کوئی بھی گھر سے نہیں نکلتا جب تک کہ گھر شارک کا منہ نہ ہو۔کوئی بھی اپنے بچوں کو کشتی میں نہیں بٹھاتا جب تک کہ پانی خشکی سے زیادہ محفوظ نہ ہو۔ سچ یہی ہےکہ گھر چھوڑنے والےدہشت گرد نہیں ہوتے بلکہ دہشت گردی کا پہلا شکار ہوتے ہیں۔ اسی انسان دوست سوچ کے سبب تقریباً چار پانچ دہائیوں سے پاکستان افغان مہاجرین کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے۔ اس نے جنگ سے تھکے ہارے، بے گھر لوگوں کیلئے اپنےدروازے واکیے، کشمکش کے موسموں کا بوجھ خاموشی سے برداشت کیا، غیر ملکی جنگوں کی بازگشت جذب کی، آنے والوں کو گلے لگایا۔ ہمیشہ پناہ گزینوں کی حمایت کرنے والے ممالک میں پاکستان سرفہرست رہا۔ تاہم اب جب خود مختلف بحرانوں اور چیلنجوں سے دوچار ہے، اسے یہ تکلیف دہ فیصلہ کرنا پڑا کہ اب افغان مہاجرین کی وطن واپسی ناگزیر ہے۔
جنگ میں سب سے بڑا عمل انسانیت کو برقرار رکھنا ہے۔ جنگ کا فیصلہ اور لوگ کرتے ہیں بھگتنا اوروں کو پڑتا ہے۔ افغان، سوویت یونین وار میں جدید تاریخ کی سب سے بڑی نقل مکانی ہوئی اور پاکستان میں افغان مہاجرین کی آبادی 3.5 ملین سے تجاوز کر گئی، لاکھوں افغان مہاجرین کی آمد نے پاکستان کے وسائل بشمول رہائش، صحت کی دیکھ بھال، تعلیم اور روزگار پر بہت دباؤ ڈالا۔ اس نقل مکانی کے بوجھ تلے تمام اضلاع تبدیل ہو گئے، ان کا بنیادی ڈھانچہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا۔ غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث کچھ مہاجرین نے صورتحال کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ افغان مہاجرین کی موجودگی کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بھی تشویشناک حد تک اضافہ دیکھنے میں آیا۔ تحریکِ طالبان پاکستان کی حالیہ سرگرمیوں کے نتیجے میں 2024 میں پچیس سو سے زائد ہلاکتیں ہو چکی ہیں، جو گزشتہ 9 سال میں سب سے زیادہ ہیں اور کسی قوم کا اصل امتحان یہ نہیںکہ وہ جنگ کا جواب کیسے دیتی ہے، بلکہ یہ ہے کہ وہ دہشت گردی کا مقابلہ کس طرح کرتی ہے۔وہ انصاف کیسے کرتی ہے۔ کیونکہ انصاف، انتقام نہیں، دہشت گردی کا تریاق ہے۔
حالیہ برسوں میں بعض افغان باشندوں کے غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے شواہد ملےہیں۔ کراچی میں چار لاکھ سے زائد غیر قانونی افغان باشندے رہ رہے ہیں، جن میں سے 225افغان مختلف جرائم میں گرفتار ہو چکے ہیں، جن میں بعض وارداتوں میں ہلاکتیں بھی ہوئی ہیں۔ یہ صورتحال نہ صرف عوام میں بے چینی پیدا کر رہی ہے بلکہ ملکی وسائل پر بھی ایک غیر ضروری بوجھ بن چکی ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کے سائے بڑے پیمانے پر منڈلا رہے ہیں، ہمیں ایسے حملوں کا سامنا ہے جو اس کی معیشت کو متاثر کرتے ہیں، کمزور کرتے ہیں، غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے، بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے ارد گرد غیر یقینی کی فضا جنم لیتی ہے۔ان حالات میں وزارت داخلہ نے ہدایت جاری کی کہ تمام غیر قانونی غیر ملکیوں کو 31 مارچ 2025 تک ملک چھوڑدینا چاہئے۔ ورنہ انہیں یکم اپریل 2025 سے ملک بدری کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ اسی طرح کی پالیسی ہے جیسی دنیا بھر میں اقوام کی طرف سے نافذ کی جاتی ہے جب ان کی اپنی سلامتی اور معاشی بہبود داؤ پر لگ جاتی ہے۔
یہ فیصلہ بہت پہلے ہونا چاہئے تھا مگر انسان دوستی کے تناظر میں پاکستان نے اپنی معاشی مشکلات کے باوجود افغان مہاجرین کو گلے لگائے رکھا جبکہ دنیا کے بیشتر ممالک نے اپنی آنکھیں بند کر رکھی تھیں۔اب جب ان کی وطن واپسی شروع ہو رہی ہے، ضروری ہے کہ اس وقت عالمی برادری کو افغانستان میں بحالی کے منصوبوں کی حمایت کیلئے آگے بڑھنا چاہیے، اس بات کو یقینی بناتے ہوئے کہ واپس آنے والے پناہ گزینوں کو مزید مایوسی نہ ہو بلکہ انہیں اپنے ملک میں خوش آمدید کہا جائے تاکہ وہ ماضی کے کھنڈرات پر ایک نئی تعمیر کو ممکن کر سکیں۔
افغان پناہ گزینوں کی میزبانی کرنے میں پاکستان اکیلا نہیں ہے، لیکن بوجھ بانٹنے میں تفاوت سخت ہے۔ مثال کے طور پر، جرمنی نے تقریباً 1.8 ملین افغان مہاجرین کو جگہ دی ہے، جب کہ ترکی تقریباً 1.3ملین کی میزبانی کرتا ہے۔ اگرچہ قابلِ ستائش ہے، یہ اعداد و شمار افغانوں کی بڑی تعداد کے مقابلے میں ہلکے ہیں جن کی پاکستان نے گزشتہ برسوں میں میزبانی کی ہے۔ جس سست رفتاری سے دیگر ممالک نے افغان مہاجرین کو قبول کیا ہے وہ ایک تلخ حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے۔ بے شک پاکستان نے اس بحران کا غیر متناسب حصہ اٹھایا۔
افغان مہاجرین وطن واپسی پر مناسب رہائش، روزگار کے مواقع، صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم تک رسائی کے مستحق ہیں۔ بحالی کے ایک منظم پروگرام کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ سو ترقی یافتہ ممالک اور بین الاقوامی تنظیموں کواپنی کوششیں تیز کرنی چاہئیں۔ ایک ذمہ دارانہ انسانی منتقلی کو یقینی بنانے کیلئے، پاکستان کو افغان حکام اور بین الاقوامی اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مل کر واپس آنے والوں کو آسانی سے دوبارہ انضمام کی سہولت فراہم کرنا چاہیے۔ افغانستان کے اندر مالی امداد، پیشہ ورانہ تربیت، اور بنیادی ڈھانچے کی ترقی کی فراہمی اس منتقلی کو آسان بنانے اور مستقبل میں مزید نقل مکانی کو روکنے میں مدد کر سکتی ہے۔
افغان مہاجرین کی حالت زار محض پاکستانی مسئلہ نہیں بلکہ یہ ایک عالمی انسانی چیلنج ہے۔ اگرچہ پاکستان نے کئی دہائیوں سے یہ بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھایا ہوا ہے، اب وقت آگیا ہے کہ دنیا افغانستان کے مستقبل کی تشکیل میں اس کے کردار کو تسلیم کرے۔ بین الاقوامی برادری کو بیان بازی سے آگے بڑھ کر ٹھوس حمایت فراہم کرنی چاہیے۔ چاہے مالی امداد، پالیسی فریم ورک، یا براہ راست مداخلت کے ذریعے، قوموں کو اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ افغانوں کی ایک اور نسل بے گھری اور مایوسی کے دلدل میں پھنس کر نہ رہ جائے کیونکہ واپسی آسان نہیں ہوتی۔