• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک ماہ پہلے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو کیساتھ مشترکہ پریس کانفرنس میں غزہ پر قبضہ کرکے اسے تفریح گاہ بنانے اور اسکے اصل باشندوں کو بے دخل کرکے اردن اور مصر میں دھکیل دینے کا جو سراسر غیر معقول اعلان کیا تھا، عرب ممالک اور عالم اسلام ہی نہیں ، مغربی دنیا میں بھی بالعموم اس پر شدید منفی ردعمل ظاہر کیا گیا ۔ اسکے بعد عرب ملکوں نے غزہ کی بحالی کیلئے متبادل منصوبے پر مشاورت کا آغاز کیا جس کی حتمی شکل منگل کے روزقاہرہ میں عرب ملکوں کے غیرمعمولی اجلاس میں سامنے آئی۔اجلاس میں مصر، سعودی عرب، قطر، اردن، شام اور دیگر عرب ممالک سمیت اقوام متحدہ کے سربراہ، یورپی یونین کے صدر اور اسلامی تعاون تنظیم کے سیکرٹری جنرل شریک ہوئے۔ مصر نے غزہ کی تعمیر نو کیلئے ایک ایسا منصوبہ پیش کرنے کا دعویٰ کیا جو فلسطینیوں کے حقوق کا احترام کرتے ہوئے انہیں ان کی سرزمین پر برقرار رکھے گا۔ 53ارب ڈالر کے اس مجوزہ پانچ سالہ منصوبے میں لاکھوں مکانات، تجارتی بندرگاہ اور ائیرپورٹ کی تعمیر شامل ہے جبکہ فلسطینی علاقوں میں انتخابات اور دو ریاستی حل کی کوششیں بھی منصوبے کا حصہ ہیں۔ اجلاس کے اختتام پر عرب لیگ کے سیکرٹری جنرل احمد ابوالغیط نے اعلان کیا کہ مصر کا منصوبہ اب عرب منصوبہ بن چکا ہے۔ غزہ سے کسی بھی قسم کی بے دخلی ناقابل قبول ہے۔صدر السیسی نے بتایا کہ فلسطینیوں کے ساتھ مل کر ایک انتظامی کمیٹی تشکیل دی جائیگی جو آزاد اور پیشہ ور فلسطینی ماہرین پر مشتمل ہوگی۔ یہ کمیٹی اس وقت تک غزہ کے امور چلانے اور انسانی امداد کی نگرانی کی ذمہ دار ہوگی جب تک کہ فلسطینی اتھارٹی دوبارہ کنٹرول سنبھال نہ لے۔ عرب رہنماؤں کا یہ منصوبہ بلاشبہ وقت کا تقاضا ہے، تاہم اسے اہل غزہ اور ان کی قیادت یعنی حماس کی مکمل مشاورت سے پایہ تکمیل تک پہنچایا جانا چاہیے جن کی قربانیوں نے فلسطینیوں کے حقوق پر کوئی بھی سودے بازی ناممکن بنادی ہے۔

تازہ ترین