سکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ری کنسائلیشن اور منظوری کی مدت بھی طے کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اگر کسی ری کنسائلیشن کی منظوری نہ ہو تو اس کی فیس ویلیو کو ازسر نو جانچا جا سکے اور پھر دوبارہ منظوری کیلئےپیش کیا جا سکے۔ علاوہ ازیں اس حوالے سے یارن کی مقامی انڈسٹری کے تحفظات کو دور کرنے کیلئے اسے بھی ایکسپورٹ فیسیلی ٹیشن اسکیم میں شامل کیا جا سکتا ہے تاکہ مقامی انڈسٹری کے فروغ اور برآمدات میں اضافے کے اہداف حاصل کئے جا سکیں۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ حکومت نے انڈسٹری کے تحفظات دور کرنے کیلئے جو کمیٹی بنائی ہے اس میں ٹیکسٹائل برآمدات میں سب سے زیادہ شیئر ڈالنے والے نٹ وئیر سیکٹر کی نمائندہ تنظیم پاکستان ہوزری مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کو شامل ہی نہیں کیا گیا ہے۔ اس حوالے سے پی ایچ ایم اے کے چیئرمین حاضر خان کی طرف سے وزیر اعظم شہباز شریف کو خط لکھ کر تشویش کا اظہار بھی کیا گیا ہے۔ ان کا یہ مطالبہ جائز ہے کہ ہوزری اور نٹ ویئر انڈسٹری کی نمائندگی کرنے والی اولین تجارتی تنظیم کے طور پر پی ایچ ایم اے کو کمیٹی میں نمائندگی دی جائے تاکہ اس مسئلے سے متاثر ہونے والے اسٹیک ہولڈرز کے تحفظات کو سن کر ان کا ازالہ کیا جا سکے۔ علاوہ ازیں اگر حکومت برآمدات میں اضافے کا ہدف حاصل کرنا چاہتی ہے تو اس کیلئے بھی نٹ وئیر سیکٹر کی اہمیت واضح ہے جس نے متعدد چیلنجز کے باوجود اپنی لچک اور ترقی کی صلاحیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیگر برآمدی شعبوں سے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
واضح رہے کہ وزیراعظم نے ایکسپورٹ فیسیلی ٹیشن اسکیم کا جائزہ لینے کیلئے جو 12 رکنی کمیٹی تشکیل دی ہے اس میں وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کو کمیٹی کا کنونیئر مقرر کیا گیا ہے جبکہ کمیٹی کے دیگر اراکین میں وزیر خزانہ اورنگزیب، وزیر تجارت جام کمال خان اور چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال شامل ہیں۔ علاوہ ازیں ممبر کسٹمز پالیسی ایف بی آر، ممبر آئی آر پالیسی ایف بی آر بھی کمیٹی کا حصہ ہیں جبکہ سیکرٹری تجارت کمیٹی کے سیکرٹری کے طور پر فرائض انجام دیں گے۔ اس کمیٹی کو دو ہفتوں میں ایکسپورٹ فیسیلی ٹیشن اسکیم کے فریم ورک میں خرابیوں کی نشاندہی کرکے اس کے ازالےکیلئے سفارشات پیش کرنے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ یہ کمیٹی اس بات کا بھی تعین کرے گی کہ آیا ای ایف سی اسکیم مقامی سپلائیز کے مقابلے میں غیر متناسب طور پر درآمدات کے حق میں ہے یا نہیں۔ کمیٹی یہ بھی جائزہ لے گی کہ اس اسکیم کے برآ مدی شعبے کو سپلائی کی جانے والی انٹر میڈیٹ گڈز کے مقامی مینو فیکچرز پر کیا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں کمیٹی اس اسکیم کو مقامی صنعت کی ترقی اور برآمدات میں اضافے کے مقاصد سے ہم آہنگ کرنے کیلئے بھی سفارشات پیش کرے گی۔ اس کمیٹی میں نجی شعبے سے جن اسٹیک ہولڈرز کو شامل کیا گیا ہے ان میں چیئرمین آل پاکستان ٹیکسٹائل ملز ایسوسی ایشن، چیئرمین پاکستان ٹیکسٹائل ایکسپورٹرز ایسوسی ایشن اور چیئرمین پاکستان کاٹن جنررز ایسوسی ایشن شامل ہیں لیکن نٹ وئیر سیکٹر کی نمائندہ سب سے بڑی تنظیم پاکستان ہوزری مینو فیکچررز ایسوسی ایشن کی نمائندگی نہ ہونے سے یہ کمیٹی پہلے ہی متنازع ہو گئی ہے۔ اس لئے ضروری ہے کہ اس میں نٹ وئیر سیکٹر کی نمائندگی بھی یقینی بنائی جائے تاکہ جو بھی سفارشات تیار ہوں انہیں ٹیکسٹائل انڈسٹری کے تمام اسٹیک ہولڈرز کی حمایت حاصل ہو سکے۔