اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان اپنی افغان اور افغانستان پالیسی دونوں کو حتمی شکل دے۔
میں نے 17اگست 2021ءکو کہا تھا ابھی کوئی جشن منانے کی ضرورت نہیں ہے غبار چھٹنے دو۔اب غبار چھٹ رہا ہے مارچ کا آخری اور رمضان المبارک کا آخری عشرہ جنوبی ایشیا ہی نہیں پورے عالم اسلام، پوری دنیا کیلئے بہت اہم اور حساس رہا ہے کہ طالبان نے اپنی امریکی پالیسی واضح کر دی ہے اور ایک اعلیٰ اختیاراتی وفد کو کابل آنے دیا۔ زلمےخلیل زاد خود افغانستان کے فرزند ہیں اور ایک طویل عرصے سے افغان امریکہ پاک تعلقات کیلئےسرگرم ہیں۔ امریکہ بھی اپنی افغان پالیسی صدر ٹرمپ کی دھمکیوں اور بڑھکوں کے بعد طے کر چکا ہے۔
20 مارچ 2025ءکو امریکی وفد نے افغان وزیر خارجہ امیر متقی سے مذاکرات کیے جنہیں پوری دنیا کامیاب اور نتیجہ خیز کہہ رہی ہے۔ اس کے فوراً بعد ہی پاکستان کے سفیر محمد صادق ایک لاٹھی ٹیکتے ہوئے امریکی وفد سے مذاکرات سے سرشار امیر متقی سے ملے، یقینا یہ ایک دوسرے کا تسلسل ہے۔ اس خطے کی تاریخ اسی تکون کی صلیب پر لٹکی رہی ہے۔ امریکہ پاکستان افغانستان۔ واشنگٹن اسلام آباد کابل۔ کھلاڑی بدلتے رہے ہیں کھیل کے میدان یہی رہے ہیں۔ وائٹ ہاؤس۔ ایوان صدر۔ افغان سیکریٹریٹ ۔کتنی لاشیں گری ہیں۔ کتنا خون بہا ہے۔ روس افغانستان میں کابل حکومت کے بلاوے پرآیا گزشتہ صدی میں۔ تب امریکہ پاکستان اکٹھے ہوئے۔ 21ویں صدی کے پہلے سال میں ہی نیویارک میں سعودی پائلٹ جہاز لے کر جڑواں ٹاورز سے ٹکرائے تب امریکہ پاکستان پر چڑھ دوڑا ٹیلی فون پر دھمکیاں۔ پتھر کے زمانے میں لوٹا دیں گے۔ اس خطے کے گندمی باشندوں نے امریکہ یورپ کے گوروں نے اس عرصے میں کیا کچھ مناظر نہیں دیکھے۔ جہادیوں نے اپنے جسم کو ہتھیار بنا لیا۔ جوان سال مسلم کبھی القاعدہ کبھی داعش اور کون کون سی تنظیموں کےآتشیں کھلونے بن گئے۔ فلسطین اسی طرح سلگتا رہا۔ کشمیر اسی طرح کڑھتا رہا لیکن مسلمان ممالک اسرائیل کے سرپرست امریکہ کے اتحادی بنتے گئے۔ کابل میں 20سال امریکہ یورپ کی طاقتور فوجیں کس طرح خیمہ زن رہیں۔ 20 سال بعد پھر امریکہ اپنے لاؤ لشکر سمیت کیسے کابل سے رخصت ہوا۔ 30اگست 2021ءکو آخری امریکی جہاز بھی افغان سرزمین چھوڑ گیا۔
21ویں صدی میں بھی انسان جنوبی ایشیا میں وہی سولہویں اٹھارویں صدیوں کے جنگی جنون میں مبتلا رہا۔ کیا امریکی، کیا یورپی، کیا ایشیائی ذہن سارے فلسفے ناکام۔ ساری حکمتیں زمیں بوس۔ آزاد طاقتور پرنٹ برقی میڈیا سب جنوبی ایشیا میں امن برقرار رکھنے میں ناکام رہے۔
امریکہ بھی پہلی بار ناکام سپر طاقت بنا اس کی ہمیشہ خواہش رہی اور کوشش بھی کہ جنگی مار دھاڑ اس کی سرزمین سے دور رہے۔ بحر اوقیانوس، بیربحر الکاہل اس کی سرزمین کے محافظ بنے رہیں۔ نائن الیون کس نے کیا ۔خود امریکہ نے یا القاعدہ نے۔ القاعدہ کس نے بنائی۔ کیوں بنائی؟ کتابیں چھپ گئی ہیں لاکھوں صفحات سیاہ کیے گئے ہیں امریکہ تو اپنے مفادات پورے کرتا آرہا ہے ڈیموکریٹ ریپبلیکن آپس میں بے شک لڑیں ٹرمپ بدمست ہاتھی کی طرح امریکی روایات کو روندتا پھرے لیکن یہ سب اسرائیل کیلئے ایک سی محبت اور عشق رکھتے ہیں اسکی جارحانہ کارروائیوں میں بھرپور مدد کرتے ہیں۔ پاکستان 1971ءمیں دولخت ہونے کے بعد افغان تار عنکبوت کا شکار ہو گیا۔ کہا گیا کہ پاکستان کی کمر بہت پتلی ہے اس لیے افغانستان ہماری دفاعی گہرائی ہے۔ امریکہ نے بھی ہلہ شیری دی۔ 1979ءسے جنرل ضیا نے ہمیں جنوبی ایشیا کا لاوس بنا دیا کبھی براہ راست میدان جنگ کبھی اپنے ناکارہ امریکی ہتھیاروں کا گودام۔ ہمارے اڈے تو 1960 ءکی دہائی سے استعمال ہو رہے ہیں اور اس پہ چیخوف نے نشان بھی لگا دیا تھا، آخری بار جیکب آباد کا اڈہ استعمال ہوا۔
ملک میں آزاد ترین تجزیہ نگاروں نے اسے تاریخ کا جبر سمجھ کر برداشت کیا ۔امریکی محکمہ خارجہ کے مہمان بننے والے دانشوروں نے امریکی پالیسیوں کو وقت کی ضرورت قرار دیا۔ آج 2025ءکے تیسرے مہینے میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟
بنوں میں کیا ہو رہا ہے بلوچستان میں کتنا اضطراب ہے۔ خیبر پختون خوامیں گھر گھر کتنی بے چینی ہے۔ پنجاب میں چنگاریاں کیوں سلگ رہی ہیں۔ سندھ پھر دریائے سندھ پر نئی نہروں سے ناراض ہے۔
حکمران حقیقی نمائندے ہوں یا نہیں بہت طاقتورہیں سب ایک صفحے پر ہیں لیکن مشکل یہ ہوئی ہے کہ دوسری طرف واہگہ سے گوادر تک عام پاکستانی بھی پہلی بار ایک صفحے پر ہیں۔ غبار پاکستان کے افق سے بھی چھٹ گیا ہے اور پاکستانیوں کے ذہنوں سے بھی۔ افغانستان کے آسمانوں سے بھی امریکہ کی فضاؤں سے بھی؟
اب پاکستان کے حکمرانوں کی پہلی ذمہ داری یہی ہے کہ سب سے پہلے اپنی افغان اور افغانستان پالیسی مرتب کریں۔ عوام کو اعتماد میں لیں افغان اور افغانستان پالیسی الگ الگ لکھ رہا ہوں کہ یہ ہمیشہ سے دو رہی ہیں۔ افغان جہادیوں کیلئے الگ افغان حکمرانوں کیلئے الگ۔
امریکہ اپنی سمت کا تعین کر چکا ہے۔
افغانستان کے طالبان نے بھی اپنے ملکی مفادات طے کر لیے ہیں اور وہ کامیاب بھی ہیں وہاں امن ہے دہشت گردی نہیں ہے۔ افغان جنگی سرداروں کی روایتی لڑائیوں کی خبریں نہیں آ رہیں۔ افغان کرنسی مستحکم ہے۔ اب وہ کسی طرح بھی پاکستان کا سہارا نہیں ڈھونڈ رہے۔
مسائل اور بحران صرف پاکستانیوں کیلئے ہیں۔ مینڈیٹ کا بحران۔ عوام اور ریاست میں بے اعتمادی ۔ایوان صدر میں تمغوں کی تقسیم پر سوگ۔ پھر تخریبی اور دہشت گردی کی کارروائیاں بڑھ رہی ہیں عام پاکستانی بہت پریشان ہے رمضان کا تقدس مجروح ہورہا ہے، عبادات میں خلل پڑرہا ہے۔ پورے پاکستان میں مائیں بہنیں بھائی اللہ سے امن کی دعائیں مانگ رہے ہیں ۔سیاستدان خاموش تماشائی بنے ہیں عوام سے رابطے نہیں کر رہے۔لگتا ہے جیسے شعوری طور پر یہ ایک دوسرے کی ناکامی کے خواہاں ہیں۔ کل یہی ایک دوسرے کو بدحالی کا ذمہ دار قرار دے رہے ہونگے۔
واقعات زیادہ تر خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں ہو رہے ہیں۔ ان دونوں کی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں اس لیے پاکستان کو سب سے پہلے واضح حقیقی افغانستان پالیسی کا تعین کرنا چاہیے۔ طورخم کی صدا بھی یہی ہے اور چمن کی بھی۔ اسلام آباد اور پنڈی تک یہ فغاں جارہی ہو گی۔