• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کیا سائنسدانوں کو حضرت نوح ؑ کی کشتی مل گئی؟ نئے انکشافات سامنے آ گئے

— فائل فوٹو
— فائل فوٹو 

حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کے بارے میں کچھ نئے انکشافات سامنے آئے ہیں۔

استنبول ٹیکنیکل یونیورسٹی، ایگری ابراہیم سیسن یونیورسٹی اور امریکا کی اینڈریوز یونیورسٹی کے ماہرین2021ء سے ترکیہ کے پہاڑی سلسلے ارارت میں موجود کشتی نما چٹان پر تحقیق کر رہے ہیں۔

اس کشتی نما چٹان کے  بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ وہ حضرت نوح ؑ کی کشتی تھی جو اب فوسلز میں بدل چکی ہے۔

محققین کی ٹیم نے اپنی توجہ ڈوروپنار کی تشکیل پر مرکوز کی ہے جو کہ 538 فٹ کا ارضیاتی ڈھانچہ ہے اور لیمونائٹ پر مشتمل ہے۔

یہ ترکیہ اور ایران کی سرحد پر ترکیہ کے صوبے ایگری کے شہر ڈوگوبایزیت کے قریب کوہ ارارت کی چوٹی سے تقریباً 30 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔

ڈوروپنار کی تشکیل نے اپنی جہاز جیسی شکل کی وجہ سے محققین کو طویل عرصے سے اپنے جانب متوجہ کر رکھا ہے کیونکہ اس کی جہاز جیسی شکل مقدس انجیل میں بتائی گئی حضرت نوح ؑ کی کشتی کی شکل سے ملتی جلتی ہے۔

اب حال ہی میں محققین نے چٹان کی مٹی و پتھروں کے 30 نمونے استنبول ٹیکنیکل یونیورسٹی بھجوائے جن کے تجزیے سے انکشاف ہوا کہ ان میں آبی جیات اور پودوں کی باقیات موجود ہیں جوکہ تقریباََ 3 سے 5 ہزار سال پرانی ہیں۔

اس نئی تحقیق کے دوران سامنے آنے والے نتائج کے بعد محققین کا خیال ہے کہ شاید یہ کشتی نما چٹان ہی حضرت نوح ؑ کی کشتی ہے کیونکہ مقدس انجیل کے مطابق اسے ڈوبے ہوئے بھی اتنا ہی وقت گزر چُکا ہے۔

دوسری جانب قرآن پاک کے مطابق حضرت نوح ؑ کی کشتی کے’کوہِ جودی‘ پر ٹھہری تھی۔

اس حوالے سے کچھ اسلامی ماہرین کا ماننا ہے کہ ’کوہِ جودی‘ پہاڑی سلسلے ارارت میں ہی موجود ہے جبکہ کچھ علماء کا ماننا ہے کہ ترکیہ اور عراق کے سرحد پر واقع ایک پہاڑ کو ’کوہِ جودی‘ ہے جو پہاڑی سلسلے ارارت سے 2 سو کلو میٹر دور ہے۔

خاص رپورٹ سے مزید