• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نوجوانوں کو روزگار کے ذریعے ہی تخریب کاری کا ایندھن بننے سے روکا جاسکتا ہے

بلوچستان بورڈ آف انویسٹمنٹ اینڈ ٹریڈ کے وائس چیئرمین، بلال خان کاکڑ سے بات چیت
بلوچستان بورڈ آف انویسٹمنٹ اینڈ ٹریڈ کے وائس چیئرمین، بلال خان کاکڑ سے بات چیت

انٹرویو: فرّخ شہزاد ملک، کوئٹہ

کسی بھی مُلک کی معاشی ترقّی و استحکام کے لیے سرمایہ کاری بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ سرمایہ کار کمپنیز جب اپنا سرمایہ مختلف شعبہ جات میں لگاتی ہیں، تو اس سے پیداواری عمل بڑھتا ہے، برآمدات میں اضافہ اور روزگار کے مواقع پیدا ہوتے ہیں۔ 

سرمایہ جنریٹ ہوتا ہے اور مقامی کرنسی مضبوط ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند برسوں سے وفاقی اور صوبائی حکومتیں پاکستان میں مُلکی و بیرونی سرمایہ کاری کی کوششیں کر رہی ہیں۔ اِس حوالے سے وفاق سمیت چاروں صوبوں میں سرمایہ کاری بورڈز بھی قائم ہیں، جو سرمایہ کاروں کو راغب کرنے اور سہولتیں فراہم کرنے کے ضمن میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔

بلوچستان کی بات کی جائے، تو یہ سرمایہ کاروں کی جنّت ہے، یہاں مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری کے روشن امکانات اور وسیع مواقع موجود ہیں۔ بلوچستان بورڈ آف انویسٹمنٹ اینڈ ٹریڈ صوبے میں سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ بورڈ کے وائس چیئرمین، بلال خان کاکڑ کوئٹہ کے علاقے بوستان سے تعلق رکھتے ہیں اور گزشتہ برس ہی اُنہیں یہ ذمّے داری تفویض کی گئی ہے۔

اُنہوں نے ابتدائی تعلیم گریژن اکیڈمی، کوئٹہ کینٹ سے حاصل کی۔ انٹر ایف جی کالج کوئٹہ، جب کہ گریجویشن اور ماسٹرز کی ڈگریز جامعہ بلوچستان سے حاصل کیں۔ گزشتہ دنوں بلال خان کاکڑ کے ساتھ صوبے میں مُلکی و بیرونی سرمایہ کاری سے متعلق تفصیلی نشست ہوئی، جس کا احوال جنگ،’’سنڈے میگزین‘‘ کے قارئین کی نذر ہے۔

نمائندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے..... تصاویر: رابرٹ جیمس
نمائندہ جنگ سے بات چیت کرتے ہوئے..... تصاویر: رابرٹ جیمس

س: بلوچستان بورڈ آف انویسٹمنٹ اینڈ ٹریڈ کے قیام کا بنیادی مقصد کیا ہے؟

ج: اِس بورڈ کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ صوبے کے جن شعبوں میں سرمایہ کاری کے مواقع موجود ہیں، اُنہیں اندرون اور بیرونِ ممالک اجاگر اور سرمایہ کاروں کو یہاں سرمایہ کاری کے لیے آمادہ کیا جائے۔ بلوچستان بورڈ آف انویسٹمنٹ اینڈ ٹریڈ سرکاری و نجی شعبوں کے مختلف اداروں کو سرمایہ کاری کی سہولتوں، طریقۂ کار سمیت انتظامیہ اور اسٹیک ہولڈرز کے درمیان کوآرڈی نیشن میں معاونت کا فریضہ سرانجام دے رہا ہے۔

نیز، کاروباری افراد اور سرمایہ کاروں کی راہ میں حائل ابتدائی رکاوٹیں دُور کر کے کاروباری سرگرمیوں میں آسانی، پراجیکٹس کی پیشگی منصوبہ بندی سے لے کر رِسک مینجمنٹ تک خدمات کی فراہمی اور پائے دار ترقیاتی ماڈل پر آسانی سے عمل درآمد کے لیے قانون و ضوابط کی تعمیل یقینی بنا رہا ہے تاکہ صوبے میں سرمایہ کاری کے ماحول میں مستقل بہتری لائی جا سکے۔

پھر بلوچستان سرمایہ کاری بورڈ نقشہ سازی کے پیچیدہ کام سمیت صوبے میں سرمایہ کاری سے متعلق قانونی، مالی نظام کو خودکار بنا رہا ہے، جو سرمایہ کاروں کو باآسانی دست یاب ہوگا۔ اِس بورڈ کے حوالے سے سابق وزیرِ اعلیٰ، میر جام کمال خان کے دَور میں کافی کام ہوا اور اب موجودہ وزیرِ اعلیٰ میر سرفراز بگٹی بھی سرمایہ کاری کے لیے انتہائی متحرّک اور پُرعزم ہیں۔

س: بلوچستان کے کون سے شعبوں میں بیرونی اور اندرونی سرمایہ کاری کے مواقع دست یاب ہیں؟

ج: صوبے میں کثرت سے پائے جانے والے وسائل، غیر مُلکی سرمایہ کاروں کو بے شمار مواقع فراہم کرتے ہیں۔ بلوچستان میں کاروبار، تجارت اور سرمایہ کاری کے سنہرے مواقع موجود ہیں، جن میں کان کنی، قابلِ تجدید توانائی، تیل و گیس کی تلاش، زراعت، لائیو اسٹاک، فشریز، فوڈ پراسیسنگ، لاجسٹک، ساحلی ترقّی اور سیّاحت کے شعبے نمایاں ہیں۔ اگر ہم سرمایہ کاری کے مواقع سے بھرپور فائدہ اُٹھائیں، تو دس سالہ منصوبہ بندی کے تحت 200سے300 ارب روپے کا ریونیو حاصل کیا جا سکتا ہے۔ 

صنعتی شعبے کی بات کی جائے، تو بلوچستان کا تعمیراتی شعبہ بنیادی طور پر کوئٹہ، حب، وندر اور گڈانی میں واقع ہے۔ صوبائی حکومت حب اور بوستان میں قائم دو خصوصی اقتصادی زونز پر کام کر رہی ہے، جن کا مقصد ان علاقوں میں انڈسٹریز کے قیام کے لیے سرمایہ کاروں کو راغب کرنا ہے۔ 

اِن اقتصادی زونز کی ترقّی کے لیے نجی شعبے کی جانب سے بہت سی درخواستیں موصول ہو چُکی ہیں اور حکومت خضدار، تُربت اور پسنی میں بھی انڈسٹریل اسٹیٹس کے قیام پر غور کر رہی ہے تاکہ مقامی افراد کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جا سکیں۔نیز، صنعتی شعبوں میں فارماسوٹیکل، الیکٹرانک، پلاسٹک، آئل کیمیکلز، ویلز انجینئرنگ، پیکنگ، مٹّی کے برتن، طب، زیورات، سیمنٹ، ہتھیار سازی، دست کاری، ٹیکسٹائل، فوڈ پراسیسنگ اور قالین بافی کے انتہائی پُرکشش اور منافع بخش شعبے موجود ہیں۔

معدنیات و معدنی وسائل میں ریکوڈک اور سیندک سمیت مختلف علاقوں میں اعلیٰ معیار کی معدنیات دریافت ہو چُکی ہیں۔ سیندک، ضلع چاغی اور دودر ضلع لسبیلہ میں معدنی شعبے کے لیے ایکسپورٹ پراسیسنگ زونز موجود ہیں، جب کہ حب میں ایک ماربل سٹی بھی فعال ہے۔ مائنز اینڈ منرلز کے ضمن میں بھی بلوچستان کو’’جنّت‘‘ کہا جا سکتا ہے۔یہاں دھاتی اور غیر دھاتی معدنیات موجود ہیں۔

دھاتی معدنیات میں سونا، تانبا، سیسہ، زنک، انٹی مونی، ٹائیٹینم، میگنیشم، ایلومینیم، لوہا، جب کہ غیر دھاتی معدنیات میں کوئلہ، گندھک، بیرائیٹ، جپسم، سوپ اسٹون اور کیلسائیٹ وغیرہ موجود ہیں۔ قیمتی پتھروں میں سلیمانی سنگِ مرمر، گرینائیٹ اور آر ڈی سنگِ مرمر وغیرہ بھی یہاں ملتے ہیں۔ 

توانائی کے شعبے میں شمسی توانائی کے ذریعے بجلی کی پیداوار، شمسی توانائی کے پلانٹس، پن بجلی کے چھوٹے منصوبے، ٹرانسمیشن لائنز اور بجلی کی تقسیم کی اَپ گریڈیشن سمیت انرجی پارکس میں سرمایہ کاری کے سنہری مواقع سے فائدہ اُٹھایا جاسکتا ہے۔ اِس ضمن میں حکومت نے خصوصی مراعات کا بھی اعلان کیا ہے، جن میں بینکس کے لیے سیکیوریٹی دستاویزات بشمول خود مختار ضمانتیں، ٹیکس چُھوٹ، درآمدی ڈیوٹیز میں رعایت، وَن ونڈو آپریشن کے تحت تیز رفتار منظوری، مارکیٹ رِسک کے خاتمے کے لیے سرمایہ کار دوست پالیسیز، امریکی ڈالرز میں ادائی کی ضمانت اور 80ارب ڈالرز تک کی استعداد شامل ہے۔

بلوچستان قابلِ تجدید توانائی کے ذخائر کے حوالے سے ایک امیر خطّہ ہے کہ یہاں شمسی توانائی، ہوا، جیو تھرمل سے بجلی کی پیدوار اور پن بجلی کے ذرائع بکثرت موجود ہیں۔ 50میگا واٹ کے 25شمسی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے والے پاور پلانٹس کے منصوبے بھی فزیبلٹی کے مراحل میں ہیں۔ سعودی حکومت کے ساتھ 500میگا واٹ کے منصوبے کا معاہدہ ہو چُکا ہے۔ جیالوجیکل رپورٹس کے مطابق صوبے کے مختلف علاقوں میں تیل و گیس کے وسیع ذخائر پائے جاتے ہیں۔ اِسی طرح صوبے کی زرعی آمدن میں لائیو اسٹاک کا حصّہ47فی صد ہے اور صوبے کی 93فی صد سے زائد زمین اِس کے لیے انتہائی موزوں ہے۔

لائیو اسٹاک کے شعبے میں نامیاتی گوشت کی پراسیسنگ اور بین الاقوامی مارکیٹ میں برآمد، گوشت کی مصنوعات کے لیے صنعت کا قیام، جدید مذبح اور فیڈ فیکٹریز، معیاری حلال پولٹری مصنوعات، بکرے، بیل اور اونٹ کے گوشت کی پیدوار اور مشرقِ وسطیٰ یا وسط ایشیائی ممالک میں اس کی مارکیٹنگ، خوراک کے ذریعے جانوروں کا وزن بڑھانے کے پلانٹس، جانوروں کی جِلد اور اندرونی اعضا کی پراسیسنگ، اونٹ کے دودھ اور گوشت کی پراسیسنگ، اون کی صنعت، ڈیری مصنوعات اور برائلر کی تجارتی پیدوار میں سرمایہ کار فائدہ اُٹھا سکتے ہیں۔ بلوچستان زرعی حوالے سے بھی عالم گیر شہرت کا حامل ہے۔ یہاں کے پھل، سبزیاں اور خشک میوہ جات کی بین الاقوامی منڈیوں تک مانگ ہے۔ 

یہاں گندم، چاول، مکئی، جوار، باجرا، خوبانی، چیری، آڑو، انگور اور زیتون وغیرہ پیدا ہوتے ہیں، جب کہ 40سے زائد اقسام کی بہترین کھجوروں کی بھی پیدوار ہوتی ہے۔ سیب کا ٹریٹمنٹ پلانٹ، کھجور کا پراسیسنگ پلانٹ، خشک اور تلی ہوئی پیاز کا پلانٹ، کولڈ اسٹوریج، فوڈ پراسیسنگ، کٹ فلاور کی پیدوار، گرین ہائوسنگ فارمنگ، ٹل فارمنگ، خوبانی کا تیل نکالنے کے لیے پلانٹس، پھلوں کی نرسریز اور پیکنگ ہائوسز میں سرمایہ کار اپنا پیسا لگا کر نہ صرف خود کو مالی طور پر مستحکم کر سکتے ہیں، بلکہ مُلک اور صوبے کی معیشت بہتر بنانے میں بھی کردار ادا کر سکتے ہیں۔بلوچستان کے ساحل پر پکڑی جانے والی مچھلیوں کی مجموعی تعداد کا 80فی صد مشرقِ وسطیٰ، جنوبی و وسط ایشیا اور دیگر ممالک کو برآمد کیا جاتا ہے۔ 

یہاں مچھلیوں کی مختلف اقسام پائی جاتی ہیں، جن میں سی کیٹ فش، ہیر ٹیل فش، انڈین ماکیرل، سردین فش، چھوٹی کروکر اور ٹونا وغیرہ مچھلی شامل ہیں۔ گوادر اور پسنی میں طویل ساحلی علاقوں کے 8مراکز پر روزانہ تین درجن سے زائد اقسام کی مچھلیاں، کیکڑے، جھینگے پکڑے جاتے ہیں۔ فش پراسیسنگ پلانٹس، فش اسٹوریج، ویئر ہاؤسز اور رسد، کشتیوں کی اَپ گریڈیشن، جیٹیوں کی تعمیر، تربیتی اداروں کا قیام، شپ بریکنگ، ساحل پر ہوٹلز اور ریزورٹس کی تعمیر میں سرمایہ کاری کے وسیع اور روشن امکانات ہیں۔

سیّاحت کے حوالے سے بھی بلوچستان بے حد پُرکشش ہے۔یہ مُلک کے خُوب صُورت ترین سیّاحتی مقامات کا اہم مرکز ہے۔ یہاں دل کش مناظر، پہاڑ، ساحلی پٹّی، برفانی علاقے، قدرتی پارکس، جنگلی اور آبی حیات پائی جاتی ہیں۔ دنیا کے دوسرے بڑے صنوبر کے جنگلات زیارت میں پائے جاتے ہیں۔ بلوچستان میں دریافت ہونے والے آثارِ قدیمہ میں مہر گڑھ کی تاریخ700قبلِ مسیح کی ہے، جو انڈس تہدیب سے بھی 3500سال قدیم ہے۔

س: بلوچستان کی پس ماندگی اور بے روزگاری دیکھتے ہوئے یہاں تجارتی اور معاشی سرگرمیوں کا فروغ کتنا ضروری ہے؟

ج: بلوچستان مُلک کے نصف حصّے سے زائد پر محیط ہے، لیکن یہاں پس ماندگی بہت زیادہ ہے اور روز گار کے مواقع تو نہ ہونے کے برابر ہیں۔آبادی کی اکثریت غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے۔ صوبے میں تجارتی و معاشی سرگرمیوں کو فروغ دے کر غربت کا خاتمہ ممکن ہے۔ آپ دیکھ لیں کہ صوبے میں غربت اتنی ہے کہ بچّے خوراک نہ ملنے سے لقمۂ اجل تک بن جاتے ہیں۔

اگر تجارتی سرگرمیوں کے فروغ اور لوگوں کو روزگار فراہم کرنے کے اقدامات نہ کیے گئے، تو صُورتِ حال مزید خراب ہو سکتی ہے۔ ہر شخص کو سرکاری سیکٹر میں تو نوکری نہیں دی جا سکتی، البتہ تجارتی سرگرمیوں کے فروغ سے روزگار کے نت نئے مواقع ضرور فراہم کیے جاسکتے ہیں۔

آج بلوچستان میں دہشت گردی بڑھ رہی ہے اور اس کی بڑی وجہ بھی روزگار کا نہ ہونا ہے۔ اگر نوجوانوں کو روزگار دیا جائے، تو کون بندوق تھامے گا۔ماضی میں نجی سیکٹر پر توجّہ نہیں دی گئی۔ حب میں جتنی صنعتیں ہیں، وہاں زیادہ تر کام کرنے والوں کا تعلق سندھ سے ہے۔

موجودہ صوبائی حکومت، خاص طور پر وزیرِ اعلیٰ، سرفراز بگٹی روزگار کی فراہمی کے ضمن میں کافی کوششیں کر رہے ہیں۔ صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 30ہزار نوجوانوں کو فنی تربیت کے لیے بیرونِ ممالک بھجوایا جا رہا ہے اور ہمیں ٹاسک دیا گیا ہے کہ تجارتی سرگرمیوں کے ذریعے ایک لاکھ تک نوکریاں تخلیق کی جائیں۔

س: بورڈ نے اب تک سرمایہ کاری کے فروغ کے لیے کیا اقدامات کیے ہیں؟

ج: بلوچستان بورڈ آف انویسٹمنٹ کی جانب سے مُلکی و غیر مُلکی سرمایہ کاری کے لیے ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے، جب کہ صوبے میں کاروباری ماحول بہتر بنانے کے لیے بھی متعدّد اقدامات کیے جا رہے ہیں، اِس سلسلے میں مُلک بَھر کے کاروباری طبقے کو آن بورڈ لیا جا رہا ہے، جب کہ بورڈ مختلف دوست ممالک کے سفارت کاروں، غیرمُلکی کمپنیز، مُلک بَھر کے چیمبرز آف کامرس، صنعت کاروں اور بزنس لیڈرز کو بلوچستان میں سرمایہ کاری پر راغب کرنے کے لیےرابطے بھی کر رہا ہے اور ہمیں بہت سی کام یابیاں حاصل بھی ہوئی ہیں۔صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ مُلکی سرمایہ کار ایل پی جی ٹرمینل حب میں نصب کر رہے ہیں۔ 

حب اسپیشل اکنامک زون پی پی موڈ میں جا رہا ہے، جس کے باعث مقامی بزنس ترقّی کرے گا اور ڈیڑھ لاکھ کے قریب روزگار کے مواقع پیدا ہوں گے۔ بوستان میں ای بائیک کی فیکٹری سمیت ڈالڈا گھی کی کمپنی بننے جا رہی ہے۔ حب میں وسیع و عریض ٹور ازم سٹی بنارہے ہیں، جس میں لاہور سمیت دیگر شہروں کے سرمایہ کار اپنا سرمایہ لگائیں گے۔

بلوچستان بورڈ آف انویسٹمنٹ نے 15ممالک کے سفراء کی میزبانی کی اور اُنہیں بلوچستان میں سرمایہ کاری کے مواقع سے آگاہ کیا، جس پر اُنہوں نے حب اور بوستان میں سرمایہ کاری کی ہامی بَھری ہے، جب کہ ہماری کوشش ہے کہ اسے دیگر علاقوں تک وسعت دی جائے۔ نیز، ہم آنے والے دنوں میں سرمایہ کاری کانفرنس بھی منعقد کروائیں گے۔

س: اگر مقامی سرمایہ کار آگے بڑھیں گے، تب ہی دیگر صوبوں اور بیرونِ ممالک سے سرمایہ آئے گا، تو اِس حوالے سے کیا اقدامات کیے گیے ہیں؟

ج: جی بالکل۔ پہلے بلوچستان کے سرمایہ کاروں کی ذہن سازی کرنی ہوگی کہ یہاں بڑے بڑے تاجر ہیں، جو دیگر صوبوں اور بیرونِ ممالک میں کاروبار کر رہے ہیں، لیکن اُن کا صوبے میں سرمایہ کاری کی جانب رجحان نہیں۔

بوستان زون میں 19پلاٹس ہیں، جن میں 15مقامی سرمایہ کاروں کو الاٹ کیے گئے، لیکن اُنہوں نے تاحال کام شروع نہیں کیا۔ اگر ان کی الاٹمنٹ منسوخ کی جائے، تو پھر یہ لوگ شور شرابا شروع کر دیں گے، جب کہ مقامی سرمایہ کاروں کو مختلف مراعات بھی آفر کی گئی ہیں۔

س: موجودہ حکومت کے پاس بلوچستان کو ترقّی و خوش حالی کی راہ پر گام زن کرنے کے کیا منصوبے ہیں؟

ج: وزیرِ اعلیٰ سرفراز بگٹی کی قیادت میں صوبائی حکومت غربت کے خاتمے اور مقامی افراد کے لیے ملازمت کے مواقع کی فراہمی کے لیے پُرعزم ہے۔

س: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ امن و امان کی صُورتِ حال سے ان منصوبوں پر کوئی فرق پڑ سکتا ہے؟

ج: بلوچستان کی ترقّی ہی مُلکی امن و خوش حالی کی ضامن ہے، جب کہ تعمیر و ترقّی کے لیے امن اور سیاسی استحکام لازم ہے۔صوبے کے چند اضلاع میں امن و امان کے سنگین مسائل موجود ہیں، تو صوبائی حکومت، سیکیوریٹی فورسز کی معاونت سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ اِس ضمن میں آپریشنز کے ساتھ، عوام کی کاؤنسلنگ بھی کی جا رہی ہے۔ بلاشبہ اگر صوبے میں دہشت گردی نہ ہوتی، تو ہمیں سرمایہ کاری کے لیے اِتنی کوششیں نہ کرنی پڑتیں۔

جو اضلاع امن و امان کے حوالے سے بہتر اور سرمایہ کاروں کے لیے محفوظ ہیں، فی الحال اُن پر زیادہ فوکس کیا جا رہا ہے۔ مجھے پورا یقین ہے کہ حکومت اور سیکیوریٹی فورسز کی محنت سے صوبے میں امن کا سورج ضرور طلوع ہوگا اور اس کے لیے معاشی سرگرمیوں پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے، کیوں کہ روزگار کے ذریعے ہی نوجوانوں کو تخریب کاری کا ایندھن بننے سے روکا جا سکتا ہے۔

س: اب تک کتنی کمپنیز یا اداروں نے صوبے میں منصوبے لگانے میں دل چسپی کا اظہار کیا ہے؟

ج: کئی ممالک کے صنعت کاروں نے بلوچستان میں سرمایہ کاری میں گہری دل چسپی ظاہر کی ہے۔ اسلام آباد میں بورڈ کے زیرِ اہتمام ایک میٹنگ کے دوران10 سے زائد ممالک کے قونصل جنرلز اور سفراء نے بلوچستان میں موجود مواقع میں بھرپور دل چسپی کا اظہار کیا۔ان ممالک میں ازبکستان، مراکش، آذربائیجان، روس، ترکمانستان، کینیا، اردن، ملائیشیا، پرتگال اور ناروے شامل ہیں۔

ہم نے مختلف ممالک کے سرمایہ کاروں کو راغب کرنے کے لیے دنیا بَھر میں پاکستان کے سفارت خانوں کے ساتھ سرمایہ کاری کی تفصیلات، سیکٹر پروفائلز اور پچ بُک کا اشتراک کیا ہے۔اس کے علاوہ مُلکی سطح پر بڑے سرمایہ کار گروپس کے ساتھ رابطے میں ہیں۔نیز، فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (FPCCI) کے ساتھ مفاہمت کی ایک یادداشت پر دست خط بھی کیے ہیں۔ہمارے بہت سے منصوبے جلد زمین پر نظر آئیں گے۔

س:حکومت کی جانب سے سرمایہ کاروں کو کیا مراعات د ی جا رہی ہیں؟

ج: سرمایہ کاروں کو درپیش چیلنجز حل کرنے کے لیے صوبائی اور وفاقی حکومتوں نے مختلف اقدامات اور اصلاحات متعارف کروائی ہیں۔متعدّد شعبوں میں100فی صد تک غیر مُلکی ملکیت کی اجازت دی گئی ہے۔ نیز،غیر مُلکی کمپنیز کے لیے آن لائن بزنس رجسٹریشن اور برانچ آفس کھولنے کی اجازت دی گئی ہے۔ 

ہمارا قانونی نظام غیر مُلکی ثالثی ایوارڈ کو تسلیم اور اس کا نفاذ کرتا ہے۔ قومیائے نہ جانے اور ضبط نہ کیے جانے کی ضمانت دی گئی ہے، جب کہ Intellectual Property Rightsکی رجسٹریشن، تحفّظ اور نفاذ کے لیے بھی بہترین نظام متعارف کروایا گیا ہے۔اس کے علاوہ تیکنیکی اور انتظامی عملے کے لیے ورک ویزے کی سہولت بھی دی گئی ہے۔ 

بورڈ آف انویسٹمنٹ سرمایہ کاروں کی سہولت کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کے ساتھ، ضروری معلومات اور معاون خدمات بھی فراہم کرتا ہے۔ اسپیشل اکنامک زونز(SEZ)، گوادر فری ٹریڈ زون اور ایکسپورٹ پراسیسنگ زونز کا قیام عمل میں لایا گیا ہے، جہاں حکومت سرمایہ کاری کے لیے مراعات اور سہولتیں فراہم کرتی ہے، جن میں پلانٹ، مشینری اور آلات پر 25فی صد درآمدی ڈیوٹی اور 5فی صد کسٹمز ڈیوٹی کی چُھوٹ شامل ہے۔

س: بلوچستان میں کتنے مُلکی اور غیر مُلکی سرمایہ کاری کے منصوبے چل رہے ہیں؟

ج: اِس وقت سات سرمایہ کاری منصوبے عمل درآمد کے مرحلے میں ہیں، جن میں سے بعض عملی مرحلے تک پہنچنے والے ہیں۔ اس کے علاوہ15سے زائد منصوبے پیش رفت کے مرحلے میں ہیں۔ اِن منصوبوں میں مُلکی اور غیر مُلکی سرمایہ کاری دونوں شامل ہیں۔

س: سرمایہ کاروں کو کوئی پیغام دینا چاہیں گے؟

ج: بلوچستان، دنیا بَھر کے سرمایہ کاروں کے لیے ایک پُرکشش منزل بن رہا ہے کہ یہاں بے پناہ مواقع موجود ہیں۔ یہ خطّہ عالمی برادری کے لیے ایک مثالی اقتصادی مرکز بن سکتا ہے۔وسائل، اسٹریٹیجک محلِ وقوع اور وسیع اقتصادی مواقع سے مالا مال یہ صوبہ، بلاشبہ پاکستان کے علاقائی اور عالمی تجارت کے دروازے کی حیثیت رکھتا ہے۔ 

گوادر پورٹ، چین پاکستان اقتصادی راہ داری کے سنگِ بنیاد کے طور پر مرکزی حیثیت رکھتی ہے۔ یہاں کے قدرتی وسائل، جیسے ریکوڈک، کاپر، گولڈ مائن، کرومائٹ، سنگِ مرمر اور قدرتی گیس کے وسیع ذخائر مُلکی و عالمی سرمایہ کاروں کو بے مثال مواقع فراہم کرتے ہیں۔ نیز، زراعت اور ماہی گیری کے شعبے بھی سرمایہ کاری کے لیے پُرکشش ہیں۔

صوبائی حکومت نے خصوصی اقتصادی زونز، جیسے گوادر فری زون، قائم کیے ہیں، جو ٹیکس چُھوٹ، ڈیوٹی فِری مشینری کی درآمد اور سرمایہ کاری کی دیگر سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ نیز، سرمایہ کاروں کو مؤثر سیکیوریٹی فراہم کی جا رہی ہے، جب کہ وزیرِ اعلیٰ خود بھی براہِ راست اُن سے رابطے میں رہتے ہیں۔