دیرینہ اور قابل فخر دوست چین ہمیشہ ہی سے ہر اچھے برے وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا چلا آرہا ہے،جوہمیں سب سے زیادہ قرضے دینے والا ملک بھی ہے۔وفاقی وزارت خزانہ کےاعلامیے کے مطابق چین نے پاکستان پر واجب الادا2ارب ڈالر کی ادائیگی مزید ایک سال کیلئے موخر کردی ہے،جس کی واپسی کی مدت 24مارچ 2025ءکوپوری ہورہی تھی۔ اس سے ملک کے زرمبادلہ کے ذخائر مضبوط رکھنے میں مدد ملے گی ۔ گزشتہ دس برس کے دوران چین اور اس کے کمرشل بینکوں سے حاصل کیے گئے قرضوں میں نمایاں اضافہ دیکھا گیا ہے جبکہ آئی ایم ایف ،دیگر ادارے، دوست ممالک اورعالمی مالیاتی تنظیمیں اس کے علاوہ ہیں۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے تازہ ترین ریکارڈ کے مطابق حکومت پاکستان پرقابل واپسی قرضوں کا حجم 72ہزارارب روپے سے متجاوز ہوچکاہے،جسمیں گزشتہ برس کے دوران ہونے والا 8ہزارارب روپےکا اضافہ شامل ہے۔اقتصادی ماہرین کا یہ کہنا بجا ہے کہ پاکستان کے معاشی بحران کی ایک بڑی وجہ اس پر واجب الادغیر ملکی قرضےا اور ان کی بمعہ سود واپسی ہے۔اس تناظر میں ایک محتاط اندازے کے مطابق ان کی اقساط بمعہ سود ادا کرنے کیلئے سالانہ 25ارب ڈالردرکار ہیں۔ موجودہ حکومت معاشی اصلاحات کی بدولت ملک کو دیوالیہ ہونے سے بچانے میں کامیاب ہوگئی ہے،تاہم پاکستان پر قرضےبدستوربڑھ رہے ہیں۔پبلک اکاؤنٹس کمیٹی نے گزشتہ ہفتے غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی اور سود کی واپسی کے نظام پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا۔وزیراعظم شہباز شریف اپنی معاشی ٹیم کے ہمراہ ملک میں معاشی استحکام لانےاوراسے ترقی سے ہمکنار کرنے میںدن رات کوشاں ہیں۔وہ ملک کوقرضوں سے نجات دلانے کا عزم رکھتے ہیںبہتر ہوگا کہ ان کی واپسی اور ہمیشہ کیلئے ان سےنجات پانےکا ٹھوس فریم ورک تیار کرلیا جائے۔