پہاڑ جھوٹ نہیں بولتے نہ سنتے ہیں
کسی کے سامنے جھکتے نہیں ہیں پل بھر بھی
ور ہم عادی ہو چکے ہیں جھوٹ بولنے کے۔ مسائل کتنے بھی دیرینہ ہوں الجھے ہوئے کروڑوں لوگوں کو متاثر کرتے ہوں۔ ہمارے حکمران طبقے انہیں سنجیدگی سے حل ہی نہیں کرنا چاہتے۔ ملکی ترجیحات ان کی ترجیحات نہیں ہوتیں۔ 1947سے اب تک یہی معمول ہے اسی کے نتیجے میں سقوط مشرقی پاکستان ہوا۔ مسئلہ کشمیر 1948سے صرف مسئلہ ہے ۔سقوط حیدرآباد دکن جونا گڑھ۔ ہمیں ان مسائل سے پیار ہے ان کے حل سے نہیں۔ سندھ پنجاب کا پانی کا مسئلہ ہو ،بلوچستان کے حقوق کا عدالتوں کی ناانصافیوں کا۔ اس غیر سنجیدگی کا ثبوت ہمارے زعما وزراء کے بیانات ہیں۔ پاکستان جتنی عظیم مملکت ہے اور جیسے حساس اہم محل وقوع پر موجود ہے۔ جتنے دریا میسر ہیں۔60 فیصد نوجوان صلاحیتوں اور توانائیوں سے سجے ہوئے۔ ویسے حکمران، کمانڈر، لیڈر، دانشور، ایڈیٹر، علمائے دین ہمیں اللہ تعالیٰ نے عطا نہیں کیے اور یہ المیہ صرف ہمارے ساتھ نہیں ہے جنوبی ایشیا برصغیر جو چاہے نام دیں یہ اس میں شامل سب ملکوں کے ساتھ ہے۔ دنیا بھر میں علاقائی تعاون کی دوسری تنظیمیں آسیان یورپی یونین کتنی کامیاب ہو چکی ہیں۔ اپنے لوگوں کو کتنی سہولتیں بہم پہنچا رہی ہیں۔ سارک تنظیم کے منصوبے اور ان پر عمل سوچنا تو کہاں اس کے اجلاس ہی نہیں ہو پاتے۔
جعفر ایکسپریس کے المناک سانحے کے بارے میں دیکھیے انڈیا کا میڈیا کیسے اچھل اچھل کر ایک ہفتے سے اس پر شادمانی کے ڈنکے بجا رہا ہے اور ایک ہم ہیں کہ کشمیر پر بھارت کے جبر کو ،نوجوان شہیدوں کو، حیدرآباد دکن ،آسام سب کو بھول چکے ہیں، نو مئی 26 نومبر 12 مئی اور کیا کیا ہم پر سوار ہے۔
بلوچستان 1947سے ہی ہماری غیر سنجیدگی کی ایک مجسم مثال ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح گورنر جنرل پاکستان کی حیثیت سے 13جون 1948کوکوئٹہ میں پارسی برادری کے وفد سے گفتگو کر رہے ہیں ’’موجودہ آئین کے تحت بلوچستان کے ضمن میں حکومت کے نظم و نسق اور قانون سازی کے متعلق جملہ اختیارات گورنر جنرل کو حاصل ہیں لہٰذا میں ان حکومتی انتظامی اور قانون سازی کے امور کے بارے میں ضروری کارروائی کا براہ راست ذمہ دار ہوں ۔غلط یا صحیح یہ بوجھ میرے کا ندھوں پر ڈال ہی دیا گیا ہے آپ نے یہ بھی محسوس کر لیا ہو گا کہ ان برسوں کے دوران اس بر عظیم میں سب سے زیادہ بلوچستان کو نظر انداز کیا گیا ہے جن لوگوں پر بلوچستان کی فلاح و بہبود کی ذمہ داری تھی بعض صورتوں میں وہ مجرمانہ تغافل کے مرتکب ہوئے ہیں ۔یہاں کوئی ایک صدی بھر پرانا ایسا نظام حکومت رائج ہے جس کی جڑیں بھی خاصی گہری ہیں۔ یہاں کی انتظامیہ بھی ایک جمود کا شکار ہو چکی ہے‘‘۔
آپ غور کیجئے ’’غلط یا صحیح‘‘ کے الفاظ پر پھر ’’مجرمانہ تغافل‘‘ کی ترکیب۔ وہ77 سال پہلے آئندہ کی منصوبہ بندی بتا رہے ہیں جو اختیار نہیں کی گئی۔ ان کا کہنا ہے ’’جہاں تک بلوچستان کی ترقی کی صلاحیت کا تعلق ہے آپ نے جو کچھ کہا وہ درست ہے میرے پاس اس سلسلے میں بہت سی اطلاعات موجود ہیں اور ہم ان کا جائزہ بھی لے رہے ہیں میں سمجھتا ہوں کہ بلوچستان کی معدنی دولت اس کی زراعت آب رسانی اور مواصلات کے وسائل کی ترقی کے زبردست امکانات ہیں‘‘۔ حضرت قائد اعظم کے بعد آنے والے پاکستان کے سیاسی اور فوجی حکمران قائد اعظم کی ان تقریروں کی روشنی میں ہی اگر بلوچستان کی ترقی کا روڈ میپ بنا لیتے تو یہ مسئلہ اتنی پیچیدگیوں خونریزیوں کا سبب نہ بنتا ۔
پہلے تو یہ دیکھیے کہ 1970میں ون یونٹ توڑنے تک بلوچستان کو صوبے کی حیثیت ہی نہیں دی گئی۔ محققین تلاش کریں کہ 1947 سے 1970 تک 23 سال بلوچستان کو کیا مقام دیا گیا اور اس سنگین محرومی کے دوران ہی یہاں کے کئی رہنماؤں کو پھانسیاں بھی دی گئیں۔1970 کے الیکشن کے بعد مشرقی پاکستان میں پاکستان کی سالمیت کی جنگ لڑی گئی اکثریتی حصہ گنوانے کے بعد بھی ہم نے سبق نہیں سیکھا۔ چند ماہ بعد ہی بلوچستان کی منتخب حکومت ختم کر دی گئی۔ بلوچستان کو 25سال بعد جو صوبے کا مقام ملا وہ بھی چند ماہ بعد چھین لیا گیا۔
بلوچستان میں کبھی معمول کی صورتحال نہیں رہی ہے حالانکہ اسے بہت پڑھے لکھے بابصیرت رہنما میسر رہے ہیں۔ نواب احمد یار خان آف قلات ،نواب محمد اکبر خان بگٹی، خان عبدالصمد اچکزئی، میر غوث بخش بزنجو ،خیر بخش مری، نواب غوث بخش رئیسانی، ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ، جعفر خان جمالی ،قاضی محمد عیسیٰ، ہاشم غلزئی، ڈاکٹر عبدالمالک ان سے میری صحبتیں رہی ہیں۔ آفاقی عالمی علاقائی سیاست معیشت اور تمدن پر ان کی نظریں تھیں۔ پھر امان اللہ گچکی اور ان کے ساتھی پاکستان کے اندر رہتے ہوئے ہی بلوچستان کا مسئلہ حل کرنا چاہتے تھے یہیں سابق جنرل عبدالوحید کاکڑ نے بتایا کہ وہ نواب محمد اکبر بگٹی کو پاکستان کا صدر بنوانا چاہتے تھے۔ بلوچستان میں اب بھی دوسرے صوبوں کی نسبت خصوصی قوانین ہیں اے ایریا بی ایریا ہیں بعض علاقے جہاں پولیس داخل نہیں ہو سکتی عدالتوں کا دائرہ اختیار نہیں ہے۔
میں نے اپنے طور پر کوشش کی، ایک مبسوط کتاب ’’ بلوچستان سے بے وفائی‘‘ مرتب کی۔ جس میں 1969 سے بلوچستان کے دوروں ،اہم ترین بلوچ اور پشتون لیڈروں سے کھلی باتیں، قاضی فائز عیسیٰ کی کوئٹہ انکوائری کمیشن رپورٹ کا مکمل متن بھی دیا اور اس میں پاکستان فوج کا موقف بھی لیاگیا۔قلات پبلشرز کوئٹہ نے شائع کی لیکن حکمران ہوں سیاستدان یا عام شہری ایسی کتاب پڑھنے کی زحمت نہیں کرتے جس میں مسائل کیسا تھ مسائل کے حل بھی بتائے گئے ہوں۔
بلوچستان کے تنازعات کو تو چھوڑیے بلوچستان میں جو خزانے موجود ہیں۔ ان کیلئے بھی ہمارا اجتماعی رویہ دیکھ لیں۔ ریکوڈک میں سونا تانبا ہمارے حالات بدلنے کیلئے بے تاب ہے مگر پچھلی صدی سے ہم اس پر ناگ بنے بیٹھے ہیں پانچ بلین ڈالر کا جرمانہ کروا لیا لیکن یہاں سے ایک اونس سونا بھی آج تک نہیں نکالا ۔
سابق وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی نے ایک دفعہ بتایا کہ ایک امریکی قونصل جنرل ان کے پاس آئے اور ان سے سوال پوچھا کہ فرض کریں بلوچستان آزاد ہو جاتا ہے تو اسلم رئیسانی نے جواب دیا ہم بہک جائیں گے اور ایک دوسرے سے لڑیں گے ۔
میری ایک ایک پاکستانی سے درخواست ہوگی کہ جعفر ایکسپریس کے سانحے کے اسباب کا بہت سنجیدگی اور احتیاط سے تجزیہ کریں۔ ہر ادارہ اپنی غفلتوں کی ذمہ داری قبول کرے۔ جیسے کہ بانی پاکستان نے واضح کیا تھا بلوچستان جنوبی ایشیا کا مستقبل ہے۔ اس کے پاس انرجی ہے، سونا ہے۔ اس کے ذہین نوجوان ایک صبح حسیں کے استعارے ہیں۔ ان کی توانائی اور صلاحیتوں سے پورے خطے کا مستقبل سنور سکتا ہے۔ اس سے پہلے کہ اور کچھ نوجوان بھی ہتھیار اٹھائیں اور دشمنوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنیں ہمیں بلوچستان کے لیے 15 /20 سال کا روڈ میپ بنا لینا چاہئے۔