• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ویسے تو تضادستان کا دامن اتنا وسیع ہے کہ اس میں کئی رنگا رنگ پاکستان سما سکتے ہیں مگر گزشتہ روز دو متضاد پاکستانوں کی کہانی ایک ہی روز کے اخبارات میں پڑھی تو سوچا کہ ایک ہی مُلکھ میں ہم اس قدر متضاد رویوں کے حامل کیوں ہیں ،آخر ہم مقابل جہات میں رواں دواں کیوں ہیں؟

ایک سرکاری ادارے الحمرا آرٹ سنٹر میں ایک فنکار نے مُلکھ (ملک) کی ٹاپ کی کلاسیکی رقاصہ ناہید صدیقی کے آرٹ اور فن کو عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کی ایک پابہ رقص پینٹنگ ارباب اختیار کو پیش کی کہ وہ اس قابل فخر فنکارہ کی تصویر ایک فن پارے کے طور پر الحمرا آرٹ سنٹر میں آویزاں کریں تاکہ اس تصویر کو دیکھ کر فن و آرٹ کی مزید ترویج ہو اور نئی نسل ناہید صدیقی کے رقص و فن کو مشعل راہ بنا کر پاکستان میں مزید ایسا ٹیلنٹ پیدا کرسکے۔

اب دوسری خبر پڑھیں۔ اسی پنجاب کی ایک سرکاری یونیورسٹی میں رحیم یار خان میں قوالی کی محفل برپا کی گئی قوالی کے دوران دو پروفیسرز اور طالبات نے قوالی پر دھمال ڈالی جس پر پروفیسروں کے خلاف انکوائری شروع کردی گئی ہے کیونکہ وہ قوالی سن کر دھمال پر آمادہ ہوئے اور پھر کیونکہ انہوں نے طالبات کو دھمال سے نہ روکا اور نہ خود رکے۔ یہ پتہ نہیں چل سکا کہ اس انکوائری کے نتیجے میں ان ’’اوباش‘‘ پروفیسروں کو کیا سزا ملے گی اور پھر ان طالبات کا کیا ہوگا جو دھمال جیسے گناہِ عظیم کی مرتکب ہوئیں۔

اب ایک طرف اسی حکومت کے سرکاری ادارےمیں رقص اور رقاصہ کو فن اور آداب و اخلاق کی ایک عمدہ مثال بنا کر پیش کیا جا رہا ہے۔ اسی ملک کی ایک سرکاری یونیورسٹی میں موسیقی اور دھمال کوگناہ تصور کیا جا رہا ہے۔ دلچسپ بات ہے کہ پچھلے 75 سال سے حکومت اور ریاست میں اسی طرح کی دوعملی چل رہی ہے خاص کر آرٹ، کلچر اور تاریخ جیسے ’’غیر اہم‘‘ موضوعات پر ریاست اور حکومت کی لمبی خاموشی جاری رہتی ہے آرٹ کے فروغ کے ادارے رقص، موسیقی، مصوری کو فروغ دینے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں ۔پولیس فن کاروں کو میراثی گردانتی ہے اور سرکاری ادارے ان پر قدغنیں لگاتے رہتے ہیں یہی وجہ ہے کہ نہ ہم فنون اور ثقافت کو ’’اون‘‘ کرتے ہیں اور بطور انسان انہیں ’’ڈس اون‘‘ بھی کر نہیں پاتے۔ تضادات کی بھرمار ہوتی ہے یہی ہماری بیماری ہے اور اس سے نکلنا ہی ہمارا حل۔

یہ درست ہے کہ پاکستان کو اپنی تہذیبی شناخت کے حوالے سے مسائل رہے ہیں ایک طرف تو ہماری مسلم شناخت ہے جسکی وجہ سے پاکستان بنا اور دوسری طرف ہماری اس خطے میں صدیوں سے موجودگی، یہاں کی ثقافت، رہن سہن اور مقامی اثرات ہیں۔ ممتاز ادیب احمد ندیم قاسمی نے تو اس مسئلے کا حل یہ نکالا تھا کہ پاکستان کی تاریخ و تہذیب کا آغاز محمد بن قاسم کے سندھ میں آنے سے نہیں موہنجودڑو سے ہوتا ہے ۔ دوسری طرف کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ ہم اس خطے کے لوگوں سے الگ ہیں ہماری تہذیب و شناخت مختلف ہے اور ہم عربوں سے صرف مذہب ہی نہیں شیئر کرتے ہمارا ان سے ثقافت، تہذیب اور رویوں کا بھی اشتراک ہے، اسی لئے کئی دوست اپنے اس تعلق کا اظہار پاکستان کو عربی بنا کر’’ الباکستان ‘‘لکھا کرتے ہیں۔

میری طالب علمانہ رائے میں ہمیں اپنی اسلامی اور تاریخی شناخت دونوں کو ملا کر چلنا چاہیے۔ سعودی عرب میں اب بھی بڑے فخر سے زمانہ جاہلیت کی عربی شاعری پڑھی اور سنائی جاتی ہے وہاں کے شاہی خاندان کا رقص اکثر تقریبات میں نظر آتا ہے۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان تو ایک جدید شناخت بنانے کے قائل بھی لگتے ہیں۔ سعودی عرب میں آئے روز موسیقی کے کنسرٹ ہو رہے ہیں، عورتیں ڈرائیونگ کر رہی ہیں اور ہم قوالی پر دھمال ڈالنے والوں پر حد نافذ کر رہے ہیں۔ سعودی عرب میں ابھی کل تک کالے رنگ کا برقع ہوا کرتا تھا ڈرائیونگ پر پابندی تھی وہاں آزادیاں مل گئیں مگر یہاں قوالی میں ان کے اٹھنے پر ابھی تک پابندیاں ہیں۔ آج کی دنیا میں ملک الگ تھلگ نہیں رہ سکتے اب سوائے طالبان کے افغانستان کے دنیا کے کسی بھی مسلمان ملک میں عورتوں پر پابندیوں کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔

مسلمان دنیا میں پاکستان وہ واحد خوش قسمت ملک ہے جس نے ساری مسلم دنیا سے پہلے قائد اعظم اور علامہ اقبال کے دور ہی سے یہ اعتراف کرلیا تھا کہ مسلم دنیا کے آگے بڑھنے کا واحد راستہ جمہوریت ہے۔پاکستان کا آئین دنیا کا وہ پہلا آئین ہے جس میں اسلام اور جمہوریت کا ملاپ پیش کیا گیا ہے۔ قائد اعظم محمد علی جناح اور ان کی بہن فاطمہ جناح مسلم دنیا کی خواتین کی تعلیم اور ان کی آزادیوں کے بہت بڑے چیمپئن تھے۔ آج کے دور میں ساری سیاسی جماعتوں کو جہاں عورتوں کے حقوق کے حوالے سے واضح پالیسیاں بنانی چاہئیں وہاں ثقافت کے حوالے سے بھی اپنا نقطہ نظر واضح کرنا چاہیے۔ اب جبکہ جماعت اسلامی موسیقی کے ساتھ اپنے سیاسی نعرے لگاتی ہے تو کیا ہمیں موسیقی کے بارے میں اپنے ماضی کے رویوں پر نظر ثانی نہیں کرنی چاہیے۔ اب جبکہ ٹی وی اور سوشل میڈیا کے زمانے میں فلم، تھیٹر اور دیگر فنون کی ہر ہاتھ میں رسائی ہو چکی ہے اپنے نظریات میں ترمیم نہیں کرنی چاہیے۔

اس حوالے سے حکومت پاکستان اور حکومت پنجاب کو پہلا قدم اٹھانا چاہیے رحیم یار خان میں ہونے والی انکوائری کو روکنا ایک اہم سگنل ہوگا۔ دوسری طرف قائد اعظم اور فاطمہ جناح کے تصورات پر چلتے ہوئے خواتین کو شانہ بہ شانہ ترقی کے مواقع فراہم کرنا بھی سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے انہیں چاہیے کہ محفوظ نشستوں پر خواتین امیدواروں کو کھڑا کریں تاکہ ان کی حوصلہ افزائی ہو اور ان کے اعتماد میں اضافہ ہو۔ عورتوں نے آگے بڑھنا ہے تو پاکستانی معاشرے نے آگے بڑھنا ہے ہم نے دو یا تین پاکستان رکھے تو آگے نہیں بڑھ سکیں گے جتنے تضادات کم ہوں گے اتنی ترقی تیز تر ہوگی۔

تازہ ترین