تضادستان جب سے بنا ہے اس میں یا تو افسر شاہی سیاست کرتی رہی ہے یا پھر خود افسر شاہی سے سیاست ہوتی رہی ہے۔ یہ ملک بنتے ہی چودھری محمد علی، غلام محمد ملک، سکندر مرزا، اور ان کے کاسہ لیس افسروں نے اہم فیصلے اپنے ہاتھ میں لے لئے۔1954 ءکے بعد پہلے آہستہ آہستہ اور 1958 کے مارشل لا کے بعد تیزی سے سول افسروں سے اقتدار فوجی افسروں کو منتقل ہوگیا مگر پھر بھی قدرت اللہ شہاب اور الطاف گوہر جیسے افسر فیصلہ سازی میں اہم حیثیت رکھتے تھے۔ گو افسر شاہی آج کے ہائبرڈ نظام میں بہت کمزور ہوچکی ہے مگر شہباز شریف اور مریم نواز کے گورننس اسٹائل میں افسر شاہی کا کردار سب سے اہم ہے کیونکہ شریف خاندان اپنے سیاسی اور عوامی فیصلوں پر عملدرآمد اپنی پسندیدہ افسر شاہی کے ذریعے ہی کروانے کا عادی ہے۔ حال ہی میں گریڈ 21 اور 22، جو افسر شاہی کے اعلیٰ ترین درجات ہیں ان میں جو ترقیاں ہوئی ہیں ان پر ایک طرف مبارکبادوں کا سلسلہ جاری ہے تو دوسری طرف مسترد ہو جانے والے افسروں کے گھروں پر سوگ طاری ہے دیکھنا یہ ہے کہ حالیہ ترقیوں میں کتنی سیاست چلی ہے اور کتنی اہلیت؟
وزیراعظم شہباز شریف کے ساتھ سینئر بیورو کریٹ توقیرشاہ نے طویل عرصہ ایک باتدبیر مشیر کے طور پر کام کیا ہے حال ہی میں انہیں باقاعدہ مشیر بناکر وزیر اعظم کی نوکر شاہی اور ان کا دفتر ان کے حوالے کیا گیا ہے گویا اب پرنسپل سیکرٹری کا کام بھی وہ کریں گے اور افسر شاہی اور سیاست کے حوالے سے مشورے بھی دیں گے۔ یہ ایک خوشگوار تبدیلی ہے کیونکہ کئی وزراء کو وزیر اعظم کے دفتر میں اپنے چھوٹے چھوٹے کام بھی رکنے کی شکایت تھی توقیر شاہ کی عدم موجودگی میں شہباز شریف افسر شاہی کے معاملے میں احد چیمہ پر زیادہ انحصار کرتے تھے توقیر شاہ اور احد چیمہ دونوں ہی شہباز شریف کے دیرینہ وفادار رہے ہیں دونوں نے نون کے سرد و گرم موسم دیکھے ہیں اور چیمہ تو باقاعدہ جیل بھی رہے ہیں مگر توقیر شاہ کا تجریہ کافی طویل ہےوہ سیاست سے بھی درک رکھتے ہیں اورنوکر شاہی و سیاسی سوچ دونوں سے آگاہی رکھتے ہیں۔ احد چیمہ، توقیر شاہ کی نسبت زیادہ سخت گرفت کے قائل ہیں ناپسندیدہ افسروں کو معاف کرنے پر جلدی تیار نہیں ہوتے ان کی پسند نا پسند ان کےفیصلوں میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ توقع کی جا رہی ہے کہ توقیر شاہ جیسے تجربہ کار مشیر کے آنے سے وزیر اعظم کے دفتر کی سیاست اور گورننس میں کارکردگی بہتر ہوگی۔
ہم جیسے گوشہ نشینوں کو ایک دن وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری سمیت بہت سے افسروں کی گریڈ 22 میں ترقی کی خبر ملی مگر حیرانی اس وقت ہوئی جب ابھی پرنسپل سیکرٹری اسد گیلانی اپنی ترقی کی دعوتیں کھا رہے تھے کہ انہیں افسر شاہی کی سب سے اہم پوسٹ یعنی پرنسپل سیکرٹری سے ہٹا کر قومی ورثہ کی غیر اہم وزارت کا سیکرٹری بنا دیاگیا اب یا تو ان کی دو دن پہلے گریڈ 22 میں ترقی پر جشن منائیں یا پھر اس حکومت کے دو دن کے بعد کے فیصلے یعنی ان کی غیر اہم پوسٹنگ پر افسوس کریں۔ کوئی تو بتائے کہ یہ کھلا تضاد اور افسر شاہی میں اس کھلی سیاست کی اندرونی کہانی کیا ہے؟۔اسی پر بس نہیں اگر کسی افسر نے تحریک انصاف کے دور میں کوئی اہم پوسٹنگ لی ہے تو اسے اس کی اعلیٰ کارکردگی کے باوجود ترقی کے عمل میں نظر انداز کردیا گیا ہے۔
افسر شاہی جتنی بھی فرعون بنے، چاہے عام لوگوں سے آدھا ہاتھ ملائے پھر بھی اس کی جان صرف دوپیز (Ps) میں ہوتی ہے یعنی پوسٹنگ اور پروموشن۔ اردو میں ترقی اور تبدیلی ان کی نوکری کا محور و مرکز ہوتی ہے حکومت کوئی بھی ہو وہ چاہ رہے ہوتے ہیں کہ انہیں اچھی پوسٹنگ ملے اور جب موقع آئے تو پروموشن بھی ملے۔ اس دفعہ بہت سے افسروں کا خیال ہے کہ انہیں افسر شاہی کی اندرونی سیاست کی وجہ سے ترقی نہیں ملی اور موجودہ حکومت میں افسر شاہی کے پسندیدہ اور سفارشیوں کو بھی ترقیاں مل گئی ہیں جن کی اہلیت ان کے مقابلے میں کوئی ہے ہی نہیں۔خوشی ہوئی کہ آئی جی عثمان انور کو گریڈ 22 ملا کہ انہوں نے خواتین، ٹرانس جینڈر اور محروم طبقات کے ساتھ ساتھ پولیس کی فلاح و بہبود کے لئے بہت کچھ کیا پولیس ملازموں کو اس قدر ترقیاں دیں کہ ماضی میں ایسی مثال نہیں ملتی، پولیس تھانوں کو ڈرائنگ روم بنا دیا اتنی فنڈنگ لائے کہ بھوکی ننگی پولیس آج کل امیر ترین فورس لگ رہی ہے۔ افسوس ہوا ہے کہ شہباز شریف کے خود لگائے جانے والے آئی جی عامر ذوالفقار کو ترقی نہیں ملی، عمران کشور احمد مکرم اور عامر ذوالفقار کیا زبیر ہاشمی سے بھی گئے گزرے تھے؟ زبیر ہاشمی تو چار ماہ بعد ریٹائر ہونے والے تھے۔ عامر ذوالفقار آئی جی موٹر وے آئی جی اسلام آباد بھی رہے۔ اسے بھی کہا گیا کہ رانا ثنا اللہ کے خلاف منشیات کا مقدمہ بنائو مگر وہ تیار نہ ہوا۔ صرف عامر ذوالفقار ہی نہیں ہر وہ افسر جس کے ساتھ زیادتی ہوئی اس کے مداوے کے لئے نظر ثانی بورڈ قائم ہونا چاہیے تاکہ یہ روایت کل کوکسی کے بھی خلاف استعمال نہ ہو۔ کھوج لگایا تو پتہ چلا کہ جن افسروں کو نظر انداز، مسترد یا فی الحال زیر التوا رکھا گیا ہے ان کی وجہ انٹیلی جنس بیورو کی رپورٹس ہیں انٹیلی جنس بیورو کی غیر مصدقہ رپورٹس پر سو فیصد انحصار کسی کے کیریئر کا بیڑہ غرق کردیتا ہے حالانکہ وہ صرف سنی سنائی بات ہوتی ہےاس کی سرے سے کوئی تصدیق نہیں ہوتی۔ سابق ڈپٹی کمشنر لاہور اور ڈی جی فوڈ اتھارٹی جو آج کل ڈی جی وائلڈ لائف ہیں ان کا معاملہ بھی یہی ہے۔ مدثر ریاض ملک نے نور الامین مینگل کی طرح لاہور میں خوشگوار احساس دلانے کی کوششیں کی تھیں مگر اسے احمد عزیز تارڑ، آسیہ گل، جاوید اختر محمود،سقراط امان رانا، ڈاکٹر بلال حیدر، شاہد زمان، ڈاکٹر فیصل ظہور، سیکرٹری قانون آصف بلال لودھی ، شاکر دائود اور علی عباس جیسوں کی طرح نظر انداز کردیاگیا ہے۔ ضرورت ہےکہ اس سارے عمل کی شفافیت کا جائزہ لیا جائے اور حکومتی ڈھانچے کو ماضی، حال اور مستقبل میں چلانے والے ان افسروں کیساتھ انصاف کیا جائے۔افسر شاہی کو اب حکمرانی نہیں عوام کی خدمت کا انداز اپنانا چاہیے۔ کاش افسروں کی ترقی میں عوام کی رائے بھی لی جائے کہ یہ وقت کے فرعون ہیں یا عوام کے خادم!! مگر افسوس افسروں کی ترقی کا فیصلہ عوام نہیں ان سے بھی بڑے افسر کرتے ہیں۔