• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ریاست ہائے عالم اور ان میں بسنے والی اقوام کی ترقی و خوشحالی، اتحاد و استحکام اور امن و تحفظ کا انحصار ایٹ لارج تو ان اقوام کی یکساں، پھر کچھ اپنی اپنی مخصوص انفرادی نوعیت کے لازموں اور ضروریات پر ہوتا ہے۔ اگر یہ ہر دو لازمے اور قومی ضروریات بحسن خوبی پوری ہوتی رہیں تو ان ریاستوں میں ترقی و استحکام و امن عامہ کی صورت جاری رہتی ہے۔ اسی طرح یہ ممالک جملہ نوعیت کی بدنظمی و بے چینی اور بدامنی سے محفوظ رہتے ہیں۔ نظام حکومت و سیاست کوئی بھی ہو جمہوریت یا آمریت یا بادشاہت یا کوئی اور ماڈل یہ سب ہی کسی مخصوص و مفصل ریاستی آئین و قوانین و ضابطوں کے تحت کار فرما رہتا ہے۔ (یہ ہی سب طرح کی ریاستوں کا یکساں لازمہ ہے)ان نظام ہائے ریاست و حکومت، سیاست کے اپنے اپنے نام ہیں صدارتی، پارلیمانی، ری پبلک، آمریت، بادشاہت وغیرہ، دنیا میں جمہوریت کی دو اقسام صدارتی و پارلیمانی غالب حدتک فروغ پذیر ہیں، آمریت، ڈکٹیٹر شپ کی کانوٹیشن (عمومی تاثر) چونکہ منفی سا ہوتا ہے کہ یہ فروواحد کے ہی بنائے چلائے نظام کا عکاس ہوتا ہے، اس لئے اس پر کسی قابل قبول اور پروپیپلز کا تاثر دیتا کوئی لفظی لبادے کا کور بھی لگا دیا جاتا ہے۔

سرد جنگ کے دور(1950-91ء) میں ری پبلک سے کام چلایا جاتاتھا جو تادم جاری ہے۔ کنگ ڈم وغیرہ کے الفاظ بھی استعمال ہوتے رہے یا صحافی اور اسکالرز استعمال کرلیتے۔لیکن یہ حتمی تھا اور ہے کہ ان کا کوئی مستقل سا لگا بندھا ضابطہ (آئین) ضرور ہوتا تھا اور ہے، جس پر یا ایٹ لارج بلکہ بالعموم مکمل اور سختی سے عمل کرتے چلے آ رہے ہیں۔ آزاد و آئیڈیل جمہوریتوں میں عوام کی شراکت سے تشکیل ہوئے آئین یا دستور پر سختی سے اور مکمل ہوتا چلا آ رہا ہے اور اس کا بڑا معروف نتیجہ ترقی یافتہ ممالک کی پہچان کے طور پر موجود ہے۔ یہ اتنا متاثر کن اور عوام کے لئے پسندیدہ اور ان کے مفادات کے تحفظ کا ضامن ہوتا ہے کہ بڑی بڑی سخت گیر آمرانہ ریاستوں اور بادشاہتوں میں بھی ہومیوپیتھک ٹائپ پارلیمان اور الیکشن کا من مانا رواج زمانے کے چلن کے مطابق اختیار کرنا پڑا۔ جن ملکوں نے اپنی مسلسل فروغ پذیر ’’جمہوریت‘‘ کو اختیار کرنے کا عزم باندھا وہ اگر ’’ترقی یافتہ‘‘ یا آزاد جمہوریت کے درجے پر ابھی نہیں بھی آئے تو اپنے آئین یا دستور کو ممکنہ حد تک اختیار کرنے اور اس اختیاریت کے درجے میں اضافہ کرنے سے ترقی و استحکام و اتحاد کے اگلے اہداف حاصل کرتے رواں دواں رہے، یوں ان کا کسی درجے کا کم سے کم اتحاد و استحکام برقرار رہا۔ یہ معاشی و سیاسی قومی زندگی کے حوالے سے اتار چڑھائو میں تو رہے لیکن کسی بڑے یا مسلسل بحرانی کیفیت سے بچے رہے۔

واضح رہے کچھ نہیں سب ہی ریاستوں کے لازموں میں حلف برداری یا حکومتی روایات و رسومات کی سختی سے پابندی ریاستی لازمے کے طور پر قائم دائم رہتی ہے ان کی کوئی نہ کوئی اپنی اپنی منطق یا فلاسفی بھی ہوتی ہے، جوبھی ہوتی ہے یہ ریاستی نظام کے لئے استحکام بخش اور عوام کےلئے قابل قبول اور لازم سمجھی جاتی ہے۔ ان میں سب سے نمایاں اور دنیا بھر کی ریاستوں میں حلف برداری ہی وہ لازمہ ہے جس کا سختی سے پابند رہنا ریاستی نظام کے کلیدی، بااختیار و مقتدر ترین مناصب داروں کے ریاستی فرائض کی انجام دہی کا لازمہ ہے۔

یہ پابندی ریاستی نظام کے علاوہ بنیادی طور پر اخلاقی اور وطن و نظام و عوام کا وفادار رہنے کا عہد ہوتا ہے۔ اسی لئے اس میں بنیادی مذہبی عقائد کا لازمی سہارا لے کر اپنی وفا اور فرض شناسی کا یقین عوام الناس کو دلایا اور نظام کا پابند ہوا جاتا ہے۔ پاکستان و ایران جیسی اسلامی جمہوریتوں میں تو اعلیٰ ریاستی منصب داروں اور منتخب نمائندگان برائے پالیسی و قانون سازی کیلئے حلف برداری کی پابندی کی اہمیت بے پناہ ہے کہ:بلاشبہ کل کائنات کے مقتدر اعلیٰ (اصلی مساوات پاور) اللہ تعالیٰ کے حضور اپنے ریاستی فرائض کا پابند رہنے کا عہد ایک مقدس عزم کی حیثیت رکھتا ہے کہ روز آخرت وہ اپنے دنیاوی اعمال کی جوابدہی میں ترجیحی و اولین ہوں گے۔

قارئین کرام! آشوب کے گرداب میں آئے ’’اسلامی جمہوریہ پاکستان‘‘ کے جاری قومی موضوعات کے رونے دھونوں میں سے ایک بڑا بہت پیچیدہ اور انتشار و اختلاف مسلسل کا باعث بننے والا ایک موضوع پاکستان کی تاریخ کے مسخ ہونے کا ہے۔ یہ واویلا جیسے تیسے اہل دانش اور پڑھے لکھے طبقے سے اب نئی نسل کو بلند درجے پر اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ اس نے ان (نئی نسل) کی قومی سوچ کے حوالے سے ذہنی پیچیدگی میںبہت اضافہ کردیا کہ سراپاسیاسی ہوگئے۔ شدت سے ہٹے کٹے بزرگوں، براجمان و قابضین اقتدار و اختیار اور ان کے ’’پیرو کار‘‘ اہل دانش نے ان کے سامنے تاریخ کی اپنی اپنی ایسی ایسی تشریح اور گمراہ کن حوالے گھڑے ہیں کہ سن کر پڑھ کر، تجزیوں کی بھرمار سے ان کا دماغ پھٹا جاتا ہے یا وہ اپنی کسی غیر پختہ سی سوچ ورائے کے اسیر ہو جاتے ہیں۔ کیوں نہ ہوں جب ان کے سامنے اور قومی ابلاغی دھارے کےبڑھتے حجم میں پاکستان کیسی ریاست؟ کا سوال کا ہر جواب ہی متنازعہ ترین موضوعات میں کلیدی ہو تو ان کا کیا قصور کہ وہ ہر رستم زماں کے اپنے اپنے مقصد قیام مملکت کے مقابل الجھ کر اپنی تازہ لیکن بری ڈسٹربڈ سوچ و اپروچ سے کوئی رائے سچی رہنمائی اور بااعتبار لٹریچر کی بجائے اپنی آزاد سوچ سے تشکیل نہ دے لیں۔

بڑا قومی ستم یہ بھی ہے کہ نئی نسل کو الجھانے والے بااختیار مگر بے اعتبار اکابرین پاکستان (ایٹ لارج) پاکستان کی حقیقت کے تجسس کے اسیر تازہ ذہن نوجوانوں کی مسخ تاریخ میں جکڑ اور ٹیلر میڈ تاریخ سازوں کی اکڑ سے پیدا ہونے والی ان کی علمی پریشانی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ ایسے کہ وہ ٹیلر میڈ نظام ریاست کی عشروں کی الجھی تاریخ کا ناجائز فائدہ اٹھا کر انہیں سوال کرنے یا اپنی رائے دینے پر گستاخ قرار دینے کا ’’بزرگانہ‘‘ مزاج رکھتے ہیں۔ قارئین کرام! پاکستان کی تاریخ کا یہ حشر قیام پاکستان کے 76 سالہ تاریخ کے سات عشروں میں ہوا۔ اس کے پس منظر میں 72 سالہ تاریخ تحریک قیام پاکستان، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے قیام (1875ء) تا تشکیل پاکستان (1947ء) کی سات عشروں سے زائد کی تاریخ حسرت و یاس و مایوسی میں غرق ہندی مسلمانوں کے روشن مستقبل کی فقط امین ہی نہیں رہی قیام پاکستان کا قیام بلاشبہ پوری مسلم دنیا کے لئے تابناک مستقبل کے طلوع کی مانند تھا۔ جو ایک عظیم تر نتیجہ خیز علمی سیاسی و تحریک کا حاصل تھا۔ (جاری ہے)

تازہ ترین